Posted date: June 21, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
آجکل ہر سیاسی و سماجی اجتماعات میں یہ بحث ومباحثہ عام ہے ‘ ذرائعِ بلاغ سے منسلک ماہرین یہ گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ شائد ’مقتدرادارے ‘ ( ’مقتدر ‘ کا لفظ کسی کی زبان پر اگر آ بھی جائے تو فوراً یہ سمجھ لیا جاتا ہے شائد یہ ’فوج ‘ کی طرف اشارہ ہے ‘نہیں‘ ایسا بالکل نہ سمجھا جائے، اب سب کو یہ تسلیم کرلینا چاہیئے کہ ’آئین ‘ ہی معزز و مقتدر ہے آئین سے جڑے ہوئے سبھی ادارے ’مقتدر ‘ ہیں چاہے پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ یا پھر افواجِ پاکستان سمیت سبھی قومی ا دارے ‘ جن پر پاکستان کے عوام مکمل بھروسہ کرتے ہیں اِن ہی قومی مقتدر اداروں میں سے ایک ادارہ وزارتِ دفاع ہے جس سمیت پارلیمانی پارٹیوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ ’جیو نیوز ‘ نے ذرائعِ ابلاغ کی آزادی سے بہت زیادہ ’آزادی ‘ پر ’آمرانہ قبضہ کرلیا تھا جب وہ ایسی باتیں کرتے ہیں، تو ظاہر ہے اِن کا اشارہ یقیناًوزارتِ دفاع کے سربراہ خواجہ آصف کے اُ س اعلان کی طرف ہوتا ہے جواُنہوں نے پیمرا کی طرف سے جیو نیو ز گروپ کو دی جانے والی سزاکو نہ ناکافی قرار دیا وہ اپنی درخواست پر جیو نیوز کو دی جانے والی ا س سزا کو بڑھانے کے لیے اب عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کے اپنے حق کو محفوظ رکھتے ہو ئے اٹارنی جنرل کے آفس میں ’غالباً ‘ ایک درخواست دائر کرچکے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولٹری اتھارٹی’پیمرا‘ نے ’جیو نیوز گروپ ‘ کی طرف سے ملک کے قومی سیکورٹی کے اہم ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ پر لغو‘ بے بنیاد الزام تراشی کے سنگین جرم کے سرزد ہونے پر جیو نیوز کی نشریات کو ’صرف پندرہ ‘دن معطل رکھنے اور ’ایک کروڑ روپے‘ جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پیمرا آرڈیننس 2002 سیکشن 33 اور 36 کے تحت پیمرا حکام کو اب درخواست دی جس میں جیو کی ادارتی ٹیم اور انتظامیہ کے خلاف مقدمات شروع کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے وزارت دفاع نے اپنا یہ ٹھوس موقف اختیار کیا تھا کہ ریاست کے ایک اہم آئینی سیکورٹی ادارے کے خلاف اِس نجی نیوز گروپ نے آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی تضحیک اور توہین آمیز نشریاتی مواد چلایا جو کہ نہیں چلایا جانا چاہیے تھا اظہار رائےِ آزادی کی تشریحات وتوضیحات پر
اب تک بہت باتیں ہوچکیں ‘ واقعی‘ اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ’تصورِ آزادی اور بنیادی انسانی آپس میں ایک ہی مطلب کو نمایاں کرتے ہیں‘ خالصتاً اسلامی نظریاتی اساس پرقائم ملکِ پاکستان میں جب بھی اظہار رائے کی آزادی کا ذکر ہوگا تو اِس موضوع کے ہر نکتہ کو سمجھے بغیر ہم ’آزادی ‘ یعنی فکری ونظری آزادی کی عوامی نکتہ ِٗ نگا ہ سے تشریح کو واضح کرنے میں آگے نہیں بڑھاپائیں گے ’مادر پدر آزادی ‘کو دنیا کے کسی بھی مہذب اور متمدن معاشرے نے نہ ماضی میں اپنے ہاں پنپنے دیا اور نہ آج ایسی صورت ہمیں دنیا بھر میں کہیں پر دکھائی دیتی ہے اب اِسے ہم یوں سمجھنے کی عقلی جستجو کیوں نہ کریں ’عام مفہوم میں آزادی (Liberty) سے مراد ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونا ہے اور آزادی کا یہ مفہوم گمراہ کن ہے کیونکہ ’لامحدود آزادی ‘ کو بے دریغ استعمال کرکے صر ف ’سامراجی عزائم ‘ والے’’ طاقتور گینگ‘‘ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو گمراہی پر چلتے چلے جاتے ہیں قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک یہ جو کہا جاتا ہے غلط نہیں کہا جاتا کہ ’جیو نیوز گروپ ‘ نے ہمیشہ سے اپنا یہ مخصوص گینگ گروپ نما تجارتی وطیرہ یا طریقِ واردات اپنایا کسی نئے اردو ر وزنامہ کو ملک میں پنپنے نہیں دیا گیا ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ روزنامہ نوائے وقت کے بانیان کی یہ جراّت مندانہ ہمت تھی، جسے کوئی بھی ’سامراجی ذہنیت ‘ کبھی نہ زیر کرسکی نہ ہی ’وقت نیوز پبلیکیشنز ‘ کے مذہبی نظریاتی صحافیوں اور کارکنوں کو خرید نے میں کوئی کامیاب ہو سکا، بات ہورہی تھی پاکستان میں اظہار رائےِ کی آزادی کے تصور ات کو کہیں روکے بغیر کیسے اور کیونکر فروغ دیا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ مؤثر اور دیر پا انداز میں ’اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حقوق وفرائض کو خود کیسے سمجھا جائے جن قومی اداروں کی ذمہ داری ہے وہ اپنی اِس اہم ذمہ داریوں سے بحسن وخوبی کیسے عہد براء ہوسکتے ہیں؟1789 کے منشورِ حقوقِ انسانی میں واضح کیا گیا ہے’آزادی سے مراد ایسا کام بجا لانے یا کرنے کی آزادی‘ جس سے دوسروں کے مفادات کو ضرر نقصان نہ پہنچے بنیادی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ مفکر ’گیٹل‘ نے اظہارِ رائے کی آزادی کی تعریف میں ایک جگہ لکھا ’ آزادی سے مراد ریاست کی طرف سے فراہم کردہ حقوق ومراعات سے پیدا شدہ ماحول ہے، جس میں ہر فرد کو تعصب سے پاک سیاسی و معاشرتی اور سماجی و ثقافتی صلاحیتوں کو نکھارنے کے یکساں مواقع میسر ہوں ‘اِسی طرح سے ہم بحیثیتِ مسلمان سمجھتے ہیں یقیناًہمارا دینِ اسلام ہمیں بحیثیتِ فرد اظہار رائے کی مکمل آزادی ضرور دیتا ہے مگر‘ اِس میں اخلاقی و تمدنی حدود کا تعین موجود ہے صحافت کے اعلیٰ و ارفع اقدار کو علمِ قرآن کی ہدایات میں اپنے معاش کے ساتھ ایک مقدس فرض سمجھنے والے صحافیوں کی رائے معلوم کرلیں اُن کے نزدیک ’’اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں ’شبہات ‘ اور گمانوں سے بچنے کی روایات قائم ہیں یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ صر ف ’شبہات ‘ کی بناء پر کسی کے خلاف کوئی عملی قد م نہ اُٹھایا جائے چونکہ اسلام ’گمان ‘ کو قطعی پسند نہیں کرتا، سورہ ِٗ ال حجرات میں پروردگارِ عالم کا حکم ہے’ ’بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘ جیو نیو ز گروپ کے جتنے بھی ٹاک شوز کے خلاف وزارتِ دفاع نے اپنا آئینی حق استعمال کرکے اُسے اسلامی نظریاتی ریاست کے آئین کے تابعِ فرمان بنانے کی جو درخواست عدالتِ عالیہ میں پیش کی ہے اُس درخواست میں یہ التماس ہے کہ ’جیوز نیو ز گروپ ’گمانوں اور تصوراتی شبہات کو بنیاد بناکر پاکستان کے اہم ترین سیکورٹی اداروں افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کو مغربی دنیا میں بدنام کرنے کے لئے شروع دِن سے اپنے مخصوص’مائنڈ سیٹ‘ کا عوامی ماحول بنانے کی سرتوڑ کوششیں کرتا رہا سب خاموش تماشائی بنے رہے جیسے تیسی بھی بنائی گئی ’میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ‘ پیمرا کے نام پر قائم ہے آج تک اِس ادارے کے پیشہ ورانہ امورِ کار کاتعین نہیں کیا جاسکا اور نہ صرف یہ بلکہ آج تک پیمرا کا کوئی مستقل چئیر مین بھی مقرر نہیں کیا گیا ہے پیمرا کی پہلی ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ نجی سرپرستی میں چلائے جانے والے ٹی وی چینلز کہیں ہمارے مذہبی اقدار ‘ ہماری نظریاتی و ثقافتی اساس کے لئے خطرہ تو نہیں بن رہے ؟ جبکہ آج تک ہم سب یہ دیکھ ر ہے پڑوسی ملک بھارت میں تیار کردہ کمرشلز نیم عریاں ماڈلز کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نمایا ں پاکستانی نوجواں نسل کو اپنی فریب زدہ بیہودگی کی حد کو چھوتی کشش کے سحر میں مغلوب کرنے میں ہماری مذہبی حدودو قیود کے نظریاتی اصول وضوابط کو کتنا پیچھے چھوڑ چکی ہیں پاکستانی معاشرے میں در آنے والی غیر ملکی ثقافتی یلغار کے آگے بند باندھنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے یہ وہ اہم سوال ہے جو آج ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں ہمیں سوچنا ہے کیا پڑھیں ‘ کسے پڑھیں ‘ کیا سنیں ‘ کس کی سنیں ‘ کیا دیکھیں اور کسے دیکھیں ؟روز محشر ہماری آنکھیں جوابدہ ہونگی ‘ ہمارے کان جوابدہ ہونگے اور ہماری زبانیں جوابدہ ہونگی؟