(گائے بمقابلہ شیر)
ہماری مقدس کتا ب قرآن پاک کا آغاز سورۃ البقرہ(گائے) سے ہوتا ہے جو اڑھائی پاروں تک چلتا ہے اس میں گائے کا ذکر ہے۔ جبکہ شیر فضول جانور ہوتے ہوئے کسی انسانی کام میں ممدو معاون نہیں ہے۔ گائے شریف، انسان دوست اور بے ضرر جانور ہے جبکہ شیر پلید ، عوام دشمن اور خونخوار درندہ ۔
گائے انسانوں کو نہایت ہی اعلیٰ اور میٹھا دودھ مہیا کرتی ہے خصوصاً ننھے بچوں کی نشوونما کیلئے تو ڈاکٹر گائے کا دودھ ہی تجویز کرتے ہیں جو کہ ان کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کیلئے انتہائی ضروری، مفید اور طاقتور ہوتا ہے۔دوسری طرف شیرنی کا دودھ انسان حاصل بھی نہیں کرسکتے بلکہ انسان کیلئے اسے پینا حرام قراردیا گیا ہے۔ گائے کا تمام مذاہب میں احترام موجود ہے خصوصاً غیر مسلم تو اسے پوجنے کی حد تک چاہتے اور پیار کرتے ہیں جبکہ شیر کا نام سامنے آتے ہی اس کی خوفناکیاں سامنے آجاتی ہیں ۔
شیروں کی تعداد دنیا میں انتہائی کم ہے جبکہ گائے ہر گاؤں ، بستی، قصبے اور شہر میں ، گھروں میں بندھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ گائے ایک پالتو جانور ہے مگر شیر کو گھروں میں کوئی نہیں پالتا۔گائے کسی چک یا قصبے کے بازار یا گلی میں اچانک نظر آئے تو لوگ اس پر بحث و مباحثہ شروع کردیتے ہیں کہ کیسی نفیس گائے ہے ، غالباً چولستانی ہوگی یا ساہیوال نسل کی ہے ، یہ دودھ اتنا نہیں بلکہ اتنا دیتی ہوگی۔دوسری طرف شیر کسی بستی یا قصبہ میں اچانک نظر آجائے تو لوگوں میں سراسیمگی پھیل جائے گی اور طوفان جیسا سماں پیدا ہوجائے گا۔نوجوان گھروں سے لاٹھیاں، تلواریں اور بندوقیں لے کر نکل آئیں گے اور اسے ہر حالت میں ہلاک کرنے کیلئے کوشا ں ہونگے کہ کسی انسان کو چیر پھاڑ نہ ڈالے۔ حتیٰ کہ شیر نفرت اور گائے محبت اور پیار کا نشان ہے۔ گائے ہم عید قربان پر سنت ابراہیمیؑ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ذبح کرکے ثواب حاصل کرتے اور اس کا گوشت عزیزو اقارب اور غرباء میں تقسیم کرتے اور خود کھاتے ہیں جبکہ شیر کا گوشت پلید ہے اور انسانوں کیلئے اس کا کھانا حرام ہے۔ گائے کا مذکر بیل ریڑھوں میں باربرداری کیلئے اور ہلوں کے ذریعے فصلوں کو بونے سے قبل زمین کی تیاری کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
پرانے زمانے سے آٹا پیسنے والی چکیوں اور زمینوں کوسیراب کرنے والے کنوؤں سے پانی نکالنے کے کام آتا ہے۔شیر کی بہادری کی بہت تعریفیں کی جاتی ہیں ، جب اس کا عمل دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ا س کی بہادری انسانوں کیلئے موت کا سامان پیدا کردیتی ہے اور یہ کہ اس نے دلیری کرتے ہوئے فلاں انسان یا انسانوں کے مجمع کے اتنے انسانوں کو زخمی کرڈالا اور ان کے اعضاء کاٹ کر جنگل کا رخ کرگیا ہے جبکہ گائے کی بہادری اور دلیری یہ ہے کہ وہ انسانیت کی فلاح کیلئے دودھ اور گوشت کی فراہمی کے ذریعے انسانوں کو طاقتور اور بہادر بناتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر بے رحم اور چیر پھاڑکر کھاجانے کی ظالما نہ صلاحیت کی وجہ سے جنگل کے جانوروں کا بادشاہ ہے مگر گائے انسانوں کے دلوں کی خوبصورت شہزادی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج’’ ہر کوئی گائے کے گن گائے‘‘ ۔نئی رجسٹرڈ ہونے والی سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک پاکستان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے الاٹ کیا گیا انتخابی نشان’’گائے‘‘برسراقتدار حکمران پارٹی ن لیگ کے نشان شیر سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔پاکستانی عوام سے خصوصی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں گائے کے نشان کو کامیاب بنائیں۔ انشاء اللہ آپ کے مسائل بھی حل ہونگے اور آپ کو شیر کی طرف سے مہنگائی کی چکی میں پیسنے اور حکمرانوں کی دہشت، وحشت اور آمریت سے بھی نجات مل جائے گی۔ واضح رہے کہ ’’اللہ اکبر تحریک‘‘ کا انتخابی نشان ’’گائے‘‘ حاصل کرنے کیلئے باری ہاؤس، باری روڈ ہارون آباد ضلع بہاولنگر پنجاب پاکستان میں قائد تحریک و ادنیٰ خادم پاکستان ڈاکٹر میاں احسان باری سے رابطہ کریں ۔ دوسری طرف بڑی سیاسی جماعتیں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کیلئے ہزاروں روپے بٹور رہی ہیں اور انکے لیڈروں کی چاندی ہوگئی ہے
اپنا ذاتی پتہ واضح طور پر لکھ کر درخواست بھجوادیں،ٹکٹ روانہ کردی جائے گی۔عام انتخابات کی طرح جس میں پہلے تو اعلان کردیا گیا تھا کہ موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان قومی و صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے کامیاب ہوگئے ہیں مگر جب گائے کے نشان والے امیدوار صوبائی اسمبلی نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروائی تو چوہدری نثار علی چاروں شانے چت ہوگئے اور گائے نے شیر کو مات کردیا اور ہارنے والا امیدوار گائے کے نشان کی وجہ سے جیت گیا اور چوہدری صاحب صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے آپ بھی گائے کا نشان حاصل کرکے مکمل طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں ۔اللہ اکبر کے جھنڈے لہرائیے ، سٹکر چسپاں کیجئے اور فتح پائیے کہ اللہ اکبر کے سٹکر کاہر کوئی احترام کرے گا اور کوئی بھی مسلمان اسے نہیں اتارے گا اور ہر طرف اللہ اکبر کے سٹکروں کی بھرمار ہوگی۔ گائے کا انتخابی نشان عام انتخابات میں بیلٹ پیپر پر اپنے قدو قامت اور بھاری بھرکم جسم کی وجہ سے واضح نظر آتا تھا جبکہ شیر کی شکل لومڑی کی طرح نظر آتی تھی ۔بلدیاتی انتخابات میں تو امیدواروں کی بھرمار کی وجہ سے چوہیا کے بچے سے بھی کم قامت کا نظر آئے گا یعنی بیڑہ ہی ڈوب جائے گا جبکہ گائے کا نشان واضح اور خوبصورت نظر آتا ہے اس طرح سے گائے کے نشان پر مہر لگانے کا خواہشمند کوئی ووٹر شیر کے نشان پر مہر لگانے کی غلطی نہیں کرسکتا جبکہ ؟؟؟ خدا کے فضل و کرم سے انشاء اللہ گائے پر ہی مہریں لگیں گی کہ ’’گائے سب کو بھائے‘‘۔اگر پاکستانی عوام ’’گائے ‘‘ کے نشان پر مہریں لگا کر اللہ اکبر تحریک کو کامیاب کرڈالتے ہیں تو آئندہ عام انتخابات تک تو موجودہ برسر اقتدار جماعتوں بالخصوص ن لیگ کے پاؤں تلے سے خاصی زمین اپنے رہنماؤں کی نااہلیوں،اورمہنگائی بڑھانے والے قوم دشمن اقدامات کی وجہ سے سرک چکی ہوگی۔پارلیمنٹ میں موجودحزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی حیثیت کھو چکی ہونگی اور اللہ اکبر تحریک عام انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرے گی اور مساوات محمدی ؐ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک کی تقدیر بدل ڈالے گی ۔ کوئی بھی بھوکا اور بغیر لباس و چھت کے نہیں سوئے گا۔عام لوگوں کو تعلیم ، علاج، انصاف، بجلی، گیس ، فون، انٹرنیٹ اور صاف پانی بالکل مفت ، کھانے پینے کی تمام اشیاء 1/5 قیمت پر اور ہمہ قسم تیل ، ٹرانسپورٹ و باربرداری کی سہولتیں 1/3قیمت پر سبسڈی (عالم اسلام کی غیر سودی امداد ) کے ذریعے مہیا ہونگی۔ مزدور اور تمام محنت کشوں، کھلاڑیوں ، صحافیوں و ملازمین کی تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہوگی نیزناجائز جاگیرداری ، بیروزگاری، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری، بدعنوانی ، سود خوری ، رشوت خوری ، لیڈر پرستی ،پولیس گردی، دہشت گردی ، قتل و غارت گری اور مذہبی انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ۔ قرآن و سنت کو سپریم لا ء بناکر اللہ اکبر کے جھنڈوں اور نعروں تلے فرقہ واریت ،لادینیت، لسانیت، عصبیت، علاقائیت، غربت،جہالت ، ہمہ قسم استحصال، ڈکیتی ، رہزنی ،برادری ازم، اغو ا برائے تاوان کے عفریت گہرے دفن ہوجائیں گے ۔ تمام اقلیتوں کوبھی مکمل تحفظ اور ہمہ قسم سہولتیں فراہم کرتے ہوئے متناسب نمائندگی طبقات بلحاظ آبادی و اسلامی جمہوریت کے ذریعے ملک فلاحی مملکت بن جائے گا۔
The “e paper” may not be agree or responsible for the contents of this media piece. Published the same in respecting the voice and personal opinion of Dr. Sahib.)