Posted date: April 03, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
دنیا کے ممتاز آبی ماہرین پاکستان کو دنیا کے اُن چند خوش قسمت ملکوں میں سمجھتے ہیں قدرت نے جسے پانی کی بے پایاں قیمتی دولت سے نوازا ہوا ہے، اِس کے ساتھ وہ یہ کہتے ہوئے بھی ہمیں عجیب الفطرت قوم سمجھتے ہیں’’ یہ کیسی قوم ہے جسے اپنی آزادی کے 67 برس گزرنے کے بعد آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے ‘ اپنی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کی بحالی کو رواں دواں رکھنے کے لئے اپنے بے پناہ آبی ذخائر کو میگا ڈیمز بناکر اُسے محفوظ کرنے کی طرف کوئی فوری توجہ نہیں دیتی، اپنے ملک کو توانائی کے وسائل سے فیض یاب کر نے میں دوٹوک فیصلہ نہیں کرپاتی ‘‘ یقیناًاگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو غلط نہیں سمجھتے اُن کی یہ سوچ ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کیا کافی نہیں؟ مگر قوم بیچاری کرئے تو کیا کرئے اِ س قوم کے ہر عہد کے حکمرانوں میں شائد یہ سمجھنے کی وہ فیصلہ کن بصیرت ہی نہیں کہ ملک پر کبھی ایسا کڑا اور مشکل ترین وقت بھی آسکتا ہے جب یہ ملک بھی دنیا کے چند اور ملکوں کی طرح شدید آبی قلت کے شکنجے میں پھنستا چلا جائے گا بلاآخر آج ایسی ہی ملتی جلتی تشویش ناک صورتحال سے ہم اپنے کو گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں چار پانچ ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں کے آغاز کے اعلانات قوم نے سنے ضرور‘ مگر قوم تاحال آبی قلت کے ساتھ ساتھ توانائی کے شدید بحران کا بھی شکار ہے بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے’ حصولِ مقبوضہ جموں و کشمیر ‘کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور ہم 67 برس سے تاحال اِس ’سلوگن ‘ کو بطور نعرہ سمجھتے رہے ہم اب تک نہیں سمجھ پائے کہ قائداعظم نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو پاکستان کی’شہ رگ‘ قرار کیوں دیا تھا ؟سرزمینِ کشمیر کی فلک بوس وادیوں سے بہہ کر آنے والے پانی میں ہی تو پاکستان کی زندگی کی روح پنہاں ہے کشمیر سے ملحق آسمان کو چھونے والے گنجلک سلسلے در سلسلے وار برفانی گلیشئرز پاکستانی قوم کے لئے صدیوں کی زندگی کی آبی وتوانائی کی ضروریات کا خزانہ لئے ہمارے فیصلوں کے منتظر؟لیکن آج اِن کلیشئرز کو بھارتی فوجیوں نے اپنی کھلی دریدہ دہنی سے میدانِ جنگ بنا دیا ہے اب آیا سمجھ میں کہ سردار پٹیل نما جنونی ہندو کانگریسی لیڈروں کی تقسیمِ ہند کی مخالفت میں ادا کیئے جانے والے اُن تاریخی جملوں کا مطلب کہ ’یہ پاکستان زیادہ دن تک نہیں چل سکتا جلد ’اکھنڈ بھارت ‘ کا حصہ بنے گا؟ ‘ تقسیمِ ہند کے فوراً بعد کشمیر میں کانگریسی لیڈروں نے بھارتی فوجیں اتار د یں، مسئلہ ِٗ کشمیر پر جب پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی تو نہرو نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی دہائی دیدی، چونکہ انگریز سامراج اور مغرب دونوں صدیوں کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی ہیں، لہذا اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے ’کشمیر کو اسٹیٹس کُو ‘ قرار دیدیا، دونوں متحارب فوجیں اپنی اپنی جگہ پر رک گئیں اب یہ لائن آف کنٹرول قرار پاگئی، وہ دن ہے اور آج کا دن ‘ مسئلہ ِٗ کشمیر جوں کا توں اپنی جگہ پر ہے افسوس صدہا افسوس! پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں جن میں فوجی حکمران بھی آئے
مسئلہ ِٗ کشمیر کی سنگین حساسیت کو وطن پرستانہ نیک نیتی کے سفارتی جذبوں سے کسی نے ویسا محسوس نہیں کیا جیسا بانی ِٗ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے نصف صدی سے زائد عرصہ قبل اپنی دور بیں سیاسی بصیرت سے نہ صرف سمجھا تھا بلکہ آنے والے حکمرانوں کو بھی سمجھا دیا تھا مگر، وہ ہی ہوا ،جیسا تقسیمِ ہند کے زمانے کے پاکستان مخالف کانگریسی لیڈر چاہتے تھے اُنہوں نے اپنی مکارانہ چالبازیوں کی سفارتی دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو پاکستان کے ساتھ پانی کے اہم انسانی مسئلہ سے پیوست کردیا ،بھارت کو بڑی آسانی کے ساتھ پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کے سابق غدار کمشنر جماعت علی شاہ جیسے اہم عہدیدار میسر آگئے ’ملٹر ی کُو‘ کی غداری کی باتیں اور مقدمہ اپنی جگہ صحیح جناب! پانی جیسی دولت جو انسانی ضروریات کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے اِس کے فوائد مزید اور کیا ہیں معلوم ہے کسی کو کہ یہ کائنات یہ کرّہِ ارض اربوں انسانی کی یہ دنیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِس کائنات کی ابتدائی تشکیل’’ پانی‘‘ سے ہی کی ہے وائےِ مقامِ ندامت! پاکستان کا پانی بیچ دیا گیا انڈس واٹر کمیشن کے سابق کمشنر جماعت علی شاہ نے مقبوضہ جمو ں وکشمیر میں تعمیرکردہ بھارت کے متنازعہ ڈیموں مثلاًدریائے چناب پر مقبوضہ کشمیر میں قائم کیا جانے والا متنازعہ بگلیہیار ڈیم کی تعمیر میں بروقت نوٹس لینے میں جو مجرمانہ تاخیر کی اُس تفصیلی معائنہ میں غیر ضروری تاخیر برتی، بلکہ عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کے مضبوط کیس کو کمزور بناکر پیش کیا ، کیا یہ غداری کسی ’ملٹری کُو ‘ سے کم حیثیت کی غداری نہیں ہے جناب! نجی میڈیا نے اپنی زبانوں پر نجانے کیوں اِس معاملے میں تالے ڈال رکھے جن کو بھی بولنا آتا ہے وہ خاموش ؟ ہر غیر اہم ایشو کو میڈیا نے‘ ماضی کی فعال عدلیہ نے بڑا اچھالا، نہیں بات کی ئی تو انڈس واٹر کمیشن کے سابق مفرور کمشنر سیّد جماعت علی شاہ کے بارے میں آج تک کوئی بات نہیں کی گئی جیسے یہ شخص کبھی پاکستان میں کسی عہدے پر تھا ہی نہیں ؟بھارتیوں سے ملی بھگت کرکے قوم کے ساتھ اِس نے جو بہیمانہ غداری کی اُس پر کسی جانب سے آج تک کوئی ایک آواز نہیں اُ ٹھی، سپریم کورٹ نے بھی کوئی سوموٹو نہیں لیا نیب بھی خاموش اور ایف آئی اے کو بھی چپ لگی ہوئی ہے اور تو اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت معصوم و انجان بنی کیا نہیں جانتی کہ عالمی ثالثی کمیشن نے پاک بھارت آبی تنازع میں بھارت کے حق میں اپنا متنازعہ فیصلہ سنا دیا ہے ؟پاکستان کے کھیت کھلیانوں کو صحراؤں میں بدلنے کی بھارتی آبی سازش اب ڈھکی چھپی باتیں نہیں ر ہیں قوم کو مسلسل اندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ تجارت شروع کرنے والوں کی عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں ہمیشہ وہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت نے1960 میں کیئے جانے والے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی اور پاکستان میں آنے والے دریاؤں کے تمام پانی پر اُس نے اپنا غیر اخلاقی و ناجائز استحقاق جما لیا ،1960 میں جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا تو اُس وقت بھی اِن خدشات کا اظہار اعلیٰ سطحی پیمانے پر محبِ وطن میڈیا میں کیا گیا تھا کہ ’بھارت مستقبل میں اِس معاہدے کی خلاف ورزی ضرور کرئے گا اُس زمانے میں پانی کے اِس اہم انسانی ایشو پر بڑی سخت لے دے ہوئی تھی عین ممکن تھا اُس وقت یہ ’معاہدہ ‘ منسوخ کردیا جاتا مگر اُس عشرے میں پے درپے سیاسی تبدیلیوں سے بھارت نے اپنے لئے موقع غنیمت جانا اِس کا فائدہ اُٹھایا جبکہ چند مغربی ممالک نے بھارت کی درپردہ حمایت کی عالمی بنک ‘ آسٹریلیا‘ کینڈا‘جرمنی ‘ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ اور امریکا ویرہ اِس آبی تنازعہ میں کود پڑے، یوں سندھ طاس معاہدہ ٹوٹنے سے گو بچ گیا پاکستان کو یہ تسلی دلائی گئی کہ دریائے سندھ ‘ چناب اور جہلم کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہوگا بھارت اِن دریاؤں کے رخ موڑنے ‘اِن کے بہاؤمیں کسی طرح کی رکاوٹ ڈالنے سے ہمیشہ باز وممنوع رہے گا، مگر یہ اہم’ انسانی معاہدہ‘ بھی مسئلہ ِٗ کشمیر کی طرح آج تک عالمی سرد مہری کا شکار ہے سندھ طاس معاہدے کی بھارت نے 1999 میں دیدہ دلیری سے دھجیاں اُڑاکر بگلیہار کے مقام پر 430 میگاواٹ طاقت کا ہائیڈروپاورمنصوبہ شروع کرنے کا غیر اخلاقی فیصلہ کیا آج 18 کروڑ پاکستانی نفوس کا اپنی منتخب پارلیمنٹ سے یہ سوال ہے وہ کشمیر سمیت پاکستان کے پانی جیسے اہم دیرینہ حساس مسائل پر بھارت سے دوٹوک مذاکرات کب کریں گے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے؟۔