Posted date: November 29, 2015In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
امریکہ میں 9/11 ہوا اور پوری دنیا میں جیسے زلزلہ آگیا خاص کر مسلم دنیا میں، جب امریکہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مسلمان ملکوں کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا۔ افغانستان پر آتش و آہن کی بارش کردی گئی نہ شہری آبادی کو دیکھا گیا ،نہ بچوں کواور نہ عورتوں کو گناہ بے گناہ سب مارے گئے اور وجہ بتائی گئی ٹوئن ٹاورز پر حملہ افغانستان سے ہوا اور طالبان نے کیا۔ ساتھ ہی پاکستان کو بھی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس میں کچھ اپنے حکمرانوں کی نااہلی تھی اور کچھ امریکہ کی شرپسندی ،اور نقصان ہوا تو پاکستان کا اور دہشت گردی کی اسی آگ سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں ۔پاکستان پر مسلسل یہ الزام لگایاجاتارہا ہے اور اب بھی لگایاجارہاہے کہ یہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور یہی سے دنیا بھر میں دہشت گرد بھیجے جاتے ہیں اور یہ الزام لگانے میں خود وہ لوگ پیش پیش رہتے ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی اور بدامنی پیدا کرتے ہیں ۔بھارت جو ہمیشہ پاکستان کو نہ صرف اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتا ہے بلکہ دنیا بھر کی دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان کو دیتا ہے پاکستان کے ذمے وہ جرائم بھی لگا دیتا ہے جو خوداس کی کارستانی ہو تی ہے۔لیکن اس بار تو خود بھارت سے ہی گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی ہے اور اس کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر یعنی دہلی پولیس کے سابق کمشنر نیراج کمار نے بتایا اور لکھا کہ ایک دہشت گرد آصف رضاخان نے اپنے بیان میں انہیں بتایا کہ 9/11کے لیے سرمایے میں بھارت نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور دوطرف سے ڈالا ،پہلا یوں کہ عمرشیخ کو رہا کیا تاکہ اپنا ہائی جیک کیا ہوا طیارہ چھڑا سکے جسے مولوی مسعود اظہر نے اغوا کیا اور اس کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے مشتاق احمدزرگر سمیت عمرشیخ کو رہاکردیاگیا۔ عمر شیخ کوآفتاب انصاری نے اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونے والی رقم دی۔ یہ آفتاب انصاری وہی شخص ہے جس نے کولکتہ میں امریکن سنٹر پر2002میں حملہ کیاتھا جس میں چار پولیس اہلکار اور ایک سیکیورٹی گارڈہلاک اور 20افراد زخمی ہوئے تھے۔یہی رقم جو آفتاب انصاری نے عمر شیخ کو دی تھی اس میں اس نے ایک لاکھ ڈالر9/11کے ایک حملہ آور محمد عطا کو دیے ۔محمد عطا ان حملہ آوروں کا لیڈر تھا جنہوں نے ٹوئن ٹاورز پر حملہ کیا تھا۔ یوں بھارت نے اس حملے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اگرچہ بظاہر تو اس واقعے میں بھارت کے شہری ملوث ہوئے لیکن بھارت سرکار بھی شکوک سے بالا تر نہیں۔ یہ سب کچھ کوئی اور نہیں بلکہ خودبھارت پولیس کا ایک اعلیٰ اہلکار بیان کررہا ہے اور مستند ذریعے سے بیان کررہاہے مستند اس لیے کہ ان تمام واقعات میں شامل ایک مجرم کے حوالے سے یہ سب کچھ کہا جارہا ہے۔
بھارت وہ ملک ہے جو دہشت گردی کاشور زیادہ کرتا ہے حالانکہ وہ اس سے کچھ زیادہ متاثر نہیں اور ادھرہونے والے واقعات کو وہ بغیر کسی حیل وحجت کے پاکستان کے ذمے لگا دیتا ہے لیکن خود وہ ایسے واقعات میں ملوث ہے اور اس کے شہری بڑی سہولت سے کوئی بھی ایسی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ 9/11جیسے انتہائی اہم اور بڑے منصوبے کو بنانے والے بھارت میں اگر پائے جائیں تو یہ کس بات کی نشانی ہے۔ اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ بھارت اپنے جرائم دوسروں اور خاص کر پاکستان کے کھاتے ڈال کر بڑے آرام سے ایسے منصوبے بناتا ہے۔اگر وہ اپنے ان سقہ اور ثابت شدہ مجرموں کو قابو میں رکھتا تو شاید ان واقعات میں کچھ کمی ہوتی لیکن اس کی تو حکومت بھی ایسے لوگوں کو مدد فراہم کرتی ہے جو دوسرے ممالک میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان اور فاٹا میں تو اس کی مداخلت کھل کر سب کے سامنے آچکی ہے اور پاکستان کے دوسرے علاقے بھی اس فساد سے محفوظ نہیں۔ پاکستان میں مقامی دہشت گرد تو ہیں ہی لیکن انہیں آخر فنڈنگ ہوتی کہاں سے ہے اور اس کہاں کاجواب اس بھارتی پولیس افسر کی اس کتاب سے حا صل ہو جاتا ہے اگر امریکہ میں حملے کے لیے بھارت سے پیسہ پہنچ سکتا ہے تو پاکستان تو بالکل پاس ہے اور تسلیم شدہ دشمن بھی ہے جسں کی سرحد پر بھارت اپنی بر بریت کا اکثر مظاہرہ کرتا رہتا ہے ،اور سرحدوں کے اندر بھی اسی کی مدد دشمنوں کو حاصل رہتی ہے۔ نیراج کمار کی اس کتاب میں کیے گئے ا نکشافات کے بعد بھی اگر امریکہ اور مغربی دنیابھارت کی سر گرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرے اور ان پر نظر نہ رکھے توپھر تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دونوں کے درمیان کچھ نہ کچھ گٹھ جوڑ ہے۔ بھارت جو خود کو امن کا بڑا داعی کہتا ہے اُس کے ہاں مذہبی ، نسلی ہر قسم کی شدت پسندی موجود ہے اور اگر دنیا اس خوش فہمی میں مبتلاء ہے کہ بھارت کی شدت پسندی صرف پاکستان تک محدود رہے گے تو اُسے یہ معلوم ہو جا نا چا ہیے کہ اس کا یہ رویہ بڑھتا اور پھیلتا رہے گاجس کے لیے وہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو بھی استعمال کرتا رہے گا اور چاہے وہ اس کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرے، افغانستان کی یا کسی اور ملک کی ۔لہٰذا امریکہ اور دوسرے مغربی مما لک کو بھا رت کے بارے میں اپنا نکتہء نظر تبدیل کر کے حقیقت پسندی کا مظا ہرہ کرناچاہیے تاکہ کسی آئندہ نائن الیون اور ایسے ہی دوسرے واقعات کو روکا جا سکے۔