پاک چین اقتصادی معاہدہ۔نئی دہلی میں مضطربانہ کھلبلی
Posted date: June 04, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
یہ بین حقائق اگرہمہ وقت ہمارے پیشِ نظر رہیں تو ہم کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے، کبھی حق اور سچائی کی راہ سے نہیں بھٹک سکتے، حق اور سچائی کی راہ پر گامزن اقوام‘ اُن کے لیڈر
اگر اِن روشن اور ہدایتِ یافتہ راستوں پر چلنے کے لئے خود آمادہ اور تیار کرلیں‘ مطلب یہ کہ جب کسی بھی سماج اور معاشرے میں انسانی اور اخلاقی قدروں کا زوال عروج پر پہنچ جاتا ہے تو اُن کو مادّی‘ معاشی خوشحالی اور فراغت زوال سے محفوظ نہیں رکھ سکتی، اخلاقی وسماجی تعصب میں مبتلا ‘ لتھڑا ہوا بدبودار زوال ایسے معاشروں کو گھن کی طرح اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنادیتا ہے، ہم بحیثیتِ پاکستانی قوم اپنی مشرقی سرحدوں کے پار ایسا ہی ملتا جلتا کریہہ و مکروہ منظر دیکھتے دیکھتے اب بہت زیادہ اکتا چکے ہیں جب سے ہمارے مشرقی پڑوسی ملک بھارت میں آر ایس ایس کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں اِس دیش کا اقتدار آیا یہ آپے سے باہر نکل کر نتائج کی پرواہ کیئے بغیر، ہر اُس معاملے میں اپنی ٹانگ اور اپنے سینگ پھنسنا اپنی عادت بناتے جارہے ہیں جو’ سنگھ پریوار اور ہندوتوا‘ کے اِن نام نہاد قائدین کا کام ہی نہیں ہے، پاکستان کی سرحدیں صرف بھارت کے ساتھ نہیں لگتیں پاکستان کے ایک طرف مسلم برادر ملک ایران ہے ایک جانب افغانستان‘ اِسی طرح سے پاکستان کی فلک شگاف طویل شمالی بالائی سرحدیں دنیا کی عظیم سپرپاور ملک چین سے ملی ہوئی ہیں، چین اور پاکستان کی دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ مٹھی دوستی کے ہم معنیٰ تصور کیا جاتا ہے، بلکہ تسلیم کیا جاتا ہے، چین نے ہر کٹھن اور مشکل وقت میں پاکستان کی ضروریات کا برابر خیال رکھا ، پاکستان نے بھی چین کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ برابر کی سطح پر عالمی طاقت منوانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، یوں تو ایک بار نہیں‘ بارہا پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ 66-67 برسوں میں کئی معاہدات ہوئے، کوئی دن نہیں جاتا جب پاکستان اور چین کی اعلیٰ سطحی سیاسی وعسکری قیادتیں باہم ملاقاتیں نہیں کرتیں،چین اور پاکستان نے باہم یکجا ترقی وخوشحالی کے ساتھ چلنے کا کبھی نہ ٹوٹنے والا‘ کبھی نہ ختم ہونے والا عزمِ صمیم کیا ہوا ہے، ا عتماد ‘ خلوص اور نیک نیتی پر استوار یہ دونوں پڑوسی دوست ملکوں کا پختہ اور غیر متزلزل دوستی کا سفر ہے ،جو کے بغیر جاری رہے گا بھارت اور پاکستان کے درمیان جس نوع کے کئی سنگین تنازعات‘ خاص طور پر مسئلہ ِٗ کشمیر جیسے تنازعات گزشتہ66-67 برسوں سے ابھی تک طے نہیں ہوئے جنہیں بھارت نے سرد خانے کی نذر کیا ہوا ہے بھارتی بدنیتی کے اِن ہی خطوط پر چین کے ساتھ بھی اُس کے سنگین سرحدی مسائل تاحال موجود ہیں، چین کی ایک خاص خوبی یا ایک بڑائی یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں امریکا کے ہم پلہ ہونے کے باوجود چین کبھی اپنی سرحدی و جغرافیائی حدود سے تجاوز نہیں کیا چین کی اِس وسیع القبی‘ وسیعِ النظری کی دنیا بڑی معترف ہے اور چین ’خاموشی ‘کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں ہے مصروفِ عمل ‘ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چین نے اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کبھی کسی
قسم کے توسیع پسند انہ سامراجی عزائم کی خواہش کی ہو یا عملاً کوشش کی ہوکبھی اپنے پڑوسی ممالک میں دراندازی کی ہوامریکا نے دنیا بھر میں اور اسرائیل اور بھارت نے اپنے اپنے خطوں میں لالچی توسیع پسندانہ رویوں اور سامراجی بالادستیوں کی کوئی حد نہیں چھوڑی، بھارت نے جنوبی ایشیا کی ’سارک تنظیم‘ کی روح کو ملیامیٹ کیا یہ سب جانتے ہیں بھارت نے سارک تنظیم کے 6 ممالک پر اپنی بالادستی قائم کی ہوئی ہے یہ صرف پاکستان ہی ہے جو اْس کے سامراجی عزائم کے سامنے پوری قوت کے ساتھ اپنی قومی وملی شناخت کا ٹھوس موقف لیئے کھڑا ہے حالیہ چند دنوں قبل چین اور پاکستان کے مابین پاکستان میں چینی صدر شی چن پنگ کے تاریخی دورے میں جو اہم اور حساس معاہدے ہوئے وہ بھارت کی آنکھوں میں اب کانٹے بن کرچبھنے لگے ‘ بھارت کا یہ کہنا اُسے بالکل زیب نہیں دیتا اُس کا یہ بے جا طور طریقہ عالمی سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی ہے کہ ’پاکستان چین اکنامک کوریڈور‘ پر اُ س کے کسی قسم کے تحفظات ہیں جبکہ پاکستان نے بھارت کے دنیا کے ترقی یافتہ بڑے ممالک کے ساتھ کیئے جانے والے بھارتی معاہدات پر کبھی کوئی مخالفانہ بیان نہیں دئیے، جہاں تک اُس کا یہ کہنا کہ کشمیر میں اقتصادی راہداری کا منصوبہ اُسے منظور نہیں؟ چونکہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے واہ جناب ! یہ خوب ہوا ’کڑوا کڑوا تھو تھو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ ‘مقبوضہ کشمیر میں بھارت امریکی اور اسرائیلی تعاؤن سے عظیم الجثہ توانائی کے منصوبے بنائے اور کوئی بھارت کو نہ ٹوکے وہ جو مرضی آئے کشمیر میں کرتا جائے کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی آبادی کے تاریخی تناسب پر دن دھاڑے ڈاکہ مارے سینٹرل بھارت سے جنونی سر پھرے ہندو پنڈتوں کو لاکر کشمیر میں بستیاں آباد کرئے اقوامِ متحدہ تماشبین بنی بیٹھی رہے 1992 میں جب بھارت نے پاکستان کی جنوبی سرحدوں کے پار ایران کی
چابہار بندر گاہ کا ٹھیکہ لیا تو اُس کے عزائم پاکستان کے بار ے میں کیا تھے؟ پاکستان نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے خاموشی کا رویہ اپنایا کیا خطہ میں صرف بھارت کو اپنے مفادات کے لئے یہ سب ناجائز کام کرنے کا حق ہے؟ جس کی سرحدیں نہ ایران سے ملتی ہیں نہ افغانستان سے ‘ پاکستان نے بھارت کی ایسی توسیع پسندانہ فطرت کے خلاف ہمیشہ اپنا زمینی اسٹرٹیجک رول ادا کرنے کا حق محفوظ رکھا ہوا ہے ہم آئندہ بھی اپنا یہ بنیادی حق بھارت سے منواتے رہیں گے، سب یہ جان لیں کہ’’ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ ‘‘ پتھر پر لکھا ہوا ایک انمٹ منصوبہ ہے پاکستانی جاگ رہے ہیں بخوبی آگاہ بھی ہیں کہ’ اکھنڈ بھارت ایجنڈے‘ کی رو سے بھارت کے لئے پاکستان کا وجود کل بھی ایک خطرہ تھا آج بھی بھارت اپنی اِ سی متعصبانہ سوچ کا اسیر نظرآتا ہے، چین کی پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے یقیناًبھارت کے پیٹ میں سخت قسم کے مروڑ اْٹھ رہے ہونگے مگر حقیقت یہی ہے پاکستان کو بھی اپنی ترقی وخوشحالی اُتنی ہی عزیز ہے جتنی کسی اور ملک کو ہوسکتی ہے پاکستان کی ترقی ‘ خوشحالی اور معاشی استحکام پر بھارت کیوں حسد کی چتا میں جلے ؟ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر دستخط ہونے سے قبل ہی نریندرمودی ٹائپ کے بھارتی نیتاوں کی نیندیں حرام کیوں ہوگئی تھیں جبکہ اْنہیں پتہ ہے نہ پاکستان پیچھے ہٹے گا نہ چین ‘اور پاک چین اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ ہر قیمت پر انشا اللہ پائیہ تکمیل کو پہنچ جائے گا افسوس بھارت نے آج تک عقل کے ناخن نہیں لیئے وہ نہ تین میں نہ تیرہ میں’اْس کا پاکستان کی راہداری سے کیا تعلق؟اْس کے غیر ضروری تحفظات سے نہ پاکستان کو فرق پڑتا ہے نہ چین کو ‘ لگتا ہے وہ تعصب کی آگ میں یونہی جھلستا رہے گا ۔