Posted date: April 02, 2015In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
کراچی جس کو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن پھر ہوایہ کہ یہاں دن کی روشنی میں بھی کوئی جان محفوظ نہیں رہی اور وہ جرائم جو رات کے اندھیرے میں بھی ڈر کر کیے جاتے تھے دن کے روشنی میں بھی بے خوف و خطر کیے جانے لگے۔ نا معلوم افراد کے نام پر معلوم افراد خون کی ہولی کھیلتے رہے اور اس صورت حال کے خلاف بات کرنے والے بھی انہی نامعلوم افراد کا نشانہ بنتے رہے۔ ایسے میں یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اِن حالات کا نوٹس لیتی بلکہ اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور ہر صورت عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جا تی لیکن سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومتیں اس سب کچھ کو برداشت کرتی رہیں اور اس کے بدلے عوام کا خون بہتا رہا اور سیاسی پارٹیاں سیاسی اور حکومتی جوڑ توڑ میں مصروف رہیں لیکن چونکہ کراچی کے حالات میں سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کے مکمل اور صاف شواہد موجود تھے اس لیے سیاسی طور پر لاکھ مخالفت سہی یہاں مصلحتوں کا کھیل کھیلا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی جماعتیں فوجی آپریشن کا مطالبہ بھی کرتی رہیں اور ہر جماعت ان حالات سے براّت کا ا ظہار بھی کرتی رہی اور سارا الزام دوسروں پر ڈالا جاتا رہاایک دوسرے کو حالات کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا۔ پھر موجودہ حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کیا اور اسے شروع بھی کیا ۔یہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا اور کیا جا رہا ہے،اب تک کے نتائج کے مطابق کافی کامیابی بھی ہو رہی ہے اور اللہ کرے کہ یہ آپریشن اُس ناسور کو نکال پھینکنے میں کامیاب ہوجائے جس نے پورے کراچی کو بیمار کر رکھا ہے۔ مجرم کوئی بھی ہو کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو وہ مجرم ہی ہوتا ہے چاہے کسی سیاسی پارٹی کا رکن ہو یا کسی ڈان کا آلہء کار۔ کراچی آپریشن دراصل اِن تمام مجرموں کے خلاف ہے لیکن حیرت ہے کہ ایک سیاسی پارٹی نے اسے اپنے خلاف قرار دے دیا ہے اور اس کی آڑ میں ملک، فوج اور حکومت کے خلاف صف آرا ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم خود کو ایک سیاسی جماعت کہتی ہے اور ایسا ہے بھی، اس کی ملک کے دوسرے صوبوں میں اپنی تنظیم کی کوشش بھی خوش آئند ہے اور کچھ دوسری زبانیں بولنے والوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا بھی لیکن اس کے باوجود وقتاََ فوقتاََ وہ خود کو اردوبولنے والوں کی نمائندہ جماعت ظاہر کرتی ہے اور فوج اور رینجرز کے خلاف بیانات دیتے ہوئے متعصب بھی ہو جاتی ہے اور دھمکی آمیز بھی۔ اُس نے خود سے یہ طے کر لیا ہے کہ موجودہ آپریشن اُس کے خلاف ہے جبکہ حکومت بار بار اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ آپریشن صرف اور صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ پکڑے بھی جا چکے ہیں جن میں سے کچھ اقرارِ جرم بھی کر چکے ہیں مثلاََ صولت مرزا کے اقرار جرم سے اگر کچھ ایسے نام سامنے آئے ہیں جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے تو ان کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے اور اگر ان پر جرم ثابت نہیں ہوتا تو پھر صولت مرزا یا اُس کی بیوی جس نے ایک ٹی وی پروگرام میں ان الزامات کی تصدیق کی دونوں کو سخت ترین سزا دی جائے ورنہ بصورت دیگر ان لوگوں کو جن کے نام لیے گئے ہیں کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے۔ ایم کیو ایم جو اِن الزامات کی تردید کر رہی ہے اُسے بھی اپنی صفوں میں سے ایسے افراد ڈھونڈھ کر خود حکومت اور قانون کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ انہیں آئندہ کسی ایسی صورتِ حال کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہ مجرموں کے پکڑے جانے کواپنے خلاف کا روائی قرار دے د یتے ہیں۔ رینجرز کو بھی کسی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے تمام ثبوت حاصل کر لینے اور پیش کر دینے چاہیے تا کہ اُسے جانبداری کے شک کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ کسی کو اس کے خلاف بولنے کا موقع ملے اُسے کراچی میں چھوٹے یا بڑے کسی جرم میں ملوث کسی سیاسی پارٹی کے کارکن کو کسی دباؤ میں آئے بغیر پکڑنا چاہیے۔ چونکہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر میں کوئی ایک جماعت مجرمانہ کاروائیوں میں ملوث نہیں بلکہ یہ کھیل مختلف پیمانے پر سہی کئی ایک کھیل رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ بھی پکڑے جا رہے ہونگے لیکن وہ سیاسی جماعتیں چپ رہ جاتی ہیں اور میڈیا پر بھی خبر آجاتی ہے کہ پکڑے جانے والے ملزم یا مجرم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا اگر سیاسی جماعت کا نام ظاہر کرنے سے ملک کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے تو کیا بہتر نہ ہو کہ سیاست کے نام پر خون اور جرم کا کھیل کھیلنے والوں کو بے نقاب کیا جائے تا کہ عوام بھی یہ پہچان کر سکیں کہ کون ان کی خدمت کے لیے کوشاں ہے اور کون حصول حکومت اور طاقت کے لیے برسر پیکار ،کیونکہ الزام تراشی کا یہ کھیل عوام کو سچ اور جھوٹ کی پہچان نہیں ہونے دے رہا ۔ہمار ے لوگ جو خاندان ،خوف اور پیسے کی سیاست کے عادی ہو چکے ہیں یا ایسا کرنے پر مجبور ہیں اُن میں اگر سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم کسی حد تک سہی اپنے درست نمائندے منتخب کرسکیں گے۔ حکومت نے بھی اگر آپریشن شروع کیا ہی ہے تو اُسے اِسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تا کہ کراچی کا امن بحال کیا جا سکے اور پاکستان کے اس معاشی شہ رگ میں زندگی بے خوف و خطر چلتی رہے نہ یہاں سے بوری بند لاشیں ملیں، نہ اس کے بازار بند ہوں ،نہ یہاں نوگوایر یاز ہوں، نہ بیرئیر ز ہوں اور نہ ہی بھتہ خور گینگ ہو ں۔ اس سلسلے میں ہر قسم کے دباؤ کو مکمل طور پر رد کر کے صرف اور صرف ایک نکاتی ایجنڈا رکھا جائے اور وہ ہے کراچی میں مکمل امن۔ کیونکہ اس شہر کے امن کا مطلب پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات انتہائی بہادری سے اٹھانا ہوں گے تاکہ کامیابی میں کوئی شک نہ رہے۔