یوم یکجہتی کشمیر پر جلسے جلوس سمینار تقاریر بیانات چھٹی اور بس
Posted date: February 04, 2020In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
کشمیر! یوں تو دہائیوں بلکہ بات صدیوں تک پہنچ چکی ہے کہ غلام ہے ایک کے بعد دوسرے آقا نے اسے اپنی بندشوں میں باندھ کر رکھاہوا ہے لیکن اس بار تو کشمیریوں کی قید تنگ ہوتے ہوتے ان کے گھروں کی حدود تک پہنچ چکی ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ کر فیوکی پابندیوں اور بندشوں میں بندھے ہوئے اپنے گھروں میں قید ہیں،نہ بنیادی انسانی حقوق کی تنظیمیں جاگ رہی ہیں نہ اقوام متحدہ، نہ عالمی طاقتیں اور تو اور مسلمان ممالک بھی نہ صرف یہ کہ سو رہے ہیں بلکہ گہری نیند سو رہے ہیں یہاں تک کہ کوئی بھارت سے اپنی دوستی اور تعلقات میں ہلکا سا رخنہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ صرف اپنے مالی، معاشی اور تجارتی مفادات دیکھ رہے ہیں اور کشمیریوں کااگر دم گُھٹ رہا ہے توگُھٹے اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں۔ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے والوں میں ترکی جیسے دو چار دوستوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ہاں کبھی کبھی ایک سرسری سا بیان کسی مسلمان ملک سے آجاتا ہے اور بس پھر لمبی خاموشی اور تو اوآئی سی بھی چُپ کا روزہ رکھے رہتی ہے۔کشمیر تو ایک طرف بھارت میں شہریت کے متنازعہ بِل پر بھارت کے ہندو تک بول اٹھے، مغرب سے بھی آوازیں سنائی دیں،اقوام متحدہ نے بھی ہلکاپھلکا سا احتجاج کیا، بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی دبی دبی کچھ آواز سنائی دی نہ ہوا تو مسلمان ممالک کی طرف کوئی ردعمل نہ ہوا۔ اور یوں کشمیریوں پر غاصب بھارت کو مزید شہہ ملتی گئی اور بیس کروڑ مسلمانوں کے گلوں پر اُس کے ہاتھ کا دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور کشمیر تو اس کا پُرانا شکار ہے جسے اُ س نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی کشمیری زخمی ہوتا ہے، گرفتار ہوتا ہے، غائب کیا جاتا ہے اور یا مر جاتا ہے اور آزادی کے قبرستان میں ایک اور شہید کی کچی قبر کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کشمیر کے قبرستان نوجوانوں اور جوانوں کی قبروں سے بھرتے جارہے ہیں لیکن آزادی اُن سے دور اور دور ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ہم 1990سے لے کر آج تک ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی مناتے ہیں،جلوس ہوتے ہیں سیمینار بھی منعقد ہوتے ہیں، تقاریر بھی ہوتی ہیں،صدر اور وزیر اعظم کے بیانات بھی آجاتے ہیں، عام آدمی چھٹی بھی منالیتا ہے اور پھر معمول کی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔یہ بھی درست ہے کی مختلف مواقع پر عالمی سطح پر بھی اس مسئلے کو اٹھا دیا جاتا ہے لیکن اس میں وہ تیزی اور زور نہیں ہوتاکہ اسے عالمی قوتوں اور بین الاقوامی برادری کے لئے پہلی ترجیح یا ترجیحات کی فہرست میں شامل کر دے ہاں اس بار وزیراعظم پاکستان نے جس طرح اقوام متحدہ میں ا سے پیش کیا وہ ضرور قابل تعریف ہے لیکن ایک بار کا یہ پر زور انداز کافی نہیں اسے مسلسل جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے اگر چہ اس بار حکومت نے پانچ فروری کو زیادہ پرزور انداز میں منانے کا اعلان کیا ہے لیکن ملک کے اندر تو چونکہ اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو ملک کے ساتھ ساتھ اس قدیم مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی پرزور اور موثر اندازمیں اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر تو حکومت،عوام اور فوج جو آواز اٹھائے گی وہ تو اٹھائے گی لیکن زیادہ توجہ بین الاقوامی محاذ پر دینی ہوگی یہ بھی درست ہے کہ یورپ اور دیگر مغربی ملکوں میں مقیم کشمیری اس دن احتجاج کے لئے ضرور نکلتے ہیں لیکن اس میں دیگر پاکستانی باشندوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنائی جائے اور اس سے بھی بڑھ کر ان ملکوں کے مقامی لوگوں کو بھی متحرک کر کے اپنے اجتماعوں میں شرکت کی دعوت د ے کر انہیں مسئلہ کشمیر کے متعلق آگاہ کیا جائے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ان حکومتوں کو اس مسئلے کے بارے نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ اُن کا تعاون حاصل کیا جائے اور اعلیٰ سطح پر حاصل کیا جائے۔ان حکومتوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ کشمیر کو ایک عالمی سطح کا مسئلہ تسلیم بھی کریں اور بھارت پر دباؤ بھی ڈالیں کہ وہ کشمیر سے نہ صرف اپنی فوج واپس بُلا لے بلکہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے اور کشمیریوں کو بھی آزادی کا حق اُسی طرح دیا جائے جیسے ایسٹ تیمور، ساؤتھ سوڈان، مقدونیہ یاکسی بھی دوسرے ملک کے باشندوں کو دیا گیا۔ اس بات کو بھی نمایاں کیا جائے کہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازعے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے یہاں کے انسانوں کو آزادی کا حق دیا جائے اور انہیں مودی اور اُس جیسے دوسرے دہشت گردوں جو ہندوستان کے حکمران بنتے رہتے ہیں کے چُنگل سے چھُڑایا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ یہی کشمیر دوایٹمی قوتوں کے درمیان وجہ تنازعہ ہے جو ماضی میں کئی جنگوں کا باعث بنا ہے اور مستقبل میں کسی بھی عالمی تباہی کی وجہ بن سکتا ہے لہٰذااب اس مسئلے کو مزید طوالت سے بچا کر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔ اگر ہم اس مسئلے کو بین الاقوامی،حکومتی اور سفارتی سطح پر زیادہ کامیابی سے اُجاگر کر سکیں تو ہی ہم اس سے جڑے دن منانے کا اصل مقصد حاصل کر سکیں گے۔