تحریکِ طالبان دھڑا بندی اور الزامات:پنجابی طالبان نے بھی اپنی راہیں جدا کر لیں
تحریکِ طالبان دھڑا بندی اور الزامات:پنجابی طالبان نے بھی اپنی راہیں جدا کر لیں
ایس اکبر
آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی اور مسلح افواج کی کاروائیوں کے دباؤ کی وجہ سے تحریکِ طالبان کے رہنما اور اس کے کارندے ذہنی انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس دہشت گرد گروہ کے نت نئے دھڑے وجود میں آرہے ہیں اور چھوٹے بڑے رہنما بھانت بھانت کی بولیاں بول رہےہیں۔حواس باختہ تخریب کار آپس میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اور اپنے ہی ساتھیوں کی برائیاں بیان کرنے میں راتب الّسان نظر آتے ہیں۔
دھڑا بندی اور حواس بختی کےاس عالم کی ایک نئی کڑی کے طور پر پنجابی طالبان کے رہنما عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ پنجابی طالبان کاگروہ بھی اب تحریک طالبان اور ملّا فضل اللہ سے الگ ہو گیا ہے۔ اسکی اصل وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ تحریک طالبان کے رہنما نے اس تحریک کے اصل مقصد کو فراموش کر دیا ہے ۔ عصمت اللہ کے مطابق پنجابی طالبان کے کارندے اب صرف افغانستان میں لڑیں گے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کسی مہم میں حصّہ نہیں لیں گے۔ صحافی برادری اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس طرح ہوتا ہے تو یہ تحریکِ طالبان کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ پنجابی طالبان ہی پنجاب اور سندھ کے شہری مراکز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ان کے بغیر تحریکِ طالبان بڑے شہری مرکز پر حملے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گی۔
پنجابی طالبان کی علیحدگی سے قبل جماعت الاحرار کے قیام کی صورت میں تحریکِ طالبان کے متعدد کمانڈر اور اہلکار ملّا فضل اللہ کو چھوڑ چکے ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق جماعت الاحرار اب تک تحریکِ طالبان کا وجود میں آنے والا سب سے بڑا دھڑا ہے۔اس کے قیام کے ساتھ ہی تحریکِ طالبان سُکڑ کر ملّا فضل ا للہ اور اس کے چند قریبی احباب تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ پنجابی طالبان کا یہ قدم ٹی ٹی پی کومزید غیر موثر کر دے گا۔
اس صورت حال میں تحریکِ طالبان کے رہنماؤں کی طرف سے مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں۔ ملّا فضل اللہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس نے عمر خراسانی کو تحریکِ طالبان سے نکال دیا ہے جبکہ عمر خراسانی جو اب جماعت الاحرار اور تحریکِ طالبان دونوں میں شمولیت کا دعویدار ہے اس کی طرف سے یہ رد عمل سامنے آیا ہے کہ اس نے ملّا فضل اللہ کو تحریکِ طالبان سے نکال دیا ہے اسی طرح بھانت بھانت کی بولیاں دوسرے رہنماؤں اور اہلکاروں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں۔ یہ دلچسپ حقائق تحریکِ طالبان کے رہنماؤں کی ذہنی پسماندگی اور خودغرضی کے عکاس ہیں۔
انتشار اور بد اعتمادی کی یہ کیفیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نہ تو تحریکِ طالبان کوئی نظریاتی گروہ ہے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی کوئی بھلائی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ بھلا ایک ایسا گروہ جس کے رہنما اورا رکان ایک دوسرے کی شکل ہی دیکھنا نہ پسند کرتے ہوں وہ کیونکر اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ ہو سکتا ہے ۔قارئین کو یاد ہو گا کہ آپریشن ضربِ عضب سے قبل بھی تحریکِ طالبان کے ایک رہنما اعظم طارق نے ایک نئی دھڑے کے قیام کا اعلان کرتے وقت سنگین الزامات کی ایک طویل فہرست میڈیا میں پیش کی تھی تاکہ تحریکِ طالبان کا اصل روپ عوام کے سامنے مکمل طور پر کھل کر آ جائے۔
اعظم طارق کے مطابق ملّا فضل اللہ اوراس کے حامی مدارس کی انتظامیہ سے بھتہ لینے جیسے مکروہ کام میں ملوث ہیں۔ مدارس کو ملنے والے چندے سے زبردستی یہ اپنا حصہ لیتے ہیں جو غیر شرعی کاموں میں صرف کیا جاتا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کے تحریکِ طالبان اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو ہی اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اعظم طارق کی فراہم کردہ معلومات میں سب سے زیادہ چونکانےوالی بات تحریکِ طالبان کا منشیات کے کاروبار کی سرپرستی کرنا ہے قرآن و سنت نے نشہ آور اشیا سے ہر طرح کے تعلق اور واسطے کو حرام قرار دیا ہے مگر قرآن و سنت کے نظام کا مطالبہ کرنے والوں کی منافقت کو انھی کے ایک دیرینہ ساتھی نے عوام کے سامنے عیاں کر دیا ہے یقیناً یہ بڑا جرم اور گناہ ہے جس کے ارتکاب کی مذمت اسی گروہ کے ایک رہنما کی زبانی ہونا تحریکِ طالبان کے نظریات کی غیر اسلامی ہونے پر حرف آخرہے۔
جرائم، انتشار اور دہشتگردی کی متمنی تحریکِ طالبان بالآخر اپنے ہی بوجھ پر گرنے والی ہے۔ اس کے ارکان اور رہنماؤں کی آپسی نفرت اور دشمنی اس کے مجرمانہ مہم کے خاتمے کا باعث بنتی نظر آ رہی ہے پاکستان کی عوام اور بالخصوص قبائلی باشندے بھی اس کے اسلام کے نام میں ہونے والے پراپیگنڈے سے آگاہ ہے اور اس سے متنفر ہو گئے ہیں ہمیں امید ہے کے پاکستان کی عوام کو جلد تحریک ِطالبان کے شر سے نجات مل جائے گی۔