Posted date: July 07, 2015In: Articles|comment : 0
پاکستان بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کرے گا۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں کیا گیا ہے ویسے بھارت خود یہ ثبوت پچھلے کچھ عرصے سے پیش کررہا ہے۔ اس کے وزیر مشیر سے لے کر وزیراعظم تک سب ببانگ دہل اپنی تخریبی ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کررہے ہیں کوئی اس کی توجیہہ بھی پیش کررہا ہے کہ ایسا بدلہ لینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مودی خود جاکر بنگلہ دیش میں اعلان کررہا ہے اور شیخ مجیب کی بیٹی کو خوش کرنے کے لیے کہہ رہا ہے کہ وہ خود بھی بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں شامل تھا یعنی اس کی دہشت گردانہ ذہنیت اس وقت سے مکمل طور پر سرگرم ہے۔ شیخ حسینہ جو بنگلہ دیش کی وزیراعظم کم اور شیخ مجیب کی بیٹی کا کردار زیادہ ادا کررہی ہے کو اس واقعے کے بعد یقین آجانا چاہیے تھا کہ اس کے لوگوں کو کس نے ماراتھا پاک آرمی نے یا مکتی باہنی نے۔ پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش میں قتل عام کا زیادہ چرچا بھی بھارت کا ہی کارنامہ تھا جو اس نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا تھا۔ اب بھی اپنے ہاں ہونے والے جرئم اور دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈال کر اپنے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے جبکہ کئی واقعات’’را‘‘ اور بھارت سرکارخود کرتی ہے اور الزام پاکستان کے سر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ اگرچہ خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھ جاتی ہیں جو اس کے جھوٹ کا پول کھول دیتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں سرکاری وکیل روہنی سیلیان نے بیان دیا کہ نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی اور سُپریم کورٹ اس پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ مالے گاؤں میں 2008میں ہونے والے دھماکوں کے مجرموں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے یاد رہے کہ ان دھماکوں میں چھ افراد ہلاک اورایک سو ایک زخمی ہوئے تھے۔ یہ دھماکے ایک مسجد کے باہر کیے گئے تھے اور اس میں ابھینو بھارتیہ نامی ہندو تنظیم کے لوگ شامل تھے۔ جہاں جس ملک میں خود حکومت اور عدالت دہشت گردوں کے ساتھ نرم رویہ اختیارکرنے کے لیے وکلا کو مجبور کرے وہاں انصاف کیا ہوگا اور کیسا ہوگا اور جو ملک اپنے ملک کے مسلمانوں کے خلاف یو ں بر سر پیکار ہے وہ پاکستان کے خلاف کیسے خاموش بیٹھ سکتا ہے اور اس کا یہ کردار کوئی دوچار سال کی بات نہیں بلکہ پاکستان بنتے ہی بھارت سرکار نے یہ اقدامات شروع کردیے تھے۔ اس نے قائداعظم کی زندگی میں ہی کشمیر پر حملہ کیا اپریل 1948 میں پہلی بار پاکستان کا پانی روکا اور اب تک یہ طرز عمل جاری ہے یعنی جب بھارت چاہتا ہے پانی روک لیتا ہے اور کبھی سیلابی ریلاچھوڑ دیتا ہے جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لیتا ہے اور وہ یہ آبی دہشت گردی بڑی دیدہ دلیری سے کرتا ہے۔ فاٹا میں جاری بلکہ فاٹا کے راستے پورے ملک میں جاری دہشتگردی میں بھارت کا مکمل ہاتھ ہے یہاں سے وہ افغانستان کے راستے بھی کھلی مداخلت کرتا ہے اور پاک افغان تعلقات بھی بحال نہیں ہونے دیتا۔ جناب اشرف غنی ایک بار اگر پاکستان سے محبت اور دوستی کا اظہار کرتے ہیں تو اگلی بار پھر اپنے ملک میں جاری بدامنی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار قرار دینے لگتے ہیں یعنی جب بھارت کا داؤچل گیا سوچل گیا۔ ایران کے ساتھ بھی دوستی صرف ایک مقصد سے کی جاتی ہے کہ پاکستان میں شمالاً جنوباً ،شرقاً غرباً ہر طرف سے مداخلت کے لیے راستہ مہیارہے ورنہ جس مودی اور اس کے پیش روؤں کو پاکستان صرف اس لیے قبول نہیں کہ وہ اسلامی ملک ہے اسے کیسے کسی اور اسلامی ملک سے محبت ہو سکتی ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ افغانستان کے راستے فاٹا اور بلوچستان اور ایران کے راستے بلوچستان اتنا نزدیک پڑے کہ اسے تخریب کاری اور دہشت گردی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے جبکہ پنجاب اور سندھ کی تو ویسے ہی سرحدیں بھارت سے جڑی ہوئی ہیں لہٰذا مشکلات بہت کم ہیں ۔بجائے اس کے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے رویے میں تنگ نظری کی بجائے وسعت پیدا ہوتی وہاں تعصب اور دشمنی بڑھ رہی ہے اور جو خوش فہم پاکستانی خود کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ بھارت میں حکومت پاکستان کے خلاف ہوگی عام لوگ نہیں تو حقیقت یہ ے کہ اس کے وزیراعظم کو عام لوگوں نے منتخب کیا ہے جو آج فخریہ اعلان کررہا ہے کہ اس نے ہمارا ملک توڑنے میں کردار ادا کیا۔ اس ملک کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی پاکستان کے وجود کا دشمن ہے۔ پاکستان کے خلاف ہر سازش کا حصہ ہونا اس کی قومی پالیسی میں شامل ہے اسی کام کے لیے اس نے’’ را‘‘ بنائی جس کی اولین اور سب سے بڑی ذمہ داری پاکستان کے خلاف کام کرنا ہے۔
بھارت کے رویے اور پاکستان کے خلاف اس کی خفیہ اور اعلانیہ کاروائیوں پر عالمی رائے عامہ کو مطلع کرنا بھی انتہائی ضروری ہے لیکن سفارتی سطح پر ان کا توڑ اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور اس کے لیے پاکستان کے سفارتی مشینوں کو زیادہ تندہی سے کام کرنا ہوگا اور بھارت کو یہ احساس بھی زیادہ موئثر طریقہ سے کرانا ہوگا کہ پاکستان نہ تو ترنوالہ ہے اور نہ کمزورملک، اس کا دفاع اتنا مضبوط ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے لہٰذا اس کو پاکستان کے خلاف بیانات سے لے کر اس کے خلاف کاروائی تک کو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ور نہ نتائج دونوں ملکوں ، خطے اورپوری دنیا کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں جس کی مکمل ذمہ داری بھارت پر ہو گی۔