Posted date: February 23, 2020In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو ابھی بین الاقوامی معیار تک نہیں پہنچے ہیں۔ہماری یہ شرح تقریباََ ساٹھ فیصد کے آس پاس ہے جب کہ بین الاقوامی سطح پر مقرر کردہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سکول جانے والی عمر کے بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول نہیں جا رہی اور اس سلسلے میں ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔بہت سارے چھوٹے چھوٹے ممالک ہم سے شرح خواندگی میں آگے بلکہ بہت آگے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق خواندگی کی تعریف ”تعلیم یافتہ“ہونے سے بہت کم بلکہ بہت پیچھے ہے۔اس کے مطابق کسی بھی تحریری یا زبانی مواد کو پہچاننے، سمجھنے اس کی تشریح کرنے (سادہ تحریر)تخلیق کرنے شمار کرنے (یعنی سادہ گنتی اور حساب کتاب کرنے) وغیرہ کو خواندگی سمجھا جاتا ہے۔اس میں کسی اعلیٰ یونیورسٹی کی ڈگری کا عمل دخل نہیں اور اسی سادہ خواندگی میں ہی ہم ترقی یافتہ تو کیا بہت سارے ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک نے 2015میں سترہ اہداف رکھے جن کو SDGsیعنی Sustainable Development Goals کا نام دیا گیا جن میں سے دنیا بھر کے لیے مساوی تعلیم کو چوتھے نمبر پر رکھا گیا جو بنیادی ترین ضروریات کے فوراً بعد ہے۔غربت کے خاتمے، بھوک کے خاتمے، صحت کی سہولیات اور بہترمعیار زندگی کے بعد مساوی تعلیم کو رکھا گیا لیکن ہم نہ تو شرح خواندگی میں اس پیمانے تک پہنچ سکے ہیں اور نہ ہی معیار تعلیم میں اور نہ ہی ہمارے پاس تعلیم کے لیے کوئی کریش پروگرام ہے۔ہماری یونیورسٹیاں ابھی بھی دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں جگہ نہیں بنا سکی ہے بلکہ ہم ابھی تقریباََ چار سویں نمبر پر ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں بھی ہم تعلیم کے میدان میں وہ جگہ نہیں بنا پائے جہاں ہمیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بھی ایک مقام افسوس ہے کے ہم دنیا کے سب سے کم تعلیمی بجٹ والے ممالک میں شامل ہیں۔ یہ سب وہ چند حقائق ہیں جن کو جان کر ہم اپنے معیار تعلیم کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہم ایک ہی ملک میں کئی نظام ہائے تعلیم چلا رہے اور باوجود بہت سارے دعوؤں کے ایک معیاری نظام تعلیم پر نہیں آپارہے۔ ہم ابھی تک سرکاری سطح پر سکولوں میں روایتی بلکہ فرسودہ طریقہ تدریس کو تبدیل نہیں کر سکے جس کی وجہ سے یہاں سے نکلنے والے طلباء عملی زندگی میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتے جو وقت کی ضرورت ہوتی ہے اگر چہ ہمارے پرائیوٹ سکولوں کے پڑھے ہوئے طلباء نسبتاً بہترہوتے ہیں لیکن یہ قدرے بہتر معیار بھی چند بڑے اور مخصوص سکول سسٹمزتک محدود ہے جبکہ ملک میں پرائیوٹ سکولز خودرو پودوں کی طرح اُگے ہوئے ہیں اور اسے منافع بخش کاروبار سمجھا جا رہا ہے۔ میں اسے بھی ایک بہتر عمل سمجھتی ہوں کہ کم از کم اس طرح سے ہی سہی ایک عام پڑھا لکھا آدمی روزگار حاصل کر رہا ہے اورملک میں تعلیم کے میدان میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور کم از کم شرح خواندگی کو ہی سہی بڑھا رہا ہے لیکن ضرورت اس سے اگلے مرحلے کی بھی ہے اور وہ ہے معیار تعلیم۔ ان گلی محلوں میں کھلے ہوئے سکولوں میں پڑھنے والے بچے اگلی جماعت میں ترقی ضرور حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ اگر ااُن سے نصاب میں دیے گئے یا پڑھائے گئے کسی موضوع پر کسی دوسری طرح سے بات کی جائے تو وہ جواب تو درکنار اپنا نکتہء نظر تک بیان نہیں کر سکتے جبکہ ماں باپ اور سکول ریکارڈ کے مطابق وہ بڑے اچھے نمبرلے کر پاس ہوئے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات درجہ اول میں ”پاس“ ہوتے ہیں۔ یہی حال اُن یونیورسٹیوں کا ہے جو کسی بنگلے، پرانے ہوٹل کی عمارت یا کسی پلازے کی بالائی منزل پر چل رہی ہوتی ہے اورخود مختار اور آزادانہ طور پر ڈگریاں دے رہی ہوتی ہیں یا کسی بڑی یونیورسٹی سے منسلک ہوتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان اداروں کا شرح خواندگی کے تنا سب میں بڑا اہم کردار ہے اور ہم نے پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بھی بڑھادی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ ادارے والدین کو راضی رکھنے کے لیے بچوں کو تھوک کے حساب سے نمبر دیتے ہیں لیکن جب ان بچوں سے بات کریں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ معیار پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے بحیثیت استاد اور ایک بڑے ادارے کی پرنسپل کے ایسے کئی بچوں سے بھی واسطہ پڑا ہے اور ٹیچینگ کے امیدواروں سے بھی جن کا تعلیمی ریکارڈ بمطابق گریڈز کے انتہائی شاندار ہوتا ہے لیکن اپنے ہی مضمون کے چند بنیا دی سوالوں کاجواب دینے کے قابل نہیں ہوتے جس سے ان اداروں کے معیار کا انداز ہوتاہے۔ اُس وقت شدید افسوس ہوتا ہے جب ایک امیدوار آپ کے سامنے بیٹھا ہو اور وہ اپنے مضمون کے بنیادی اصولوں اور معلومات سے ہی نا واقف ہو اور ایک یو نیورسٹی کی ڈگری اُس کے ہاتھ میں ہو جو تقریبًا چار جی پی اے پر اُس کو دی گئی ہوتی ہے لیکن اُس وقت اُس یونیورسٹی کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر آپ سامنے آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طالبعلم کی نالائقی ہے لیکن اگر ایسا ہوتا تو اُس کا جی پی اے اتنا اونچا کیوں ہے تو کیا پھر یہی نہ سمجھا جائے کہ اپنی ریٹینگ بڑھانے کے لیے بے حساب نمبر دے دیئے جاتے۔ بورڈ کے امتحانات کے نتائج بھی کچھ ایسے ہی معیار پیش کرتے ہیں۔ ہر ڈویژن اور ضلع کی سطح پر قائم ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں نمبروں کے انبار لگا رہے ہیں۔طلباء انگلش اور اُردو جیسے مضامین میں پورے پورے نمبر لے رہے ہیں جبکہ جیسے ہمارے دور میں کہا جاتا تھا کہ مضمون اور کہانی جیسے سوالات کے جوابات میں پورے نمبر نہیں ملیں گے کیونکہ اس کو بہر صورت اس سے بہتر بھی لکھا جا سکتا ہے جو بالکل درست بات ہے لیکن اب ان میں بھی پورے نمبر دے دیئے جاتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب میں لکھا ہے وہ لکھ دیا جائے تو نمبر پورے یعنی ہم رٹے کے نظام سے نکلنے کو بالکل تیار نہیں، چاہے آرٹس ہو یا سائنس کے مضامین اور اسی لیے ہم تخلیقی ذہن پیدا نہیں کرسکتے۔ ہمارے اساتذہ جوابات بورڈ پر لکھ دیتے ہیں اور بچہ اتار لیتاہے اور پھر رٹ کر امتحان پاس کر لیتا ہے چاہے وہ سوال جواب سے بالکل غیر متعلقہ ہی کیوں نہ ہو لیکن بچہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اُس نے نمبر کیسے لینے ہیں سووہ اسے کسی قانونی یا غیر قانونی طریقے سے حاصل کر ہی لیتے ہیں یعنی سوالوں کے جوابات تو سیکھ لیے جاتے ہیں بنیادی تصور کو سمجھنے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ اُس کا اُس کے پرچے سے یا نمبر حاصل کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں ہمارا نظام تعلیم جدت سے دورپرانے طریقوں میں بُری طرح الجھاہوا نئے زمانے کے تقاضوں سے نا آشنا بس چلتا جا رہا ہے۔ جو طلباء اپنی ذہانت کے بل بوُتے پر آگے نکل جائیں تو بہتر ورنہ ہم کم ازکم قومی سطح پر ایسی نسل تیار کرنے کی مخلصانہ کوشش نہیں کر رہے۔یہ باوجود اس کے ہے کہ ہم نے بہت جامع اور اچھی قومی تعلیمی پالیسیاں مرتب کی ہیں لیکن ہمارے ملک کے عام رواج کے مطابق ان پر اس طرح عمل نہیں ہو رہا جیسا کہ ہونا چاہیے اور یہ عمل گراس روٹ یعنی بنیادی اور ابتدائی تعلیمی اداروں سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ تخلیقی عمل جب وقت پر شروع ہوگا اور بتدریج آگے بڑھے گا تو ہی کامیابی حاصل ہوگی اور یہ یاد رہنا چاہیے کہ بچے کے ہاتھ میں پکڑا ہوا پہلا قاعدہ ترقی، کامیابی اور بہتر مستقبل کا طرف پہلا قدم ہوتا ہے اور پہلا قدم بہت سوچ سمجھ کر اور مضبوطی سے اٹھانا چاہیے تاکہ وہ کہیں لاکھڑائے نہ اور منزل تک یقینی طور پر پہنچا سکے۔