Posted date: March 15, 2014In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
تھر میں بچے بھوک سے مرگئے، ایک دو نہیں اب تک ڈیڑہ سو سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سانحہ ایک اسلامی ملک میں ہوا جس اسلام کے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مر جائے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے لیے جوابدہ ہوگا ،لیکن آج کا حکمران سوتا رہا بچے بلکتے رہے، مرتے رہے، مائیں سر پیٹتی رہیں لیکن کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس وقت تک اس مسئلے کو اہمیت نہیں دی جب تک کہ کئی بچے بھوک سے مرنہیں گئے اور جب ہو گئے خاک تو ہم تک تیری آواز آئی۔ تھر کا صحرا دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جو بھارت اور پاکستان دونوں میں منقسم ہے ۔ اس کا پچاس ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پاکستان میں ہے اور اس میں سندھ کے کئی زرخیز اضلاع بھی شامل ہیں جو نہروں کی بدولت لہلہاتی فصلوں اور شاداب کھیتوں پر مشتمل ہیں لیکن تھر پارکر کا ضلع زیادہ تر ریگستانی ہے اور یہاں سالہا سال بارش نہیں ہوتی۔یہ علاقہ قدرتی طور پر مخصوص اور سخت حالات کا حامل ہے کہ ظاہر ہے جب بارش نہیں ہوگی تو فصلیں نہیں ہونگیں اور ایسے میں یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان علاقوں کے بارے میں نہ صرف خبر رکھے بلکہ نامساعد اور غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی بھی ضروری ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اس ساری فراست سے عاری ہیں وہ اپنے مفادات سے ہٹ کر کسی دوسری طرف نہیں دیکھتے ۔ اگر ایسا ہوتا تو جب سندھ حکومت ،چیئرمین پیپلز پارٹی کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی تھی، جب موئن جو داڑو پر روشنیوں کا سیلاب امڈا ہوا تھا اور ہزاروں سال پرانی تہذیب زندہ کی جارہی تھی اُس وقت تھر کی زندہ بستی اور زندہ بچے موت کے اندھیروں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ صرف سندھ فیسٹیول پر ہی پیسہ نہیں بہایا گیا بلکہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں لایعنی اور فضول قسم کے ریکارڈ بنانے پر بھی قومی دولت کو لٹایا گیا۔ گنیز بک کو کتنے پیسے دیے گئے یہ تو کوئی باخبر ہی بتا سکتا ہے۔ عشائیوں ، عصرانوں اور ظہرانوں پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے یہ بھی عوام کو علم نہیں تو اندازہ ضرور ہے اور شرمناک المیہ تو وہ کھانا بھی تھا جو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے مٹھی کے قحط زدوں سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھ کر کھایا۔ تھر پارکر ریگستان سہی لیکن اس میں زندہ انسان بستے ہیں اور انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں یہی حال چولستان اور تھل کا بھی ہے۔ صحراؤں، ریگستانوں اور پہاڑوں کی زندگی آسان نہیں ہوتی اسی لیے یہاں کے باشندے خانہ بدوشی پر مجبور رہتے ہیں لیکن یہاں کے مستقل مکین کہاں جائیں رہنا تو انہوں نے انہیں مشکل حالات میں ہوتا ہے اور آج کے دور میں جب ذرائع آمدرفت انتہائی تیز ہو چکے ہیں رسل وسائل کے مسائل بھی وہ نہیں جو سو دو سو سال پہلے تھے، میں یہ نہیں کہتی کہ ان علاقوں تک پہنچ اتنی آسان ہے جتنی کسی شہر تک لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ وہاں بسنے والوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
ملک کے بڑوں شہروں میں اگر تزئیں و آرائش پر بے تحاشا خرچ کیا جا سکتا ہے کیو نکہ اس کو دیکھ کر سراہا جاتا ہے اور داد وصول کی جاتی ہے تو ان دور دراز علاقوں تک ضروریات زندگی کا پہنچا دینا بھی حکومت کا فرض ہے۔ سہولیات صرف بڑے لوگوں اور بڑے شہروں کا حق نہیں ان چھوٹے علاقوں اور لوگوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے لہٰذا یہ عذر کسی طرح قابل قبول نہیں کہ ان علاقوں تک پہنچ مشکل ہے۔ اس وقت تھر کی جو صورتحال ہے وہ صرف اور صرف حکومتی غفلت کا ہی نتیجہ ہے اس میں بیورو کریسی سے لیکر سیاسی نمائندوں اور حکومتی ارکان تک سب مجرم ہیں اور جو ان اموات کو سردی اور ہیضے کا نتیجہ کہہ رہے ہیں وہ کم از کم اتنا ہی کرلیں کہ ان بچوں کی کمزور صحت اور لاغر جسموں کو ہی دیکھ لیں جوافر یقہ کے کسی قحط زدہ ملک کے بچوں جیسا منظر پیش کرتے ہیں ان بچوں کو دیکھ کر تو کسی بھی حساس انسان کے جذبات قابو میں نہیں رہ سکے۔ کاش کہ اب جو سیاسی رہنما اور امدادی تنظیمیں وہاں ڈیرے ڈانڈے ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں کچھ پہلے وہاں پہنچ جاتے۔ اب وہ ہمدردی کی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عوام ان کا اصل روپ بھی دیکھ چکے ہیں کہ جب لوگ بھوکوں مر رہے تھے تو وہ اپنی اپنی عیاشیو ں میں مصروف تھے۔ اگر سندھ کی ثقافت کو بچانے سے پہلے سندھ کے بچوں کو بچا لیا جاتا تو یہ ثقافت خود بخود زندہ رہتی، اجرک اور ٹوپی پہننے والے سر اور کندھے نہ رہیں تو کہاں کی اجرک، کہاں کی ٹوپی اور کہاں کا فخر۔ ثقافت پر فخر کرنا بہت اچھا ہے اور میں خود اپنی ثقافت کی بڑی مداح ہوں لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم اس کو اربوں روپے لگا کر زندہ رکھ لیں گے تو یہ غلط فہمی ہے اسے بچانے کے لیے تو انسان کا اپنی مٹی اور لوگوں سے پیار ضروری ہے۔ اب تھر کے وہ بچے تو دوبارہ نہیں آسکتے جو ہماری قومی بے حسی کی نذر ہو گئے لیکن ان بچوں کی بے بسی نے قوم کو رُلا ضرور دیا اور اگر اب بھی ہمارے صاحبان اختیار اور سیاہ و سفید کے مالکان اپنی ترجیحات متعین کر لیں تو شاید ہم دوبارہ اپنی تاریخ ، اپنے جغرافیے ، اپنی ثقافت اور اپنے قومی وقار کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ آج تھر میں امدادی کاروائیوں کے لیے بیٹھے ہوئے لوگ اگر وہاں مستقل بنیادوں پر کچھ ایسے ترقیاتی منصوبے بنالیں اور کچھ ایسے کام کر لیں کہ تھر کے یہ بے بس اور انسانی ترقی سے بے خبر لوگ بھی خود کو اس دنیا کے باشندے تصور کر لیں تو ہم اپنی شرمندگی اور جرم کا کچھ نہ کچھ ازالہ کر ہی لیں گے۔لیکن اگر ہر قومی سانحہ گزرنے کے بعد اس کو بھلا دینے کی روش برقرار ر ہی تو اکیسویں صدی میں تھر میں بھوک افلاس اور بے بسی سے مرنے والے یہ بچے اس کرب سے گزرنے والے آخری بچے نہیں ہونگے بلکہ خدانخواستہ ہم اس درد اور شرمندگی سے بار بار گزریں گے لہٰذا حکومت وقتی نہیں مستقل بنیادوں پر سوچے اور اقدامات کرے تاکہ پھر ہمیں ایسی صورتحال سے دو چار نہ ہونا پڑے۔