غیر ملکی دباؤ سے آزاد حقیقی جمہوریت۔ عوام کا مطالبہ
Posted date: October 08, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
ہمارا اپنے وطن پاکستان کی مجموعی قومی سلامتی کے حوالے سے یوں سوچنا یا یہ کہنا قرینِ انصاف نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں مسائل کے ’انبار ‘چاہے وہ جمہوریت کو لاحق بے معنی خطرات(بیرونی خطرات) سمیت‘ عوام کے تقریباً سبھی بنیادی حقوق کے حوالے سے ہوں سماجی وثقافتی اور نظریاتی خطرات درپیش ہوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اِن حقائق کو سمجھنے کی اوّل تو کوشش نہیں کرتا اور اگر کوشش کرتا بھی ہے تو ایسوں کی یہ کوشش سنجیدہ بالکل دکھائی نہیں دیتی یہ بات ہم قوم کے کروڑوں ا فراد کی نہیں کررہے قوم کے اُن خواص طبقوں کی کررہے ہیں جو جمہوریت کے نام پر ’عوامی ریوڑ ‘ کو قابو میں رکھنا چاہ رہے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے ملکِ خداداد پاکستان میں یہ جمہوری پریکٹس جاری ہے اسلام آباد کے ایوانوں میں متمکن ہونے والا ہر ایک مکیں اپنے ہاتھوں میں جمہوریت کی مالا لیئے نظر آیا ہے موجودہ جاری جمہوری سسٹم اگر یونہی رہا تو جمہوریت کبھی بھی مشعلِ راہ پر نہیں آپائے گی مطلب یہ کہ ’جیسا غیر محفوظ ٹریک ہوگا اُس پر ویسی ہی ڈگمگاتی ‘ ہچکولے کھاتی ‘ کبھی ادھر گرتی کبھی اُدھر لڑکھڑاتی جمہوریت کی گاڑی چلے گی جسے ’ڈی ریل ‘ کرنے میں کسی اور کا ہاتھ یا کسی کی کوئی غیر جمہوری سازش نہیں ملے گی ’جیسا Stuff ہوگا مال بھی ویسا ہی تیار ہوتا ہے ’سیاسی زعماء ‘ کی اصطلاح دنیا بھر میں جہاں جہاں کامیابی سے استعمال ہوئی یا پھر جن جمہوری ملکوں کے ’رہنماؤں ‘ کو نابغہ ِٗ روزگار سیاسی زعماء میں شمار کیا جاتا ہے، سیاسی وجمہوری تاریخ کے ابواب دیکھ لیجئے یہ سبھی منتخب نامور وممتاز شخصیات اپنے سیاسی وسماجی اور ثقافتی ومعاشرتی مسائل کے میدان میں علم وفضل کی بصیرتوں کی درک رکھنے والے مانے گئے علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح سمیت مولانا الطاف حسین حالی‘ مولانا ظفر علی خان ‘ سردار عبدالرّب نشتر جدید سیاسی عہد میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اور کن کن بڑے قدآور سیاست دانوں کا نام یہاں لیا جائے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں عظیم قومی خدمات انجام دیں اِن میں کوئی ایک بھی کاروباری یا تجارتی شعبہ کی شخصیت شامل نہیں رہی تحریکِ پاکستان کی ابتداء سے اِس کی تکمیل تک سیاست کی دنیا میں اچھائی اور نیک نامی کمانے کے علاوہ اِن میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے دامن پر اُس کے دور اقتدار میں کرپشن کا کوئی ایک داغ لگا ہو جمہوریت(حقیقی جمہوریت ) کی باتیں کرتے ہوئے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں سمیت پاکستان کا شمار بھی اِن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں جمہوریت کے اصولوں کی پاسداری کو ہمیشہ ’مقدس اور تقدیس ‘ جیسے لفظوں سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ’امریکی ‘ بیماری ایک لاعلاج وباء بن چکی ہے کل بھی سنتے تھے آج بھی ہم امریکی حکام کو یہ کہتے ہوئے سن رہے ہیں ’پاکستان میں جاری جمہوریت کا یہ سفر اِسی طرح سیدھی راہ پر گامزن رہنا چاہیئے چونکہ امریکی حکام یہ چاہتے ہیں پاکستان کی جمہوریت ڈی ریل نہ ہو اِس لئے اِسے کوئی ڈی ریل کرنے کی کوشش بھی نہ کرئے بس ایک بار قوم نے ووٹ دید یا ہے اب جیسی تیسی جمہوریت چل رہی ہے آنے والے پانچ برسوں تک اِ ن جمہوری حکام کو کسی کے سامنے جوابدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ملک بھر کا کاروبار چلا نے والے ‘ ملک بھر کا دنیا بھر کے ساتھ کاروبار چلا نے والے ‘ ملک بھر کے بڑے بڑے کارخانے کے مالکان اُن کے اعزاء و رشتہ دار‘ دوست احباب ‘ بڑی بڑی زرعی جاگیروں کے چودھری اور وڈیرے ‘ قبائلی سردار اور خوانین ‘ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جو جتنے بڑے مذہبی زعما ہیں جن کے ملک بھر میں فرقہ واریت پر مبنی دینی مدارس ہیں وہ خود یا اُن کے واسطے دار ’علماء‘ یہ سبھی مل جل کر باہمی جزوقتی سیاسی اشتراک بناکر ہر بار ملک کے جمہوری ا یوانوں میں جا پہنچتے ہیں تقریبا300 کے قریب تعداد قومی اسمبلی وسینٹ کے ارکان کی بنتی ہے سرسری جائزہ لے لیں، ہر بار یہ ہی لوگ کیوں اور کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں؟ امریکا اور مغرب کو پاکستان میں اگر جمہوریت پسند ہے تو اِسی قسم کی یکساں اور فرسودہ شکل وشبیہ کی جمہوریت کیوں پسند ہے؟’امریکی ومغربی مائنڈسٹ‘ آخر کیوں گزشتہ برسہابرس سے ہماری جمہوری طرزِ حکومت پر حاوی ہونے میں راستے اور رابطے بنا نے کامیاب کیسے ہوجاتا ہے دیکھ لیجئے 2014 دسمبر میں افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکا کی پہلی خواہش یہی ہے کہ کابل میں وہ بھارتی بالادستی کویقینی بنا کر وہاں کوئی ایسی پاکستان مخالف لابی کے قدم مضبوطی سے گاڑدے جو وقتاً فوقتاً پاکستان کی مغربی سرحدوں پر مسلسل مصروفِ عمل رکھے رواں برس جون کے درمیانی عرصہ میں شروع کیئے جانے والے ’آپریشن ضربِ عضب‘ پر واشنگٹن کے’ مضطربانہ تحفظات ‘ چھپائے چھپ نہ سکے پاکستانی افواج کے ذمہ دار کورکمانڈروں نے اپنے سربراہ جنرل راحیل کی دلیرانہ فیصلے پر جس بے خوبی و بیباکی کے ساتھ لبیک کہا فوج کے جواں ہمت افسروں اور جوانوں نے اپنی کمانڈ کے حکم کی تعمیل کی‘ اپنے ملک کی مغربی سرحدوں کے انتہائی دشوار گزار علاقہ شمالی وزیرستان میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے سفاکانہ عزائم کو نیست وبابود کردیا جو امریکی ‘ نیٹو اور بھارت نواز افغانی حکام کی شہ پر مشرقی ترکستان اور ازبکستانی نام نہاد اسلامی تحریک کے مسلح سرکشوں کو ہتھیار فراہم کرکے اُنہیں فاٹا اور شمالی وزیر ستان میں اب تک بھیج رہا ہے پاکستانی قوم کی واضح نمایاں اکثریت نے اپنی افواج کے فیصلے آپریشن’ ضربِ عضب ‘کی تائید کرکے ملکی سلامتی کو ہر قیمت پر قائم ودائم رکھنے کی حمایت کردی یہی وہ موقع ہے جہاں امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا پاکستان حقیقت میں اب 2010 والا پاکستان نہیں رہا، پاکستان میں سیاسی وسماجی اور ثقافتی ومعاشی رجحانات اب واضح اور نمایاں طور پر تبدیل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ملک کی نئی نسل میں بڑی تیزی سے اجاگر ہونے والی نئی ذہنی روش اور تبدیلی کو امریکا خود بھی سمجھ لے اور پاکستان کے ساتھ رشتے ناطے رکھنے والے مغربی ممالک کو یہ دکھائی دینے والی تبدیلیاں سمجھنی ہونگی پاکستانی عوام اب اتنے بھولے اور سادہ نہیں رہے مستقبل قریب میں دنیا دیکھ لے گی پاکستانی عوام اپنے ذہنوں اور ضمیروں پر پڑے ہوئے نوآبادیاتی جمہوریت کے فرسودہ اور کہنہ بوجھ کو تار پھنکیں گے ایسے میں پھر صرف جمہوری آزادی کی بات ہوگی مختلف النوع قسم کی این جی اُوز کو کروڑوں روپے کی امریکی مالی اعانت کے نام پر کہیں صحافتی حلقوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہیں، خصوصاً پاکستانی قبائلی علاقوں میں صنفی امتیاز برتنے کے خود ساختہ قصے ‘ غیر متنازعہ توہینِ رسالت کے ایک متفقہ قانون کو ’متنازعہ ‘ بنانے کی بہیمانہ سازشوں کے جال بننے میں مغربی اور امریکی نواز میڈیا اپنی سی جتنی بھی غیر اخلاقی اور نامعقولیت پر مبنی مبہم پروپیگنڈا کرلے پاکستانی قوم کے روبہ ِٗ عمل ترقی کے عزائم کی راہ میں اب کوئی ’’روڑا ‘‘ چاہے اپنے آپ میں وہ کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو وہ اب بالکل رکاوٹ نہیں ڈال سکتاپاکستانی قوم پر ستی کے حوالے سے ملک بھر کے گلی کوچوں میں ‘ عام شاہراہوں پر ملکی اقتدار کے ایوانوں میں یہ ایک ایسا سچ ہے جس کے بارے میں کوئی دورائے نہیں ہے۔