سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستان کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسی ’ را‘کی آئے روز کی بڑھتی ہوئی تشویش ناک حاسدانہ‘ انتہائی متعصبانہ اور بدترین گھٹیا مذموم سر گرمیاں اپنی آخری حدوں سے آگے نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں خاص طور پر جہاں ’را‘ اپنی ازلی پاکستان دشمنی کے مقاصد سے لیس آجکل ہمیں مقبوضہ کشمیر میں بڑی ’سمارٹ ‘ دکھائی دے رہی ہے، وہاں ’را‘ نے پاکستانی شہروں کے اندر بھی اب اپنے مذموم اور قابلِ مذمت شرمناک اقدامات بروئےِ کار لانا شروع کردئیے ’را‘ کے یہ کام نئے نہیں کب سے بلوچستان میں ’را‘متحرک اور فعال ہے، لیکن اِسے ہماری سیاسی قیادت کی ’قائدانہ ‘ تجاہلِ عارفانہ کہیئے یا اِسے سیاسی جراّت وہمت کی کمی کانام دیجئے ملکی سیاست دانوں نے کبھی کھل کر پاکستانی عوام کو اِس سلسلے میں اپنے اعتماد میں نہ لیا کھل کر ’را‘ کی اِنہوں نے کبھی مذمت نہیں کی ‘ پاکستان کی عسکری قیادت نے گزشتہ دنوں اپنے کور کمانڈر کانفرنس میں جب پہلی مرتبہ کھل کر اِس زمینی حقیقت کا اعلا میہ جاری کیا کہ’’ ماضی میں بھی کئی بار اُنہوں نے ملکی سیاسی قیادت کو اِس بارے میں اپنے اعتماد میں لیا اُنہیں بلوچستان اور پاکستانی شہروں کے اندر ’را‘ کی حرکات و سکنات کے ثبوت دکھلائے‘‘ کسی نے کسی عالمی فورم پر یہ بات ٹھوک بجا کر کہنے کی جراّت تک نہیں کی، اب جبکہ فوجی قیادت نے بات کردی ہے تو ملک بھر کے مختلف سماجی وسیاسی زعماء کی طرف سے حکومت پر زور دیاجا نے لگاہے کہ نئی دہلی حکومت سے کھل کر اور براہِ راست ’را‘ کی پاکستان میں کی جانے والی’’ خونریز مداخلت‘‘ پر حکومت کو کوئی دیر کیئے بغیر پُر زور احتجاج کر ناہی ہوگا، اب تو ہر ایک باشعور پاکستانی متفق ہے کہ کراچی سے خیبر پختونواہ تک اور گلگت بلتستان سے بلو چستان تک ’را‘ کے ہاتھ پھیلے نظر آتے ہیں، جو کہیں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی اور کبھی کہیں پر داعش اور القاعدہ کے لبادے اُوڑھے ہوئے ہے ’را‘ کا اوّلین مقصد پاکستان کی ترقی وخوشحالی کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنا اور پاکستان کے اندرونی استحکام کو ہر قیمت پر کمزور بنانے کے علاوہ او ر کچھ نہیں ہے پاکستان کی دونوں اطراف مشرقی اور مغر بی سرحد وں کے پار اگر کوئی غیر ملکی خفیہ ادارہ اپنے کسی بھی نوع کے مذموم اور خفیہ مقاصد رکھتا ہے، تو وہ صرف اور صر ف بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ ہی ہے ’را‘ کی بدنامِ زمانہ حکمتِ عملی کی زد میں یوں سمجھئے پورا جنوبی ایشیا گھرا ہوا ہے، پاکستان اور بھارت کے مابین آج سے چھ سات دہائیوں قبل تقسیمِ ہند کے وقت مقبوضہ کشمیر کی صورت میں صرف ایک ہی تنازعہ تھا ’را‘ کی چانکیائی و مکارانہ سیاست نے مقبوضہ کشمیر جیسے اہم تنازعہ کی اہمیت و افادیت کو مزید کئی اور تنازعات کے بوجھ تلے دبانے کی کیسی کیسی فریب زدہ حرکات کیں پانی کا مسئلہ کھڑا کیا گیا ‘ سرکریک اور سیاچن کا مسئلہ پیدا کیا گیا 9/11کے بعد نام نہاد ’در اندازی ‘ کا کس قدر شور شرابا کیا گیا کون انکار کرئے گا کہ گزشتہ 60-66 برسوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں برائےِ نام انتخابات کے ڈھونگ رچا کراکر دنیا کو بھارت نے عجب سیاسی دھوکے میں رکھا
ہوا ہے جبکہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی کیا منحصر! بھارت بھر جہاں یونیورسٹیوں میں کشمیری طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں پاکستان ڈے پر ایک جگہ جمع ہوکر جب وہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں یا جب کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم یا ہاکی ٹیم کی کسی ملک کے خلاف کامیابی کی کوئی خبر اُنہیں ملتی ہے تو وہ جوش جذبات سے سرشار ہوکر پاکستان زندہ باد کے واشگاف نعرے لگانے سے گریز نہیں کرتے تو بھارتی متشدد تنظیموں کی سرپرستِ اعلیٰ تنظیم آر ایس ایس والے ’را‘ کے کہنے اکسانے پر طالب علم کشمیریوں کو اپنی غنڈہ گردی کا نشانہ بناتے اور اُنہیں یونیورسٹیوں سے نکلوادیتے ہیں، اہلِ کشمیر کے نوجوان طلباء وطالبات کا سینٹرل بھارت کی یونیورسٹیوں میں یوں اپنے دلی جذبات کا اظہار آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں کو ایک نظر نہیں بھاتا ’را‘ جو پہلے ہی ایسے معاملات میں اپنے سینگ پھنسا ئے ہوئے رہتی ہے دنیا کی نظروں سے کیسے اور کیونکر چھپ سکتی ہے، بھارت میں آجکل آر ایس ایس جیسی دہشت گردتنظیم کی براہِ راست سرپرستی میں نئی دہلی کی مرکزی حکومت قائم ہے نریندر مودی جیسے شخص کی سربراہی میں قائم اِس جنونی انتہا پسند حکومت کے ساتھ امریکا ‘ برطانیہ اور مغربی حکومتیں اپنے مفاداتی معاملات نمٹا نے میں لگی ہوئی کہیں نہ کہیں وہ شرمسار اور نادم دکھائی دیتی ہیں وہ بھولیں تو کیسے بھولیںیہ وہ ہی نریندر مودی جس نے ریاست گجرات کے گودھرا کیمپ کو دن دھاڑے مسلمانوں کے لہو میں ڈوبو دیا تھا اب اُس کی لالچی نظریں جموں وکشمیر کو ہڑپ کرنے میں بیتاب ہیں امریکا ‘ برطانیہ اور مغربی حکومتیں، انسانی حقوق کی چمپئین حکومتیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے دیرینہ اہم ایشو پر ’چپ ‘ سادھے بھارتی فوج اور بھارتی سیکورٹی اداروں کی جانب سے کشمیر میں کیئے جانے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنی سچائی اور حقائق کو منہ چڑاتی ہوئی معلوم نہیں دیتیں ؟یہ اور ایسے مزید سنگین سوالات کے جواب شائد ہی کوئی دے پائے؟ بھارت یقیناًایک بڑی تجارتی منڈ ی ضرور ہے تجارت کے ذریعے مال ودولت اکھٹی کرنا عالمی اور مغربی طاقتوں کی ایک ضرورت ہوگی مگر جنابِ والہ ! اگر تجارت کرنے کا یہ نکتہ تسلیم کرلیا جائے تو پھر مغربی طاقتوں کو انسانی حقوق کی علمبرداری کا کوئی حق نہیں پہنچتا،یہ بھی یاد رہے کہ آج بھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں 5 ؍ جنوری1949 کی منظور کردہ وہ اہم قرار داد اپنے فیصلے کو بروئےِ کار لانے کی منتظر پڑی ہے جس اہم قراردار میں بھارت نے خود یہ درخواست کی تھی کہ’ کشمیر میں حالات نارمل ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں اہلِ کشمیر کو حقِ استصوابِ رائے دیا جائے گا‘ پھر بھارت اپنے ہی وعدوں سے آج کیوں مکر گیا؟ کہاں ہیں عالمی انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں بھارت سے کیوں نہیں پوچھا نہیں جاتا بھارت تو گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں انتخابات کے ڈھونگ رچا رہا ہے نا وہ اِس لئے نریندرمودی جیسے شخص کے ہاتھوں میں نئی دہلی حکومت کی باگ دوڑ آتے ہی اُس کی تمام ’خفیہ مساعی ‘ کی مذموم سرگرمیوں کا مرکز اب کشمیر بن چکا ہے جہاں پر کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مکارانہ سازشیں بڑے زروں پر ہیں عالمی ادارے کو نئی دہلی کی اِن حرکات وسکنات کا فوری نوٹس لینا ہوگا کشمیری عوام میں مقبول عوامی لیڈروں پر سختیاں ‘ اُن کی نظر بندیاں ‘ اُن کی حراستیں بھارتیوں کے مقاصد کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتیںیاد رہے کہ جب کبھی بھی محکوم اقوام میں نسل در نسل اور تاریخی قوم پرستی کی آزادی کی جدوجہد کا سفر کہیں رکتا نہیں اور کہیں ٹھہرتا نہیں ہر ظلم وستم کو سہتا ہوا جاری رہتا ہے تو قومی آزادی کا سنگِ میل خود ایسی اقوام کا نصب العین بن جاتا ہے اب بہتر یہ ہی ہے کہ نئی دہلی حکومت وقت سے قبل قوموں کی آزادی کی تاریخ کا مطالعہ کرلے ورنہ بعد میں کہیں اُسے بھی ’عظیم ‘ سوویت یونین کے ٹوٹتے اور متشر ہوتے ہوئے انتشار کے نتیجہ میں جیسے پچھتانا پڑا کہیں نئی دہلی کو بھی ایسے ہی نہ پچھتانا پڑے۔