پاکستان کے خلاف کام کرنے والے کسی رعایت کے حقدار نہیں
نغمہ حبیب
دنیا میں ہونے والے بہت سے واقعات میں جب تک پاکستان کا نام نہ لیا جائے اور اسے ملوث نہ کیا جائے تو لگتا ہے تحقیقات مکمل نہیں ہوئی کہیں کوئی کڑی رہ گئی ہے جسے اگر نہ جوڑ ا گیا تو مجرم تک پہنچ نا ممکن ہو جائے گی چاہے بعد میں مجرم خود اپنے ہی ملک میں پکڑا جائے اور اپنے ہی ملک کا نکلے لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی ملک میں محفوظ رہتے ہیں بلکہ وہاں کے معزز شہری بن کر رہتے ہیں یہ پاکستان کے خلاف ہر قسم کی سازشوں میں بڑی آزادی سے مصروف رہتے ہیں، تنظیمیں بناتے ہیں، اجلاس کرتے ہیں ،خطاب کرتے ہیں ،پاکستان، اس کی سلامتی اور اداروں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں، امن عامہ میں خلل کا باعث بنتے ہیں ،دہشت گردوں کی معاونت کرتے ہیں لیکن جن ملکوں میں وہ بیٹھے ہوتے ہیں وہ ان تمام معاملات سے صرف نظرکیے ہوئے رہتے ہیں ۔ الطاف حسین، براہمداغ بگٹی، حربیار مری اور کئی دوسرے ایسے نام ہیں جو پاکستان کے خلاف بولتے ہیں اور کھل کر بولتے ہیں لیکن ان کی کوئی پوچھ نہیں ہوتی پاکستان کے خلاف یوں کھلم کھلا بولنے والوں کے علاوہ کچھ ایسے بھی ہیں جو پاکستان کی جڑوں کو دوسری طرح سے کھو کھلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو یہاں ملک مخالف گروہوں اور لوگوں کی مکمل مدد کر رہے ہوتے ہیں یہاں صوبائیت کو ہوادے کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہوتا ہے ایسے ہی کچھ لوگوں نے حال ہی میں اکٹھ کر کے ایک تنظیم بنائی ہے اور اس کا نام ہے ساتھ SAATH یعنی ساوتھ ایشین اگینسٹ ٹیررازم اینڈ ہیومن رائٹس ۔ اس تنظیم نے لندن میں اپنا اجلاس منعقد کیا ،اس میں مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی پاکستانی شامل ہیں جو خود کو کہتے پاکستانی ہیں لیکن دراصل وہ صرف اپنی شہرت اور مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں ان کے سرکردہ لوگوں میں حسین حقانی جیسے نام سرفہرست آتے ہیں۔اس کانفرنس میں سیاست دان، ڈپلومیٹس، اینکرز کالم نویس اور دوسرے کئی لوگ شامل تھے اور ہر ایک نے اپنے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا اور بغیریہ سوچے کیا کہ ان کے خیالات پر ان کی کوئی پکڑ ہوگی کیونکہ یہ ممالک دوسرے ملکوں کے خلاف جو بھی جرم کریں یا ان کے مجرموں کو پناہ دیں وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں اس کا نفرنس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی مناسبت سے جس طرح ہمدردی کا اظہار کیا گیا گویا پاکستان میں ان کے ساتھ کوئی ناروارویہ رکھا جا رہا ہو اور یا ان کا حق مار کر دوسروں کو دیا جا رہا ہو۔ بلاشبہ ترقی کی دوڑ میں پورے ملک کو شامل ہوناچاہیے اور اس کے ثمرات دور دراز کے علاقوں تک یکساں پہنچنے چاہیے لیکن اس کو یوں کیش کرنا کہاں کا انصاف ہے اور وہ بھی اگر پاکستان سے باہر بیٹھ کر اپنے ملک کو یوں بدنام کرنا ہو تویہ قومی جرم کے زمرے میں ہی آتا ہے اس فورم پر بلوچستان کے مسئلے کو یوں اٹھایا گیا جیسے پاکستان اس کو اپنا مقبوضہ علاقہ سمجھتا ہو۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے بیچ میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حسین حقانی اور عائشہ صدیقہ جیسے لوگ جہاں بیٹھیں وہ فوج کے اوپر بلا وجہ تنقید نہ کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا حسین حقانی نے یہاں بھی اپنا بغض نکالنے کی بھر پور کوشش کی اور کہا اگر پاکستان بین الاقوامی دباؤ کو خود سے ہٹانا چاہتا ہے تو اُسے اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی اندر کی تبدیلی تک تو بات درست ہے لیکن موصوف نے اس اندر کی تبدیلی کے لیے جس نکتہء نظر کو اپنا یا وہ یہ تھا کہ فوج کو اپنے موجودہ خیالات میں تبدیلی لانا ہوگی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ موجود نکتہء نظر کے ساتھ فوج کسی کو شکست دینے کے اہل نہیں تو بات یہ ہے کہ یہی فوج ہے جس نے خود سے بہت بڑی فوج کو روک رکھا ہے بھارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی فوج ہے اور اندرونی دشمنوں کے سامنے بھی سَدِّ راہ یہی ہے لیکن ظاہر ہے یہی باتیں اس کے خلاف بولنے والوں کو گوارہ نہیں ۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کرتے ہوئے پاکستان کے مسائل کو منفی انداز میں گنوایا انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ پاکستان کو دنیا کی نظروں میں مجرم بنا کر پیش کرے۔ اُنہیں بلوچستان کے حالات تو نظر آئے لیکن کشمیر میں بھارت کے مظالم پر ان کی زبان بند رہی اُنہیں یہ بالکل نظر نہ آیا کہ وہاں مودی اور اس کے انتہا پسند پالتو غنڈے انسانوں پر جانور والا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی توجہ کشمیر کے مسئلے سے ہٹانے کے لیے مودی سرکار نے بلوچستان کو جس طرح اُچھالا اُس میںSAATH نامی اس تنظیم اور کانفرنس نے اُن کی حتی المقدور مدد کی اور اسی لیے بھارتی میڈیا نے اِسے غیر معمولی اہمیت دی۔ اس کانفرنس کے شرکاء دراصل وہ لوگ ہیں جو پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں کے بارے میں اپنے منفی رویے ہی کی وجہ سے مشہور ہیں۔عائشہ صدیقہ نے نیوی کی نوکری چھوڑ کرجب’’ ملٹری ان کا رپوریٹڈ‘‘ لکھی تو تب ہی ان کو شہرت ملی اور اس کتاب کے لکھنے کی وجہ بھی بظاہر یہی شہرت کی خواہش تھی اور اس کتاب کی تصنیف کے دوران بھی بھارت اور اس کے سفارت خانے تک ان کی آمدورفت بھی نوٹ کی گئی ،اسی طرح حسین حقانی کے کریڈٹ پر’’ میموگیٹ‘‘ کا واقعہ موجود ہے۔ اس تنظیم کے دیگر شرکا ء بھی اپنے اسی رویے کے لیے شہرت رکھتے ہیں، عاصمہ شیرازی اپنے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے اپنا بغض نکالتی رہتی ہیں اور لگتا ہے وہ بھی پیسہ کمانے کے اس آسان طریقے پر مکمل عمل کر رہی ہیں ۔ اس تنظیم میں اکثر ممبران غیر ممالک میں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ وہ اس ملک کے خلاف بولیں اور دشمن کا ایجنڈا پورا کرنے پر خوب نام اور دولت کمائیں، لیکن کیا انہیں یہ اجازت ہونی چاہیے اور کیا ہماری حکومتوں کو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ اگرچہ اب تک تو ایسا نہیں ہوا لیکن صاحبان اختیار کو اس طرف توجہ دینا ہوگی تاکہ اس طرح کے منفی پروپیگنڈے سے ملک کو بچایا جا سکے اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی رکھنا ہوگی کہ پاکستان کے خلاف اس طرح کا زہر اُگلوانے کے لیے ہمارے دشمن باقاعدہ طور پر ان افراد اور تنظیموں کو معاوضہ اور مدد دیتے ہیں اور اپنا مدعا ان کے منہ سے بیان کر واتے ہیں ساتھ ہی جن ممالک میں یہ لوگ رہتے ہیں ان سے بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی کریں اور پاکستان میں رہنے والوں کی بھی پکڑ ضرور ہونی چاہیے ملکی سا لمیت اور نیک نامی کے خلاف کام کرنے والے یہ لوگ کسی قسم کی رعایت اور نرمی کے ہرگز حقدار نہیں۔