Posted date: September 05, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصرر ضا کاظمی
بھارت نے 6 ؍ستمبر1965 کو پاکستان کی نفرت میں جنونی پاگل پن کا بہیمانہ انداز اپنا یا اور پاکستان کی بین الااقوامی زمینی ‘ سمندری اور فضائی حدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کردیا وہ یقیناًشیطانی زعم وتکبر میں مبتلا تھا پاکستانی قوم وپاکستانی مسلح افواج کے ایمانی جذبوں سے یکسر انجان ‘اُسے قطعی یہ علم نہ تھا کہ تینوں پاکستانی سروسنزآرمی ‘ نیوی اور فضائیہ کی جانب سے کتنا شدید اور منہ توڑ جواب آسکتا ہے، ستمبر1965 کی سترہ روزہ جنگ میں پاکستانی زمینی فوج کے ہم قدم پاکستانی فضائیہ کے ہوابازوں نے جذبہ ِٗ شہادت سے سرشار ہوکر بزدل اور نکمی بھارتی فضائیہ کے چھکے چھڑا دئیے امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری جنگِ ستمبر کے دروان اپنے تبصرے میں کہا تھا ’اگر بھارت اور پاکستان کے مابین اِس جنگ میں فریقین کی جنگی کارکردگی اور مہارانہ صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ صورتحال واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے بھارت کے مقابلے میں بہتر جنگی کارکردگی پیش کی ہے، بھارت کا اِس جنگ میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے پاکستانی فضائیہ کے حکام نے بھی اعداد وشمار کے تخمینے میں ایمانداری اور احتیاط سے کام لیا امریکی تبصرہ نگاروں نے پاکستان ائیرفورس کے فضائی جنگی مہارت سے بھر پوراور تباہ کن حملوں کے بالکل صحیح اعداد وشمار دنیا کو بتائے جن کی تصدیق دیگر ذرائع سے بھی کرلی گئی ہے ’سنڈے ٹائمز لندن ‘ نے بھی اسی طرح سے اپنے اداریہ میں لکھا تھا ’پاکستان کی فضائیہ بھارتی جہازوں کو مار بھگاکر اور صحیح ہدف کو نشانہ بنانے کے بعدمکمل طور پر جنگ کے پہلے ہی مرھلے میں فضائی تسلط حاسل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی بھارتی پائلٹ پاکستانی پائلٹوں اور فضائی افسروں کے مقابلے میں خوف اور احساسِ کمتری کا شکار دکھائی دیتے تھے اور اُن کی قیادت قابلِ صد افسوس تھی، بھارت مکمل طور پر پاکستانی قوم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوچکا تھا جس کا آبادی کے لحاظ سے تناسب ایک اور چاراور مسلح افواج کی جسامت کے لحاظ سے ایک اور تین کا تھا ’دی انڈونیشئن ہیرالڈ‘نے 11 ؍ستمبر 1965 کی اپنی اشاعت میں لکھا تھا کہ ’ایک معروف بھارتی صحافی فرینک موریس نے آل انڈیا ریڈیو پر بات چیت کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ بھارتی فضائیہ کو بڑا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ہے اور یہ حقیقت چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ‘اگر یہ جنگ یونہی جاری رہی تو پھر بھارت کومزید نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے‘تنگی ِٗ کالم نے ہمارا قلم روک دیا کہ ہم مزید مغربی تجزیہ نگاروں کی اُن آراء اور تجزیاتی رپورٹوں کا جائزہ یہاں پیش کریں آج بھارت نے خود اُن غیر جانبدار حلقوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ دیا ہے جو یہ جانتے ہیں کہ 1965 کی جنگِ ستمبر بھارت بہت بُری طرح سے وہ جنگ ہار چکا تھا جنگیں حوصلہ ‘ہمت ‘ ایمانی جذبوں ‘ اور سرفروشانہ دلیری سے لڑی جاتی ہیں بین السطور یہ ہی کچھ بیان ہوا ہے بھارت لاکھ اپنے جتن متن کر لے نئی دہلی میں اُس کا ’وار کارنیوال ‘ کا جشن بھارتی نئی نسل کو سوائے گمراہی کے جھوٹے’لغو اور بے سروپا اور بے بنیاد دعوؤں کے اور کچھ نہیں دے سکے گا ستمبر1965 میں پاکستانی فضائیہ کے ہوابازوں نے جذبہ ِٗ شہادت سے سرشار ہوکر بھارتی جسارت کے جواب میں اپنے وطن کی سلامتی پر والہانہ مرمٹنے کے احساسات سے بھارتی فضائی ٹھکانوں پر پے درپے حملے کیئے جن میں ایک حملہ کالی کنڈ کے بھارتی ہوائی اڈے پر کیا جس میں بھارتی فضائیہ کے 11 ہنٹر اور 4 جنگی ہیلی کاپٹر پاکستان پر حملے کے لئے بالکل تیار حالت میں کھڑے تھے یہ بھارتی طیارے کھڑے کے کھڑے تباہ کردئیے گئے اور قابلِ اعزازمقام پاکستان کے لئے یہ تھا کہ ایسے انتہائی حساس اور نازک لمحوں میں پاکستانی فضائیہ کے جہاز بھارتی فضائی حدود پر راج کرتے رہے اور مختلف محاذوں پر بری اور بحری فوج کو پوری مدد فراہم کرنے کا فریضہ ادا کرتے رہے جب 23 ؍ستمبر کو فائربندی تک بھارتی طیارے ہوائی اڈّوں پر تباہ ہوئے جوکہ فنِ حرب کی تاریخ میں اِس کے لئے بڑی شرمناک بات ہے یہ ہی تاریخی سچائیاں ہیں جب بھی کسی کے قلم کی نوک پر آتی ہیں تو لکھنے والا کا دل لرزنے لگتا ہے قلم کی نوک کانپنے لگتی ہے جب پاک وطن کے محافظوں اور شہیدوں کانام آتا ہے تو کسی کی شہادت کا لمحہ بے خوفی یا دلیری سے کم دکھائی نہیں دیتا مگر فلائٹ لیفٹیننٹ یونس خان شہید ستارہ ِٗ جراّت جنہوں نے پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈّے پر دشمن (بھارت ) کے 15 لڑاکا طیاروں کو عین حالتِ اڑان میں دیکھ کر اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا طیارہ اُن طیاروں کی صفوں سے ٹکرادیا اور یوں پٹھان کوٹ کا ہوائی اڈّا لمحہ بھر میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نظر ہوگیا مجھے انتہائی فخر ہے کہ میرا نوجوان بیٹا ملک وقوم کے لئے بڑی دلیری سے شہید ہوا مجھے افسوس اِس بات کا ہے کہ میرا ایک ہی بیٹا تھا، اگر میرے پاس دس بیٹے ہوتے تو میں اُنہیں بھی ملک وقوم کی خاطر قر بان کرنے سے دریغ نہ کرتا ‘ یہ الفاظ فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید کے والد کے ہیں واقعی جو ایک عظیم باپ کے جذبہ ِٗ حب الوطنی کی حرف با حرف ترجمانی کرتے ہیں اور اُن کی والدہِ گرامی کا یہ کہنا کہ ’خدایا تیرا شکر ہے کہ تونے ہمارے خاندان کو اپنے وطن پاکستان کی سلامتی کو قائم رکھنے کے لئے ایسا ہی بڑا اور نہایت ہی بلند اور عالی شان موقع دیا اللہ تعالیٰ کی اِس انتہائی کرم نوازی پر کہ اُس نے ہمیں اِس عزت واحترام سے نوازا ہم اُس کے شکر گزار ہیں ‘اب کوئی بتلائے جس قوم کے یہ جذبات ہوں وہ قوم کیسے کیوں سرنگوں ہوسکتی ہے یہ ایک فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید ستارہ ِٗ جراّت کا واقعہ نہیں اگر کالم کی تنگیِ داماں ہمیں احتیاط برتنے پر مجبور نہ کرتیں تو یہ پورا اخبار بھی کافی نہیں تھا کہ ہم جنگِ ستمبر کے شہداء اور غازیوں کا تذکرہ تفصیل سے کرلیتے کالم کے ابتدائی سطور میں جیسا ہم نے لکھا ہے کہ آج بھارت کیوں یہ خیال آیا کہ جنگِ ستمبر1965 وہ ’ہارا‘ نہیں بلکہ ’جیتا ‘ تھا 22 ؍ستمبر1965 کو ’دی ٹائم ویکلی‘ نے اپنی اشاعت میں ایک معرکتہ آلارا کالم تحریر کیا جس کا یہ اقتباس بھارتیوں کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہونا چاہیئے ’ اُس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے جو موت سے کھیلنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہو پاکستان اور بھارت کی اِس جنگ کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ یاد رہے نہ رہے لیکن اکثر دیکھا گیا سنا گیا کہ پاکستانی فوجی افسر ہویا جوان جب وہ موت سے ہمکنار ہوا تو اُس کے چہرے پر ہر کسی نے ایک مسکراہٹ ضرور دیکھی پاکستانی فوج کے جوانوں سے لے کر جنرل آفیسر کمانڈنگ تک کے تمام افراد آگ کے شعلوں سے اِس طرح کھیل رہے تھے جس طرح بچے گلیوں میں گولیاں ( بنٹے) کھیلتے ہیں پاکستانی فوج کے جوانوں اور افسران کے حوصلوں کی کوئی مثال نہیں ملتی وہ بے خوف ‘ نڈر ‘ پُرعزم بہادری اور جذبہ ِٗ حب الوطنی سے سرشار پائے گئے آج50 برس گزر جانے کے بعد بھی ہم اپنے شہداء کی یادوں کو اپنے سینوں میں سجائے اُن کی قیمتی جانوں کے نذرانوں کو خلوصِ نیت سے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں’’خونِ دل دے کر نکھاریں گے رخِ برگ وبار۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے ‘‘