Posted date: February 03, 2016In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو برصغیر پاک و ہند کے امن کولاحق خطرات تقریباََ ختم ہو جائیں گے اور یہاں کے لوگ سکھ اور چین کا سانس لے سکیں گے۔ مسلمانوں کی انتھک محنت ، قربانیوں اور قائداعظم محمد علی جناح کی شاندار قیادت و سیاست کے نتیجے میں انگریز کو ہندوستان چھوڑ کر جانا پڑا اور برصغیر میں ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آگیا اور بھارت کو بھی انگریز سے آزادی مل گئی۔ یہاں موجود ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت جس کے ساتھ چا ہیں شامل ہو جائیں اور اسی اجازت کی آڑ لے کر کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا اور 26 اکتوبر 1947 کو اس دستاویز پر دستخط کیے گئے اور یوں کشمیر جو مسلم اکثریتی ریاست تھی راجہ کی ذاتی خواہش پر بھارت کے ساتھ شامل ہو گئی ۔ قدیم کشمیر ہندو اور بدھ مذاہب کا بڑا مرکز رہا لیکن برصغیر میں اسلام کی آمد کے اثرات ظاہر ہے کہ کشمیر میں بھی پہنچے اور 1339 عیسوی میں یہاں کے پہلے مسلمان حکمران شمس الدین شاہ میر نے اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو اگلے پانچ سو سال تک قائم رہی۔ 1586 سے 1751 تک مغل اس کے بعد 1819 تک افغان درانیوں اور پھر سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور کشمیری مسلمانوں کے لیے ایک سخت ترین دور کا آغاز ہوا کشمیر میں انگریز اور پھر سکھ ڈوگرہ حکومتوں میں سے کوئی دور مسلمانوں کے لیے خوش کن نہیں تھا، ڈوگرہ راج کے خلاف مسلمان ہمیشہ سراپا احتجاج رہے ۔مسلم اکثریت کی اس ریاست میں مسلمانوں کو ہر طرح سے دبا کر رکھا گیا اور پھر بھارت سے الحاق کرکے کشمیری مسلمانوں کی غلامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی ۔کشمیر جغرافیائی، مذہبی، تاریخی ہر لحاظ سے پاکستان کا ہی حصہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ نہ تو پاکستان نے اس فیصلے کو قبول کیا اور نہ ہی کشمیر یوں نے، اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔اسی مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان 1948 ، 1965 اور 1999 میں تین کھلی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک یہ مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے اور اسی بڑے مسئلے سے جڑے ہوئے بے شمار دوسرے مسائل جنم لے چکے ہیں اور لے رہے ہیں لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے وہ نہ تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو خاطر میں لا رہا ہے اور نہ کشمیریوں کی جدوجہد کو وہ اس چیز کو بھی مد نظر نہیں رکھ رہا کہ کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھ کر وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے جنگی بجٹ پر خرچ کر دہا ہے۔ بھارت چونکہ ایک جارح ملک ہے لہٰذا اُس کا بجٹ دفاعی نہیں کہلایا جا سکتا وہ اپنے دفاع نہیں بلکہ دوسروں کے اوپر جنگ مسلط کرنے اور اُن ملکوں میں دہشت گردی کے لیے رقم مختص کرتا ہے ۔ کشمیر میں اُس نے پاکستان کی کُل فوج جتنی فوج متعین کر رکھی ہے لیکن آج تک وہ اُن کی جدوجہد آزادی کو ختم نہیں کرسکا ہے کیونکہ کشمیری اپنے حق آزادی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ظاہر ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کہ اپنے بنیادی حق کو چھوڑ دیں اور غاصب بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال ڈال دیں۔ پاکستان مسلسل کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی مدد کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے اور دنیا کو بھی اس مسئلے کی اہمیت اور حساسیت سے مسلسل آگاہ کر رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب کشمیر یوں نے اپنی آزادی کی تحریک کو زیادہ شدت کے ساتھ شروع کیا تو بھارت سرکار اور فوج نے اسے غیر انسانی طریقے سے کچلنے کی کوشش کی۔1990 میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبد اللہ کی حکومت کو بر طرف کر کے بدنام زمانہ جگ موہن ملہوترا کے زیر انتظام گورنر راج قائم کیا گیا۔ 1987 کے نام نہاد انتخابات کے بعد ہی کشمیر میں غم و غصہ بڑھ رہا تھا جس کی وجہ سے بھارت سرکار کا وہ کردار تھا جس کے ذریعے اُس نے حریت پسند جماعتوں کی یقینی فتح کو سازش کے ذریعے شکست میں بدلا اور نیشنل کانفرنس کی حکومت بنائی گئی جسے کشمیریوں نے بالکل بھی قبول نہیں کیا ۔احتجاج زرو پکڑ تا گیا اور آخر بھارت سرکار نے حکومت کو فارغ کرکے گو رنر راج لگا دیا لیکن اس کام کے لیے جس شخص کا انتخاب کیا گیا یعنی جگ موہن وہ کشمیریوں اور مسلمانوں کا مانا ہوا دشمن اور بد ترین مخالف تھا ۔19 جنوری کو اسے کشمیر سونپا گیا اور 21 جنوری کو اُس نے کشمیریوں کا تاریخ کا بد ترین قتل عام کیا جب ہزاروں مظاہرین انتخابات، گورنر راج اور گھر گھر تلاشی کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے سینٹرل ریزو پولیس نے گاؤکا دل پل کے اوپر اُن پر فائر کھول دیا جس میں 50 سے زائد افراد شہید ہوگئے جبکہ کچھ رپورٹس کے مطابق یہ تعداد سو سے بھی زیادہ تھی یہاں سو سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ۔ اُس وقت حالات اس حد تک پہنچے کہ صرف جنوری میں تین سو افراد شہید ہوئے۔ اِن حالات میں پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی مدد کی غرض سے پانچ فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منایا گیا اور اگلے سال یعنی 1991 سے اسے باقاعدہ یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا اب پچھلے پچیس سال سے اس دن کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مکمل اظہار کیا جاتا ہے اس طرح ان کو اخلاقی مدد دی جاتی ہے اور ساتھ ہی دنیا کو اس مسئلے کی حساسیت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ یہ دن یقیناًپاکستانیوں کے جذبات کا عکاس ہے جب وہ اپنے تمام کام اور کاروبار چھوڑ کر کشمیریوں کے مقصد آزادی کے لیے اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی ہٹ دھرمی ختم کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے اور سنجیدگی کی بھی۔ ہمارے حکمرانوں کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کو پہلی ترجیح دینی ہوگی اس کے بعد یقیناًانہیں دیگر مسائل حل کرنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یوم یکجہتی کشمیر بھی اپنی جگہ لیکن بین الا قوامی برادری کو بھی مائل کرنا ہوگا اور اس مسئلے کی اہمیت اور سنجیدگی کا احساس دلانا ہوگا اور اس سے جڑے مسائل کا ادراک بھی کرانا ہوگا۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے اسے ویسے ہی اقدامات کرنے پر مجبور کرنا ہوگا جیسے اُس نے سوڈان، ایسٹ تیمور وغیرہ میں کیے اوراس بات کا بھی احساس کرانا ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر برصغیر کا امن نا ممکن ہے اقوام متحدہ کو بھی خواب غفلت سے جگانا ہوگا کہ اگر وہ خود کو دنیا کے امن کا ذمہ دار سمجھتا ہے تو کشمیر بھی اسی دنیا کا ایک خطہ ہے اور اس کے کا غذات میں سب سے پرانا مسئلہ۔ کشمیر کی تین چار نسلیں آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے جو ان ہوئی ہیں تو کیا اب بھی آزادی ان کا حق نہیں ہے اور کیا اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل نہ کرنے کے جرم میں بھارت کی سرزنش نہیں کر سکتا اور اُسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کرے تاکہ خطے کے امن کو لاحق خطرات سے نجات حاصل کی جا سکے اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو اس بات پر ضرور اور جلد سوچنا ہوگا۔