Posted date: March 15, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
نجی الیکٹرونک میڈیا کی پُرکشش جاذبیت انسانی ذہین پر گہرا اثر ڈالنے میں وقتی طور پر کامیاب ضرور ہوتی ہے مگر، وقت گزرنے کے بعد انسانی ذہن جب یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ حقائق وہ ہی ہیں جو ابھی اُس نے اپنے ٹی وی اسکرین پر دیکھے اور کیا ہمارے اردگرد کا شہری ماحول اِتنا ہی بھیانک اور تباہ کن ہوچکا ہے کہ ہم اپنے گھر و محفوظ مقام سے ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے کیا یہ ہی ہماری زندگیوں کا معمول بنتا جارہا ہے کہ ہر طرف‘چہار سو حوصلہ شکن‘ مایوس کن اور وحشت ناک بربادی ہی بربادی پھیلی ہوئی ہے کہیں قتل و غارت گری ہورہی ہے ہر طرف جرم وجرائم پیشہ دہشت گردوں کا راج ہے، کراچی سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ تک قومی شاہراؤں پر کہیں امن نہیں‘دہشت گردوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اپنے ٹی وی کے نجی نیوز چینل دیکھ لیں، گھروں میں عورتیں بچے سہمے ہوئے‘ اپنے پیاروں کی واپسی کی آہٹوں پر کان لگائے بیٹھے یہ ہی خبریں سن سن کر اُن کی جان پر بنی رہتی ہے اچانک جب اُن کے پیارے باسلامت گھروں میں داخل ہوتے ہیں تو گھر کی خواتین اُنہیں دیکھ کر کہتی ہیں ’شکر ہے آپ گھر آگئے، ابھی ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ شہر کے فلاں مقام پر پولیس مقابلہ ہوا اِتنے لوگ زخمی ہوئے اِتنے مارے گئے تو اُن کے پیارے کہتے ہیں ’اُسی جگہ سے تو ابھی ہم گزرے ایسا کچھ تو ہم نے وہاں نہیں دیکھا‘اِسے اگر ’تشدد پسند رپورٹنگ کی صحافت‘ کہا جائے تو کیا یہ اصطلاح صحیح نہیں ہے؟ہر ایک نجی نیوز چینل پر(چند ایک دو کے سوا) قتل‘ جرائم‘ اغواء برائے تاوان‘ دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کے موضوعات پر مختلف ناموں سے کئی پروگرام دکھائے جارہے ہیں ’’جب تک جرم ہے دیکھتے رہیئے ہمارا یہ شو“پوری قوم انجانے اور اَن دیکھے خوف کی عادی بنائی جارہی ہے یہ کیسی انتہائی مبالغہ آمیز اور بہیمانہ وحشت ناک جذبات واحساسات پر مبنی رپورٹنگ کی خبریں ہمارے ٹی وی اسکرینوں کی زینت بنی ہمارے خرچ پر ہمیں سرتا پا خوف اور عدم تحفظ کا شکار بنائے ہوئے ہے عجیب طرفہ تماشا الگ یہ ہے اگر کوئی بزنس مین اپنے کاروباری مہم کے لئے صرف30 سیکنڈ کا کوئی اشتہار دینا چاہئے تو اُسے ٹی وی والوں کو لاکھوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں اور وہ ادا کرتا ہے جب کہیں جاکر اُس کا اشتہار ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے جیسے پہلے گزارش کی گئی ہے سب ہی ایسا نہیں کررہے ہیں (روزنیوز چینل اور ایک دو چینلز کے علاوہ) انسانی جرائم نامی کتاب کے مصنف کولن ولسن لکھتا ہے بقول ’برنارڈشا‘ کے ’ایک بغل میں بطخ‘ دوسری بغل میں باجہ اور گیٹ سمجھ کر باغ کی دیوار سے با ر بار سر مارنا اور یہی کرتے ہوئے اپنی لمبی ٹوپی کو باجہ سا بنادینا صرف دیکھنے والوں کے لئے کامیڈی ہے مگر دیوار سے سرمارنے والے آدمی اور کھڑی کے شیشہ سے بار بار ٹکرانے والی شہید کی مکھی کی حالت بہت مختلف اور سنگین ہے‘ولسن لکھتا ہے ’ایک طرح سے شہید کی مکھی کا یہ عمل بالکل صحیح ہے کہ وہ روشنی کی سمت میں جاتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسا نہ کرئے کہ یہ اُس کی بنیادی فطرت ہے مگر وہ غلطی پر ہے کیونکہ روشنی ٹھوس اشیاء میں سے نہیں گزرتی اگر اُسے اپنا مقصد حاصل کرنا ہے تو اپنی سمت بدلنا ہوگی مگر شہد کی مکھی کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں‘ لاکھوں‘ صدیوں برسوں سے اُس کے جینے کا یہ ہی انداز ہے اپنی فطرت بدلنا اُس کے بس میں نہیں‘ یقینا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ دہشت ووحشت کی دلدوز آوازوں کی گونج انسانی ذہنوں کو یک لخت فی الفور اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہیں، دنیا میں آئے معصوم ننھے فرشتہ نما بچوں کی آنکھوں کے قریب چوٹکی بجائیں تو وہ ایکدم اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے وہ آنکھیں گھومانے لگے گا بالی وڈ کی تھری ڈی فلمیں دیکھیں دل ہلادینے والے آوازوں کی گھن گرج انسانی کانوں کے پردوں کو پھاڑ نہیں دیتے؟اب تو قتل وغارت گری جیسے درند صفت جرائم کے ٹی وی پروگراموں میں بطور اینکر اِلا ماشاء اللہ جینز اور ٹخنوں تک لمبے بوٹ پہنے جواں سال خواتین آنے لگیں ہیں، ایسے ٹی وی شوز کے پس منظر میں شہر جلتے نظر آتے ہیں،
لپکتے جھلستے شعلوں اور انسانی لہو رنگ کی ٹیلی گرافکس کے انتہائی ڈراونے مناظر‘ اغواء برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ گھروں میں ڈکیتیوں‘ باہمی دشمنیوں کی وجہ سے رونما ہونے والی ماردھاڑ کی داستانوں کی خبروں سے تشکیل دئیے گئے پروگرام اور اینکر پرسنز کے تیکھے اور غصیلے لب و لہجوں کی ڈرامائی بازگشت میں کبھی کبھی یوں لگنے لگتا ہے کہ جیسے ہم خودیعنی ’ناظرین‘ بھی یا تو اِن واقعات کا حصہ ہیں یا یہ جرم ہم نے کیئے ہوں؟ ا نسانیت کش ایسے بربریت نما پروگراموں کی عنایت قوم پر لادھی جارہی ہے، قوم کے حوصلوں کو پست سے پست کرنے کی اِن بہیمانہ سازشوں کا سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیئے شائد یہ سب کچھ کرنے والے سمجھتے ہوں گے اِس طریقہ سے جرائم میں کمی آ ئے گی یہ اِن کی بڑی بھول ہے، بزنس مین کمیونٹی اپنے کاروبار کی تشہیرکے لئے نجی ٹی وی والوں کو کئی لاکھ روپے دے کر اپنے اشتہارات چلوا تے ہیں جبکہ دوسری جانب جرائم پیشہ‘ دہشت گردوں کا پہلا مذموم تو مقصد یہ ہی ہوتا ہے کہ ملکی معاشرے کو ’حوصلہ شکن‘ بنا جائے، شہریوں کی توانیائیوں کو پژمردہ کیا جائے جب وہ گھروں سے نکلیں عدم تحفظ کا شکار ہوں سبھی شہری ایک دوسرے سے خوف زدہ رہیں آپس میں میل جول کم رکھیں گھروں میں رہیں تو خوف زدہ‘ باہر نکلیں تو خوف زدہ‘ اصل میں لاقانونیت پسند جرائم پیشہ دہشت گردوں کا یہ وہ بنیادی ایجنڈا ہے جسے نجی ٹی وی والوں نے اپنایا ہوا ہے
انسانیت شکن اِن پروگراموں میں وہ اپنے ہم عصروں پر سبقت لیجانے کی لاحاصل دوڑ میں بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں اِن کے ایسے پروگراموں کا موازنہ شہد کی مکھیوں سے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جیسے بین السطور بیان کیاگیا کہ وہ اپنی فطرت بدل نہیں سکتی یہ امراُن کے بس میں نہیں‘ مگر اب کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پاکستانی سماج اور معاشرے کو جنونی خوف و ہراس ا وروحشت سے دوچار کیئے رکھنے والا نجی الیکٹرونک میڈیا اور اِس کے کرتا دھرتا سبھی کے سب شہد کی مکھیاں بنے نام نہاد قسم کی اپنی جراّت مندی کی تصویر کی صورت جرائم پیشہ دہشت گردوں کے عزائم کی بجاآوری کی خدمت تو انجام نہیں دے رہے؟ ُن کا اختیار کردہ یہ غیر اخلاقی رویہ شہید کی مکھیوں کی طرح سے نہیں ہے؟ وہ نہیں سمجھتے کہ جو طریقہ اُنہوں نے ’لاعلمی‘ کی بناء پر ہی سہی وہ غلط ہے؟ معاشرہ میں مردانگی اور حوصلہ پیدا کرنے کی انسانی مہم کو اجاگر کرنے کی جانب نجی الیکٹرونک میڈ یا کیوں نہیں آگے بڑھتا؟ خوف زدہ ملکی ماحو ل میں نیکی‘ انسانیت نوازی‘ باہمی بھلائی و ہمدردی اور خیر و اعتماد اور باہمی بھروسہ کے جذبوں کو فروغ کے لئے ہمارا الیکٹرونک میڈیا انسانیت نوازی کی اِس راہ پر کب آئے گا؟ تاکہ پاکستان کے عوام بشمول بچے‘ جوان‘ بوڑھے ہر ایک فرد بے خو فی‘دلیری اور احساس تحفظ سے لیس ہوکر ہو سکیں جس نہ صرف سماجی معاشرہ مضبوط ہوگا بلکہ لاقانونیت پسند جرائم پیشہ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کمزور ہونگے اُن کے حوصلے پست ہونگے۔