Posted date: November 03, 2018In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان کے خلاف جو تازہ سازش تیار کی گئی ہے اُس کا نام پشتون تحفظ مومنٹ ہے اور اس کی سربراہی سونپی گئی ہے منظور پشتین کو اور اسے جو خصوصی مشن سونپا گیا ہے وہ محب وطن پشتونوں میں بدظنی پھیلانا ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ یہ وہ قوم اور نسل ہے جو اپنی مٹی اور اپنے وطن کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتی ہے لہٰذا بہت عرصے سے دشمن ان پر کام کر رہا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ پختونوں میں بھی اُسے اپنے کام کے لوگ مل ہی جاتے ہیں اور پھر وہ اُن سے کام لینے لگ جاتا ہے۔ منظور پشتین بھی اس کے کہے پر بڑی تابعداری سے چل رہا ہے لیکن اس کے پیچھے جمع ہونے والے لوگ یا تو اس بات سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر اس بات کے انکاری ہیں۔ میں نے پشتین کے ملک دشمن مشن اور علاقائی عصبیت پر جب اپنا پچھلا کالم لکھا تو مجھے کئی ایسی ای میلز ملی جن کی زبان تو خیر میں یہاں نہیں لکھ سکتی کہ خاصی سخت بلکہ قابل اعتراض ہے اور کوئی باعزت شخص ویسا انداز گفتگو اپنا ہی نہیں سکتا بہر حال اُن کا لُب لباب یہ تھا کہ منظور پشتین پشتونوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور میرے جیسے شہروں میں رہنے والے لوگ پختونوں کی کسمپُرسی سے بے خبر ہیں ۔پنجاب یا ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں میں بیٹھ کر ہم دنیا سے ہی بے خبر ہیں تو ان کی اطلاع کے لیے غرض ہے کہ میں بھی پختون ہوں لیکن اس کے باوجود الحمداللہ مجھے ملک کے ہر کونے سے اور ہر کونے میں عزت ملی ہے میں اپنی بات نہ بھی کروں منظور پشتین کو ہی لیتے ہیں کیا اُسے پنجاب اور سندھ کے شہروں میں جلسے نہیں کرنے دیے گئے لیکن اس آزادی کے باوجود وہ پشتون وطن کا نعرہ لگاتا ہے پھر میرے پڑھنے والے کیسے اُسے محب وطن قرار دیتے ہیں ۔ کیا یہ حُب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اپنے ملک کی فوج کو گالیاں دی جائیں اسکے پرچم کی بے حرمتی کی جائے قومی پرچم برداروں کو اپنے جلسہ گاہوں سے نکال دیا جائے جیسا کہ سوات میں ہوا جس میں قومی پرچم لانے والے نوجوانوں کو پشتین کے ساتھیوں نے جلسہ گاہ میں گھسنے ہی نہیں دیا۔ یہی پشتین قومی افواج کے خلاف بڑے زور و شور سے نعرے لگواتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہے کیا یہ سب کسی محب وطن شخص کا رویہ ہو سکتا ہے یہ لوگ پختونوں کے احساس محرومی کی بات کرتے ہیں یہ احساس بھی یہ لوگ زبردستی اُبھارتے ہیں ورنہ اس وقت ملک کا کونسا شعبہ ہے جس میں پختون کام نہ کر رہے ہوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ ہوں لیکن پھر بھی پشتین انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ تم حقیر ہو۔ میرے ایک قاری نے میری مخا لفت کی ہے کہ میں کیوں پشتین کا محرومی والا نکتہ تسلیم نہیں کرتی لیکن خود ہی میرے اس بھائی نے ایک فہرست مجھے بھیجی ہے جس میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ عہدہ داران کے نام شامل کیے ہیں، وہ خود اپنے خاندان کے ایسے افراد کا بھی ذکر کرتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور یا ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں لیکن شکوہ وہ یوں کرتے ہیں کہ یہ سب اپنے خرچے پر پڑھ رہے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جو پشتین جیسے لوگ ان معصوم قبائل کے دماغ میں ڈال رہے ہیں کہ جیسے باقی پورے ملک کے لوگ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہوں اور اس کے علاقے کے لوگوں کو ہی یہ سہولت نہیں دی جا رہی اصل بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈر بلکہ منظور پشتین جیسے لوگ اپنے علاقے کے لوگوں کو ملک کے دوسرے علاقوں اور صوبوں کے بارے میں ایک ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے وہاں کے لوگ تو جنت میں رہتے ہوں یا اُن کے علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں، تعلیم مفت ہو، صحت کی سہولتیں وافر اور بغیر کسی معاوضے کے میسر ہوں ،کوئی ٹیکس نہ دیتا ہو، نوکریاں اور ملازمتیں سب کو میسر ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم سب ایک غریب ملک کے باسی ہیں اور یہاں غربت ہر صوبے میں پائی جاتی ہے مجھے اپنے صوبے سمیت پورے پاکستان میں تفصیلاََ گھومنے کا موقع ملا ہے اور میں نے جھگیوں جھونپڑیوں کی بستیاں اور باسی ہر جگہ دیکھے ہیں جن کا کل اثاثہ دو جوڑے کپڑے چار برتن اور کبھی بستر سے بھی عاری ایک دو چار پائیاں ہوتی ہیں لیکن ہم صرف خود کو ہی مظلوم ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ وزیرستان کی پسماندگی سے کسی کو اختلاف نہیں اور یہ بھی تسلیم ہے کہ یہاں کے لوگ دہشت گردی کے جس عذاب سے گزرے ہیں اُس نے ان کی زندگیاں اجیرن کیں لیکن دکھ تو یہی ہے ایسا زیادہ خود انہی میں موجود چند لوگوں کی وجہ سے ہوا جنہوں نے اپنے علاقوں کو تو طبعی ترقی سے بھی دور رکھا ہی پورے ملک میں بھی امن و امان کو تہہ و بالا کیا اور یہ مزید دکھ یہ ہے کہ یہ سب لوگ خود اس علاقے سے نہیں تھے لیکن یہاں انہیں پناہ دی گئی اگر چہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا کرنے میں وزیرستان کے محب وطن لوگوں کی اکثریت بالکل بے بس تھی اور اس بے بسی کو دشمن نے کیش کرنے کی کوشش کی لیکن اسے پھر بھی وہ پذیرائی اور کامیابی نہ ملی جس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ابھی کل ہی وزیرستان کے غیر تمند لوگوں نے پشتین کی ٹوپیاں جلاکر اس سے اپنی لا تعلقی بلکہ نفرت کا اظہار کیا۔ چند دن پہلے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک ملاقاتی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے علاقے کی محرومیاں ضرور بیان کیں لیکن ساتھ ہی اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اب فوج نے جو کام کیے ہیں اُس سے وہاں حالات نہ صرف بہتر ہوئے ہیں بلکہ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ترقی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور کافی نئی چیزیں علاقے میں آچکی ہیں۔ اُن کی باتوں سے نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ ایک تسلی بھی ہوئی کہ ہمارے یہ قابل فخر علاقے اور اس کے باسی بہتری کی طرف گامزن ہو چکے ہیں اس سفر کو یقیناًجاری رہنا چاہیے اور ملک کے دیگر شہروں میں مہیا سہولتیں یہاں تک ضرور پہنچنی چاہیے اور ایسا ہو بھی رہا ہے لیکن اگر پھر بھی منظور پشتین ایک منفی تاثر پیدا کر رہا ہے تو پھر اسے کیسے محب وطن سمجھا جائے اور کیسے یہ نہ کہا جائے کہ وہ ملک دشمنوں کے ہاتھوں بک چکا ہے اوران کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے وہ اُسی فوج کے خلاف نعرے لگواتا ہے جس نے اُس کے علاقے کو دہشت گردی سے آزاد کیا۔میرے ایک قاری کا یہ کہنا ہے کہ بھارت اور ’’را‘‘ کو پختونوں سے کیا ہمدردی ہے کہ وہ پشتین کے ذریعے پشتونوں کے حقوق کی بات کرے گا وہ ایک تو جیہہ دے رہے ہیں کہ انہی پختونوں کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں شکست ہوئی تو عرض ہے کہ بات پختونوں سے ہمدردی یا محبت کی نہیں پاکستان سے نفرت کی ہے وہ جہاں سے وار کر سکیں کرتے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچاتے ہیں پشتین تو اُن کے ہاتھ لگ چکا ہے لیکن اگر ہمارے محب وطن قبائلی اس کے خلاف اکٹھے ہو جائیں تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شکست کھانا سیکھی ہی نہیں اور یہ دشمن کے منصوبے خاک میں ملا سکتے ہیں اور انشاء اللہ ایسا ہوگا بھی لیکن میری ان سب بھائیوں سے درخواست ہے کہ سر سری نعروں اور بیانوں سے ہٹ کر بین السطور بھی پڑھ لیا کریں تاکہ خدانخواستہ بے خبری میں ہی سہی دشمن کے مددگار نہ بن سکیں۔