کشمیر۔۔۔ چہ ارزاں فروختند

 نغمہ حبیب
India_Kashmir_Valle_748040b
کشمیر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے سے اپنی تمام تر خوبصورتی اور حسن کے باوجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے کبھی انگریز، کبھی ڈوگرہ اور کبھی بھارت کے زیر تسلط رہا ہے اوریہاں کے مسلمان مسلسل عذاب جھیل رہے ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں بھی انسانوں کو غلام بنانے کا رواج موجود ہے اور پوری پوری قوموں کو غلام بنانے کی ہوس بھی، اور کشمیر انہی بدنصیب قوموں میں سے ایک ہے جو غلام بھی ہے اور اس کی فکر سے دنیا آزاد بھی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار بھی ان مظالم پر چپ ہیں جو وہاں مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے سب جھیل رہے ہیں۔ کشمیر کی ایک اور بدنصیبی جو شاید تاریخ میں واحد مثال ہو کہ پورے ملک کوبمعہ اس کی قوم کے بیچا گیااور وہ بھی انتہائی سستے داموں۔ 16مارچ 1846 کو انگریزوں نے کشمیر کو ڈوگرہ را جہ گلاب سنگھ کے ہاتھ صرف پچھتر لاکھ روپے میں بیچا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بیچنے والاخود بھی کشمیر کا مالک نہیں تھا وہ تو خود دوسری زمین سے آیا ہوا ایک ناجائز قابض تھا ۔ اس نے گلاب سنگھ کو پابند کیا کہ وہ کشمیر کی سرحدیں تبدیل نہیں کرے گا اور ساتھ ہی اس سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اس کے خلاف جب بھی مسلح جدوجہد یا بغاوت ہوئی تو حکومت برطانیہ ا س کی مدد کرے گی۔ گلاب سنگھ نے برطانوی حکومت کی بالادستی قبول کرتے ہوئے معاہدے کی ایک شق کے مطابق تاج برطانیہ کو ہر سال کچھ علامتی تحائف بھیجنے کا بھی وعدہ کیا ان تحائف میں ایک گھوڑا، بارہ شالوں والی خاص نسل کی بھیڑیں (چھ نر چھ مادہ) اور کشمیری شالوں کے تین جوڑے شامل تھے اور یوں ایک پوری ریاست اور پوری قوم بہت ہی سستے داموں بیچ دی گئی۔ انگریز افسروں اور رنجیت سنگھ کے جاگیردار گلاب سنگھ نے معاہدے پر دستخط کر دیئے اور کشمیر کی قسمت بلکہ اس کی غلامی کا فیصلہ ہو گیا۔ گلاب سنگھ اور اس کے بعد آنے والے تمام ڈوگرہ راجوں نے کشمیر کو ہی نہیں کشمیریوں کو بھی اپنی جاگیر سمجھا اور جب چا ہا جہاں چاہا جو سلوک چاہا کشمیریوں سے کیا۔ 1837 میں گلاب سنگھ جب وہ جموں کا گورنر تھا نے پختون قبیلے یوسفزئی کے ہر فرد کے سر کی قیمت صرف ایک نا نک شاہی روپیہ مقرر کی اور یوں ہزاروں مسلمان مار دیئے گئے۔ عورتوں کو گلاب سنگھ کے حرم میں لے جایا گیا یا اس کے سپاہیوں کو دے دیا گیا اور یا لاہور کی منڈی میں بیچ دیا گیا۔ مہاراجہ بننے کے بعد تو اس کو یہ ایک روپیہ ایک سرکا تناسب بھی شاید زیادہ لگا ہو ۔1863 میں اس کے جانشین رنبیر سنگھ نے ہنزہ اور یاسین کے علاقے میں اپنے خلاف اٹھنے والی مخالفت کو جس طرح دبایا وہ بھی ظلم کی بے مثال داستان ہے جب مندوری پہاڑی میں چھپی ہوئی زخمی عورتوں کو ان کے بچوں سمیت زندہ جلا دیا گیا ،کل دو ہزار دیہاتی مارے گئے اور پانچ ہزار کو جبری مشقت کے لیے لے جایا گیا ۔کشمیریوں کے مسائل یہاں ختم نہیں ہوئے بلکہ انگریز ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا مسئلہ یہیں چھوڑ گیا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے انگریز سے خریدا ہوا کشمیر بھارت کے ہاتھ بیچ دیا اور یوں کشمیر ایک دفعہ پھر بک گیا اور اس بار تو مفت میں بیچ دیا گیا اور ایک ایسے خریدار کے ہاتھ بیچا گیا جو کشمیری کو گلاب سنگھ سے بھی زیادہ بے قیمت سمجھتا ہے اپنی آزادی کی بات کرنے والے کو یوں قتل کرتا ہے اور نامعلوم اجتماعی قبروں میں یوں دفناتا ہے کہ اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہ رہے کہ مبادا آنے والی کشمیری نسلیں اس کی بہادری اور قربانی سے متاثر ہی نہ ہو جائیں۔ کشمیر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی جب اپنی آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کی 77% مسلمان آبادی ہندو خواہش پر بھارت کی غلام ہے اور نہ صرف اس پر آٹھ لاکھ ایسی فوج متعین ہے جس کو ہر کشمیری جان پر ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں بلکہ بھارت بھر سے ہندو لاکر یہاں بسائے جارہے ہیں ،مندر بنائے جارہے ہیں اور انہیں خصوصی مراعات دی جارہی ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کے اکثریت کی بنا پر آزادی کے حق کی تو جیہہ کو ختم کیا جا سکے۔ ایک طرف مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری طرف ہندو آبادکاری لیکن دنیا خاموش ہے بڑی طاقتیں بھارت کو خوش کرنے کے لیے اسے سلامتی کو نسل کا مستقل رکن بنانے کی کوشش کے وعدے کررہی ہیں لیکن اگر وہ تاریخ پڑھ لیں تو جان جائیں کہ کشمیر اور کشمیری کو پہلی بار جس طرح اور جس دام بیچا گیا تھا اور جس طرح اسے دوبارہ بیچا گیا تو پہلے تو وہ ان جرائم کا مقدمہ چلائیں اور پھر تاریخ کی جوابدہی کے بعد وہ کوئی ایسا وعدہ کر سکیں تو کرلیں ۔ان طاقتوں کو تو چاہیے کہ وہ بھارت سے کشمیر کے بارے میں نہ صرف باز پرس کریں بلکہ اسے مجبور کر یں کہ وہ اقوام متحدہ میں کیے گئے اپنے وعدوں کے مطابق کشمیر کے حق خوداریت کو تسلیم کرے اور اگر وہ واقعی خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتا ہے تو جمہوریت کا تو پہلا اصول ہی کثرت رائے کو فوقیت دینا ہے تو پھر کشمیر میں مسلمان اکثریت کو کیوں دبا کر غلام بن کر رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے کیوں ان کو آزادی کا حق دار نہیں سمجھا جارہا ۔کیا پچھتر لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض کشمیریوں کی غلامی کے ایک سو ستر سال کافی نہیں کیا چار پانچ نسلوں کی غلامی کے بعد بھی آزادی کشمیریوں کا حق نہیں ۔دنیا کو یہ سوچ لینا چاہیے اور یہ بھی کہ اگر آٹھ لاکھ ہندو فوجی آزادی کی خواہش کو نہیں کچل سکے ہیں تو اور کتنی فوج متعین کی جائے گی۔ آزادی اگر ہر انسان کا حق ہے تو کشمیریوں کا بھی ہے اور انہیں ان کا یہ حق مل جانا چاہیے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top