تحریکِ طالبان کہ مادیّت پرست رہنماؤں کی آپسی لڑائی
تحریکِ طالبان کہ مادیّت پرست رہنماؤں کی آپسی لڑائی
( افتخار حسین)
پاکستان کےمعصوم مسلمانوں کی جان و مال پر حملے اور لوٹ مار تحریکِ طالبان کی قیادت کی مجرمانہ فطرت کی عکاسی کرتی رہی ہے۔ مفاد پرست عناصر کا یہ گروہ جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے سے اپنی اِس مہم کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا رنگ دینے میں بھی اپنا سانی نہیں رکھتا۔ مگر حال ہی میں اس کے رہنماؤں کی آپسی لڑائی نے اس کے جھوٹ کا پول کھول کر یہ ثابت کردیاہےکہ یہ مادہ پرست ٹولہ جاہ و مال کی حوس میں اپنے ہی ساتھیوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ قبائلی علاقوں سے آنے والی خبروں کے مطابق اب تک سو سے زیادہ طالبان جنگجو کو مادہ پرستی کہ اس جنون نے ہلاک کردیاہے۔
اب تک میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے مطابق تحریکِ طالبان کے دو رہنما، خان سید سجنا اور شہریار محسود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ ان دونوں کی دشمنی کی بھینٹ عام کارندے چڑھ رہے ہیں جو ان کے احکام کی پیروی میں لڑنے پر مجبور ہیں۔ جن طالبوں کو اسلام کے نام پر بہکا کر اور اشتِعال دلا کر تحریکِ طالبان میں لایا گیا تھا وہ اب اپنے آقاؤں کی جاگیروں اور دولت کے تحفظ میں اپنے ہی جیسے طالبوں کے خلاف صف آراء ہیں اور ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔مادہ پرستی کی ضِد میں لمبی چوڑی تقریریں کرنے واے ان رہنماؤں کا منافقت پر مبنی کردار اس لڑائی کے سبب سے سب کے سامنے عیاں ہو گیا ہے۔ ان کے پر فریب دعوے اور جھوٹ کی حقیقت بہت ہی تلخ ہے۔
تحریکِ طالبان کے امور پر نظر رکھنے والےصحافی حضرات کا کہنا ہے کہ موجودہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تحریکِ طالبان میں کئی برسوں سے پنپ رہی تھی جس کی وجہ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے آپسی اختلافات تھے۔ خان سید سجنا ولی الرحمٰن کا ہم خیال کمانڈر ہے جبکہ شہریار محسود حکیم اللہ محسود کے زیر اثر تھا۔ان صحافیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ در حقیقت ولی الرحمٰن اور حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کا بڑا سبب بھی یہی مخاصمت بنی۔ ان دونوں پر ہونے والے ڈرون حملوں کے لئے اہم معلومات سی آئی اے کے ایجنٹوں کو انہی گروہوں کے تعاون سے حاصل ہوئی تھی۔ یہ حقائق بھی تحریکِ طالبان کے رہنماؤں کی مادیّت پرست سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو ذاتی مفاد کے لئے اپنے ہی درینہ ساتھیوں کے حق میں ظالم ثابت ہوئے۔
کمانڈر سجنا کی ناراضگی اور غضب کی سب سے بڑی وجہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس کے تحریکِ طالبان کے امیر بننے میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں ہیں جنہوں نے اُس کے اِس خواب کو توڑ دیا۔ اِس کی سب سے زیادہ مخالفت عصمت اللہ شاہین بھٹانی اور شہریار محسود نے کی جس کے سبب سے ملا فضل اللہ کو یہ منصب مل گیا۔ لہٰذا عصمت اللہ شاہین بھٹانی تو شاید اسی سبب سے ہلاک ہو چکا ہے مگر سجنا اور شہریار کے حامیوں کے مابین سخت کشمکش اور جھڑپیں جاری ہیں۔ اس لڑائی اور خون ریزی کا سبب تحریکِ طالبان کے منفعت بخش اثاثوں پر قبضہ کرنا مقصود ہے ۔منشیات فروشی، اغوأ برائے تاوان اور گاڑیوں کی چوری کے بڑے نیٹ ورک وہ چند اثاثے ہیں جن کی حوس ان دونوں رہنماؤں کے سخت گیر روئیے کا باعث ہے۔
سجنا اور شہریار دونوں ہی اپنی ضِد پر پکے ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی اپنے دعوؤں سے دست بردار ہونے کے لئے تیارنہیں ہے۔ تحریکِ طالبان کی مرکزی اور سیاسی شوریٰ اس لڑائی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اس ضمن میں افغان طالبان سے مدد اور مداخلت کی درخواست کر چکی ہے۔ تاہم قرائین سے پتہ چلتاہے کہ انہیں بھی اس سلسلے میں کامیابی کی کم امید ہے۔ شہریار اور سجنا کے دعوؤں اور جوابی دعوؤں نے تحریک طالبان کو افواہوں کا شکار بنا رکھا ہے اور یہ عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
بیان کردہ حقائق تحریک ِطالبان کی قیادت کے اصل عزائم سے پردہ ہٹانے کے لئے کافی ہے۔ ذاتی منفعت اور حوس پر مبنی ایجنڈے کو اسلام کی خدمت اور سربلندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ سادہ لوح طالبوں کو یہودونصاری سے جنگ کا جھانسہ دےکر پاکستان کے مسلمان عوام پر اپنے جرائم کی تکمیل میں لگا رکھا ہے۔قارئین ذرا سوچئے کے ذرہ ذرہ بات پر اور چند روپے کی خاطر اپنے ہی ساتھیوں کو ہلاک کردینے والے رہنما کیونکر اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد اور دردمند ہو سکتےہیں۔ لہٰذا قبائلی عوام اور مدرسوں کی انتظامیہ ان مادیّت پرست عناصر کو مکمل طور پر رد کردے۔