Posted date: November 08, 2014In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
ہماری موجودہ اور گزر ی ہوئی حکومتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے سوائے پارٹی نام کی تبدیلی کے، انداز حکمرانی ایک ہی جیسا ہے، یہ ترقیاتی یا فلاحی پروگراموں کے نام بدلتے ہیں ان کے چیئرمین بدلتے ہیں نیت اور پرو گرام وہی رہتے ہیں ۔ اِن میں زیادہ مالی فائدہ چلانے والوں کا ہی رہتا ہے، نوازا اپنے ہی لوگوں کو جاتا ہے اور ٹر خایا بھی عوام کو ہی جاتا ہے۔ ترقیاتی سکیموں کو صرف اور صرف روز گار کی فراہمی تک ہی رکھا جاتا ہے ایسا روز گار جس سے صرف پیٹ بھر سکے ، اور اگر پیٹ بھرے تو علاج ممکن نہ رہے اور تن کا کپڑا آئے تو پیٹ بھوکا رہ جائے ۔ بلاشبہ روز گار کی فراہمی ضروری ہے لیکن ا س کی آمدنی کواتنا محدود نہ کیا جائے کہ دن بھر رکشہ ٹیکسی چلا کر بس اتنا کمایا جائے کہ پیٹ بھرا جائے اور اگربیماری آجائے تو اُس کا علاج کرنے کیلئے چار پیسے نہ بچیں اور نہ ہی ان سکیموں سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، تو کیا بہتر نہ ہو کہ کار خانے لگائے جائیں صنعتیں قائم کی جائیں اور وہاں روز گار فراہم کیا جائے تاکہ روز گار کے ساتھ ساتھ ملک بھی ترقی کرے لیکن افسوس کہ ہماری حکومتیں صرف جزوقتی اقدامات کرکے عوام کو بیوقوف بنالیتی ہیں ۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا دیئے گئے اور اس بات کی نہ فکر کی گئی اور نہ مداوا کہ یہ لیپ ٹاپ کیسے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوں گے ۔یہ تو چند ایک انتہائی مشتہر کردہ سکیمیں ہیں ورنہ اور بھی کوئی ایسا پروگرام نظر نہیں آتا جو واقعی فرد اور ملک کی ترقی کا باعث بن سکے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے خاندانوں کو ہزار روپے ماہوار دیئے گئے جبکہ ہر ایک یہ جانتا ہے کہ ہزار روپے میں صرف چائے اور دودھ کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ ان لوگوں کو ملوں اورکارخانوں کی صورت میں روز گار فراہم کیا جاتا ۔ ہماری موجودہ حکومت نے عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے بعد اس سے کم کمی کی جسے حکومت پاکستان نے اپنا کارنامہ بنا کر پیش کیا اور اس کے ثمرات کی ایک لمبی فہرست بھی شائع کی اور عوام کو چند ایسی خوشخبریاں سنائیں جس کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق اول تو بنتا ہی نہیں اور اگر بنایا بھی گیا ہے تو دوسری طرف انہیں پیسا بھی گیا ہے۔ میں ماہر معاشیات نہیں ہوں کہ اعداد، میزانیوں اور جدولوں میں قاری کو الجھا سکوں لیکن اِن اقدامات کا جو اثر ایک عام آدمی پر پڑتا ہے اُس کا اندازہ جتنا میرے جیسا ایک عام شہری لگا سکتا ہے اتنا ماہر معاشیات نہیں مثلاََ گندم کی امدادی قیمت سو روپے بڑھا کر کسان کو خوش ہونے کا مشورہ دیا گیا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صنعت کارحکمران یہ اندازہ کیوں نہیں لگا رہے کہ ایک عام کسان اگر انتہائی محنت کرکے اپنی زمین سے پچاس من یا چلیے سو من گندم کی پیداوار لے لے تو اُس کی چھ ماہ کی آمدنی میں پانچ سے دس ہزار کا اضافہ ہوگا جو ہمارے حکمرانوں کی ایک ٹائی کی قیمت بھی نہیں ہے جبکہ دوسری طرف گندم خرید کر کھانے والے کروڑوں عوام کے ماہانہ آٹے کے خرچے میں مستقل اضافہ ہوگا تو کیا کسان کی بہبود کے لیے بہترنہیں تھاکہ کھاد کی قیمت کم کی جاتی ۔ پیٹرول کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی میں کمی کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے کیونکہ کرایوں میں کمی ہو جائے گی جبکہ چائے، چینی، تیل، گھی ،صابن یعنی استعمال کی کسی چیز پر نہ تو سیلز ٹیکس کم کیا گیا ہے نہ اُن کی قیمتوں میں حکومتی سطح پر کسی کمی کا اعلان کیا گیا ہے ۔بجلی کے نرخ بڑھانے سے قیمت بڑھنے کا اس داستاں میں ذکر کیا ہی نہیں گیا۔
یہاں میں نے چند اقدامات کا ذکر کیا ہے جنہیں حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے ورنہ ہر دور میں عوام کے ساتھ کوئی نہ کوئی مذاق چلتا ہی رہتا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کھیل میں شامل رہتی ہیں جو ایک یا دوسری طرح حکومت کا ساتھ دیتی رہتی ہیں ۔ قانون سازی اور آئینی ترامیم کے نام پر اسمبلی اجلاسوں پر لاکھوں کروڑوں اُڑا دیئے جاتے ہیں اور عوام کی سمجھ سے بالا تر اصطلاحات بول بول کر اُنہیں متاثر کیا جاتا ہے لیکن اس عام آدمی کی عام زندگی کیسے گزرتی ہے اس کی خبرنہیں لی جاتی ہاں جب میڈیا پر کسی مجبور کی مجبوری ، بیماری اور بیچارگی کی خبر آجاتی ہے تو ہمارے بڑے ہوش میں آتے ہیں اور نام کمانے کا موقع پاکر فوراََ آگے آتے ہیں اور عوام سے اپنی عوام دوستی کی داد پا لیتے ہیں ۔ بات تو تب ہے کہ دریا کے کنارے کتے کے بھوکے پیاسے مرنے کے لیے حکمران خود کو خدا کے حضور جوابدہ سمجھیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ صدر،وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہر روز گلی گلی گھومے لیکن وہ اپنے کارندوں اور عمال حکومت کو آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم دیں اور خود بھی جاگتے رہیں کبھی کبھی سہی باہر نکلیں اور خود دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے ورنہ سب اچھا کی رپورٹ دینے والے اپنی نوکری پکی کرتے رہیں گے اور بدنامی اور بد انتظامی حکومت کے نام لگتی رہے گی اور بجا لگتی رہے گی کیونکہ اصل کوتاہی ادھر ہی سے ہے ۔کرپشن کرنے والے کو اپنے بالائی حکام کا کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ادھر سے کوئی بے گناہ نہیں جو پتھر مار سکے۔ وہ حکومت جس کا کام عوام کی خدمت ہے صرف نام و نمود کا اشتہار دینے میں مصروف ہے جبکہ اشتہار دینے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حکومت کو اپنے وسائل اس طرح استعمال کرنے چاہیے کہ اس کے ثمرات عام آدمی کے گھر تک پہنچ جائیں اور اس کا معیار زندگی بہتر ہو ، تعلیم اچھی دی جائے گی اور طالب علم میں اس کا عکس نظر آئے گا، علاج اچھا ہوگا اور مریض جلد شفایاب ہوگا، آٹا سستا ہوگا اور غریب کا پیٹ بھرے گا، تو اشتہارات دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور اس کے بغیر ہی عوام آپ کے ساتھ ہوں گے اور ان کی دعائیں آپ کو مطمئن اور پر سکون رکھیں گی بغیر کسی مصنوعی سہارے کے