پاکستان افغا نستان تعلقات میں غیرملکی اندازِ نظر نہیں چلے گا
Posted date: August 16, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
بطور افغان صدر اشرف غنی واقعی آجکل بہت مشکل ترین حالات میں اپنے فرائضِ منصبی ادا کررہے ہیں ورثے میں اُنہیں افغان اسٹیبلیشمنٹ کا جیسا تیسا انفراسٹریکچر ملا اُس میں سے 85% انفراسٹریکچر ابھی تک’ کرزئی عہد‘ کے چلے جانے کے باوجود تاحال بھارت نوازی کے پلڑے میں ہی بیٹھا ہوا ہے، یہ نئی دہلی والے ‘پاک افغان معاملات میں اپنے سینگ بلا وجہ پھنسائے نہیں بیٹھے اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہی ‘ جیسا کہ پاک افغان معاملات پر گہری واقفیت رکھنے والے ماہرین بخوبی جا ن چکے ہیں کہ بھارت کسی صورت میں افغانستان میں پاکستان کو ’فری ہینڈ‘ ملتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، افسوس صدہا افسوس! یہ ہی تو اُس کی پہلی سب سے بڑی غلط سوچ ہے متعصبانہ سوچ ہے اُس کا یہ اندازہ بھی کسی حالت میں درست نہیں سمجھا جانا چاہیئے کہ پاکستان نے کبھی افغانستان کے اندر اپنے لئے کسی’رول‘ کا انتخاب کیا ہو، یا اِس کے لئے کوئی فضاء ہموارکرنے کی کوئی کوشش کی ہو ‘ پاکستان کی ہمیشہ سے اوّلین کوشش یہ رہی کہ افغانستان کے اندر کی آئے روز کی بڑھتی ہوئی خونریز خانہ جنگی کسی طرح سے ختم ہو اور افغانستان کے اندرونی امن وامان کو مضبوط استحکام ملے ،افغان عوام اپنے لئے اپنی سرزمین کی بہتری وفلا ح کے لئے اور ترقی وخوشحالی کے اپنے فیصلے خود کر سکیں اِس سے زیادہ پاکستان نے کبھی بڑھ کر اور کچھ نہیں سوچا نہ اُسے سوچنے کی ضرورت ہے، ہر کسی کو یہ بات اپنے پّلے باندھنی ہوگی کہ ایک آزاد وخود مختار افغانستان اِس خطہ میں اگر کسی پڑوسی ملک کے ضروری ہے تو وہ ملک دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے کوئی اور ملک نہیں ہوسکتا، پاکستان کی سیکورٹی اسٹبلیشمنٹ کا مطمعِ نظر بھی یہ ہی ہے اور ملکی سیاسی و پارلیمانی حکام بھی ایسا ہی آزاد وخود مختار افغانستان چاہتے ہیں رواں برس18 ؍ مئی کو افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی اور پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک ’ایم او یو‘ یا مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے ‘ اس معاہدہ کے تحت پاکستان اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کر نے پر رضامند ہوئی تھیں‘ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے حکام کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے معاہدے پر دستخط ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں اس نوعیت کے معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ یہ اہم معاہدہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے لیے مناسب سمجھا گیا جبکہ ماضی میں ہونے والے ایسے معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، تاہم اِس مرتبہ یہ امید ظاہر کی گئی کہ اس بار اس معاہدے یا یادداشت پر آئی ایس آئی کی طرف سے نیک نیتی کے ساتھ مخلصانہ طور پر ٹھوس اور بامقصد عملدرآمد کیا جائے گا، تفصیلات کے مطابق اس معاہدے کے تحت مشترکہ دشمن کی نشاندہی کی جائے گی اور اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ افغانستان کے امن کو کن عناصر سے خطرہ ہے‘ معاہدے میں یہ شق بھی شامل رکھی گئی تمام شدت پسند اور ہر دو جانب کے دہشت گرد گروہوں کی نشاندہی بھی کی جائے گی ، اصل میں ’پاکستان افغانستان انٹیلی جنس شئیرنگ‘ کے تاریخی ’ایم او یو‘ پر دستخط کی خبر نے پاکستان دشمنوں کی نیندیں اُڑا دیں بھارت اور امریکا سمیت مغربی خفیہ ایجنسیاں بھی انگشت بدنداں رہ گئیں جس کے بعد خود افغانستان کے اندر بیٹھے ہوئے وہ بھارت نواز حلقے اور ذرائع ابلاغ کے میڈیمز متحرک ہوئے اور سوشل میڈیا پر بھی زبردست رد عمل سامنے آنا شروع ہو ا ،یعنی نئی دہلی کی روٹیوں پر پلنے والے
بہت سے مفادات پرست افغانی تجزیہ نگار اور مبصرین یہ کہنے لگے کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ ایسا حساس ترین معاہدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ زمینی حقائق سے اپنی نظریں چرانے والے کہاں نہیں پائے جاتے؟ جہاں ایسے لوگ ہوتے ہیں وہاں ہمہ وقت زوال پذیری کے دلدادہ ‘ بحرانوں میں اپنی روٹیاں کمانے والوں میں کچھ حقائق طلب ‘سچائی کے متلاشی اور اپنے سماجی و ثقافتی معاشرے کو مزید تباہی وبربادی سے بچانے کی فکر میں رہنے والے کہیں نہ کہیں آس پاس موجود ہوتے ہیں اِیسے ہی حلقوں نے پاکستان اور افغانستا ن انٹیلی جنس شئیرنگ معاہدے کرنے پر افغان حکومت کے اُس اقدام کے بارے میں یہ تجزیہ بھی دیا کہ ’ اب افغانستان میں سنجیدہ فیصلہ
کن اقدامات کرنے کا وقت آچکا ہے اور یہ معاہدہ افغان حکومت کا ایک خوش آئندہ اور مثبت فیصلہ ہے جس کے روبہ ِٗ عمل آنے کے بعد ’پاکستان افغانستان مفاہمت ‘ کا ایک نیا قابلِ رشک دوستانہ سفر شروع ہوسکتا ہے، جس سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کو مزید بہتر اور پُر اعتماد بنانے میں مستقبل قریب میں بہت زیادہ مدد ملے گی، اگر افغانستان کی مجموعی سیاست کا منطقی نظروں سے عمیق جائزہ لیا جائے تو 9/11 کے بعد سے اب تک افغان سیاست کو پاکستان کے ساتھ اعتماد اور بھروسہ کے دوستانہ تعلقات بنانے میں رخنے ڈالنے ‘ روڑے اٹکانے اور تسلسل سے بد اعتماد ی کی جانب دھکیلنے میں امریکا نے ایک منفی رول ادا کیا اور وہاں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کے لئے اپنا
ایک منتخب کردہ ایسا ازلی و ابدی مسلم دشمن ملک( بھارت) کو کھینچ تان کر افغانستان میں مسلط کردیا جس کا کوئی عقلی جواز نہیں بنتا چونکہ ایک طرف پاکستان کی طویل ترین سرحدی پٹی افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے افغانستان اور پاکستان دونوں مسلم ثقافتی قدروں میں یکجا وپیوستہ ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے نہ سیاسی تعلقات بہتر نہ وثقافتی قدریں ملتی ہیں ،دونوں ملک باہم کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، تادمِ تحریر کئی سرحدی تنازعات چل رہے ہیں، سب سے اہم مسئلہ ’مسئلہ ِٗ کشمیر ‘ روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے امریکا کیا یہ سب نہیں جانتا، جان بوجھ کر اُس نے افغانستان کی خالص مسلم سیاست میں بھارتی سنیگ گھسیڑ دئیے ،کئی صدیوں پر محیط افغان مسلم قبائلی معاشرے میں ہندو توا کی چانکیائی سیاست کی آمیزش نے بلاآخر اپنا بدنما آئینہ دکھا نا تھا افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ ایک پاکستان مخالف بیان پر ہم اُنہیں کوئی رتی برابر دوش نہیں دیں گے یہ وہ ہی افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی ہیں جنہوں نے’آپریشن ضربِ عضب ‘کے دلیرانہ ‘ جراّت مندانہ فیصلے پر پاکستانی فوج کے لئے تعریفی کلمات کہے تھے جی ہاں ! یہ وہ ہی اشرف غنی ہیں جو گزشتہ برس 16 ؍دسمبر میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے اندہناک دہشت گردی کے فوراً بعد پاکستان سے تعزیت کرنے ذاتی طور پر اسلام آباد تشریف لائے اور جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی اُن ہی چند روز کے دوران میں پاکستانی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے دومرتبہ افغانستان کا دورہ کیا اِس خطہ پر دہشت گردوں کی وحشیانہ سفاکیت نے جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں اُن مظالم کا انسداد اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے جہاں تک افغان طالبا ن گروہوں اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کی بات ہے، تو یہاں بھی پاکستان ہر رخ اور ہر پہلو سے افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے پاکستان نے اپنی سرزمین افغانستان کے مستقلاً امن کے قیام کے لئے پیش کردی جس کے نتیجہ میں افغان حکومت اور افغان طالبان گروپس کے ساتھ امن مذاکرات کا ایک دور ہوا براہِ کرم افغانستان اور پاکستان کو اپنے معاملات طے کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جائے دنیا کا کوئی ایسا ملک جس کی سرحدیں نہ افغانستان سے ملتی ہیں نہ پاکستان سے وہ اپنے مفاداتی اور سازشانہ سفارتی پروٹوکول کے حیلے ساز فلسفے اپنے پاس رکھیں، ابھی مزید برف پگھلے گی، ایسوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ چین اور روس بھی اِس خطہ کی جغرافیائی طاقتوں کا درجہ رکھتی ہیں اپنے خطہ کے لئے کل سے زیادہ آج ہم اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے ہیں مخوامخواہ بھارتی ’را‘ اور امریکی ’سی آئی اے پاکستان افغانستان تعلقات کے معاملے خود کو ناگزیر نہ سمجھیں ۔