سیّد ناصررضا کاظمی
پاک بھارت اختلافات پر مسلسل بحث ومباحثہ اور باہم تکرار کرنے والوں میں ایک طبقہ ہمارے ہاں ایسا بھی پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو ’غیر جانبدار‘ مانتا ہے یہ طبقہ رہتا بستا تو پاکستان میں ہے، اپنے آپ کو پاکستانی بھی کہلواتا ہے مگر‘ اپنے افکارو خیالات کے اظہار کے ذریعے سے ایسے لوگ کسی نہ کسی عذر بہانوں کی آڑ میں ‘ اور کبھی ’امن‘ کے نام پر اپنا فکری ونظری وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کبھی ٹلتے نہیں وہ کہتے ہیں ’ پاکستانی اسٹبلیشمنٹ بھی تو بھارت پر اعتماد نہیں کرتی ‘ ہمیں جنوبی ایشیا میں پہلے اعتماد کی فضاء ہموار کرنے کے لئے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہم دنیا پر ثابت کرسکیں ہم ایک پُرامن قوم ہیں جبھی بھارت ضد اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا رہا ہے اُس کی بلاوجہ کی ضد اور میں نہ مانوں کی مسلسل تکرار سے جنوبی ایشیا کے دوایٹمی پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت ہر طلوع ہونے والی صبح کے ساتھ کسی نہ کسی نئی چپقلش اور نئی آویزش کی کھنچا تانی میں اپنی صلاحتیں صرف کردیتے ہیں،جو لوگ یا گروہ ایسا سوچتے ہیں وہ صرف تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے کے تقریباً عادی بن چکے ہیں وہ جان بوجھ کر خطہ کی تاریخ سے نظریں چرائے ایک ہی بات کو مختلف انداز میں کہنے پر اڑے ہوئے ہیں اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ’ بھارتی اندازِ فکر کی ترجمانی کرکے تاریخ کو کوڑا سمجھا جا رہا ہے پاکستان بھارت اختلافات کے سلسلے میں جب بھی کوئی منصف مورّخ رقمطراز ہوگا وہ قیامِ پاکستان کے حالات سے کسی صورت اپنے قلم کو علیحدہ نہیں رکھ پائے گا ، بر صغیر کی تقسیم کے وقت کے معروضی حالات سچائی ثابت کر یں گے کہ کل کے’ہندوستان ‘اور آج کے ’بھارت‘ کے لیڈر اپنی سوچوں میں اور اپنے فکری ونظری خیالات میں رتی برابر کوئی کمی بیشی نہیں کرپائے آج بھارتی وہیں پہ کھڑے نظر آتے ہیں جہاں آج سے66-67 برس قبل کھڑے تھے، پاکستان بھارت پر اعتماد کرنے میں کیسے پہل کرئے؟ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد تنازعہ ِٗ کشمیر پر ہونے والی پہلی پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر اعتماد نہیں کیا ؟ جنابِ والہ! یہ تاریخ کی سچائی ہے ‘کتنا زمانہ بیت گیا ‘پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا اور یہ تلخ حقائق سامنے آگئے کہ جموں وکشمیر کے تنازعہ کی آڑ لے کر بھارت نے پاکستان کو ایک ایسے نازک و حساس مقام پر لا کھڑ اکیا ہے ایک طرف زندگی ہے تو دوسری طرف پیاس کی ہولناک موت کی ہولناک گہری کھائی ‘ ہردور کی بھارتی قیادت نے پاکستان پر مسلسل دباؤ اور پریشر کی سنگین صورتحال برقرار رکھی جموں وکشمیر کے معاملے کو آج تک وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق حل نہیں کرسکا ،تین سنگین جنگوں کا بوجھ بھارت نے پاکستان پر لادھا ،دنیا کا نمبر ون مہلک ترین اسلحے کے خریدار ملک بھارت نے کبھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا بھارتی ٹرانس کی ترجمانی کرنے والے نجانے کس دنیا کے باسی ہیں وہ بھارت سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ وہ’سندھ طاس معاہدے‘ کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ کبھی کہتا ہے کہ ہم دریائے جہلم اور چناب پر گیٹ لگالیں گے یعنی جب چاہیں گے پاکستان کا پانی جو مرالہ ہیڈ ورکس پر آتا ہے اُسے روک دیں کیا اُس کی اِس غیر انسانی حرکت سے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان نہیں پہنچے گا؟ ذراسی عقلی شُد بُد رکھنے والا کوئی فرد بخوبی یہ جان سکتا ہے اگر بھارت کو یونہی کھلی چھوٹ ملتی رہی یعنی اُسے پاکستانی دریاؤں میں نیچے کی جانب آنے والے پانی کے ریلوں کو روکنے کی اجازت یا مہلت دی جا تی رہی تو مرالہ ہیڈ ورکس کو مکمل بھرنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں جب چناب میں پانی نیچے کی طرف نہیں آرہا ہوگا تو یہ سوچ ہی ہمیں لرزا دینے کے لئے کافی ہونی چاہیئے کہ اِس بھارتی آبی جارحیت سے پاکستان کو مزید کس قدر تباہ کن صورتِ حال کا سامنا ہوسکتا ہے بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ’عدم اعتماد‘ کا بہیمانہ رویہ اپنایا ایسے میں پاکستانی کیسے بھارتی قیادت پر اعتماد کر ئے؟بھارت کل بھی آبی جارحیت کا مرتکب تھااور آج بھی پاکستان بھارت آبی اختلافات کی صورتحا ل ویسی کی ویسی ہی ہے ،مستقبل میں کوئی ضمانت نہیں ہے وہ پاکستان کے ساتھ پانی کے مسائل پر منصفانہ یا برابری کی سطح پر کوئی بامعنی مذاکرات کرنے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ دکھا ئے گا؟ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی دور کی بھارتی قیادت کسی ’’ ٹریٹی ‘‘ کا احترام کرنا جانتی ہی نہیں ‘ اوراِس میں کوئی دورائے نہیں ہے، پاکستان کا اسٹرٹیجک ٹرانس اپنی جگہ ایک تاریخ رکھتا ہے، تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی ،تاریخ کے اوراق تو کوئی کھولے اقوامِ متحدہ میں بھارت نے مانا تھا ’کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت د یا جائے گا ‘ لیکن پھر اِس سے خود ہی منحرف ہو گیا قیمتی وقت گزارنے کے علاوہ بھارت نے اور کیا کیا ہے ؟ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ’اسٹیٹس کو‘ میں گزشتہ66-67 برسوں میں کئی بار چھیڑ چھاڑ کی ‘ مجال ہے کسی عالمی ادارے یا کسی عالمی طاقت نے بھارت کو اُس کے ایسے سرکش رویے پر اُس سے کوئی باز پُرس کی ہوبھارت سمجھتا ہے امریکا اُس کی مٹھی میں ہے امریکا جس کی نظریں جنوبی ایشیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والی بے چینی پر ہمہ دم لگی ہوئی ہیں کیا اِس سپر پاور کو یہ علم نہیں کہ بھارت نے پاکستان جیسے اہم زرعی ملک کو لق ودق صحرا میں تبدیل کر نے کے اپنے جنونی مذموم اور ناپاک منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے اپنے آپ کو ابھی تک نہیں روکا پاکستان کو مشکلات و مصائب کے شکنجے میں پے در پے کسنے پر مسلسل ڈٹا ہوا ہے بھارت کی بجائے اب ہم براہِ راست امریکا کو’ پاک بھارت آبی مسئلہ ‘ میں اِس وجہ سے’ڈسکس‘ کررہے ہیں کہ حالیہ چند برسوں کے دوران امریکا نے اپنے عملی اقدامات کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ ’’عالمی غیر جانبدار سپرپاور ‘‘ نہیں‘ بلکہ غیر معمولی حد تک بھارت نواز ایک ایسی بڑی طاقت ہے جس کے مفادات کا دھیان اگر ہے تو وہ صرف بھارت ہی ہے امریکا بھارت کی پشت پر موجود ‘ اور بھارت اُس کی شہ پر ڈھیٹ بنا ہوا ذاتی بغض وعناد کی تپش میں جھلسا غیض وغضب کا پَر تو بن کر پورے خطے کو اپنی انگلیوں پر نچانے کے عزائم میں مبتلا ،’چانکیائی سیاست‘ کے فرسودہ داؤ پیچ سے اِس نے اوّلاً پاکستان کی معیشت کو تہہ وبالا کرنے کے لئے ایک’ماسٹر پلان‘تیار کیا، جس میں سب سے اہم منصوبہ پاکستان کی زرعی زمینوں کو خس وخاشاک کی طرح بے جان و بنجر بنا نا تھا، افسوس! ہمارے اُس وقت کے ناعاقبت اندیش حکمرانوں ‘ سیاست دانوں اور اعلیٰ انتظامیہ کے نااہل‘ نکمے اور ذاتی مفادات پر منٹوں سیکنڈوں میں قابلِ خرید حکام نے پاکستان انڈس کمیشن کے دیرینہ توجہ طلب سنگین مسائل پر جان بوجھ کر ‘ مجرمانہ غفلتیں برتیں جس کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کو فی زمانہ شدید آبی قلت کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران میں بھی مبتلا کردیا ہے۔