امریکی محکمہ دفاع کی لغو ‘ جھوٹی اور بے سروپا رپورٹ ؟؟؟
Posted date: January 04, 2015In: Articles|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
باشعور انسان تعصب کی آلودگی کی کثافتوں سے پاک’ نظریات‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد دانشمند بن جاتا ہے، شر ط یہ کہ نظریاتی مطالعہ کرنے والے کا اندرونی شعور بیدار ہو تبھی اُس کے فہم وادراک میں گہری بصارت و روشن بصیرت پیدا ہوگی اُس کے سوچنے سمجھنے کو جِلا ملے گی قوتِ ارادی ایسی بے پایاں دولت ہوتی ہے جو دانشمند انسانوں کو ٹھوس اور پائیدار بنانے میں بہت ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے، زندگی کے ہر شعبہ ِٗ حیات میں ایسے منتخب افراد کبھی کسی سے مات نہیں کھاتے خود کو ایسے لوگ کسی بھی اہم معاملے کی تہہ تک پہنچانے کا جب پختہ ارارہ کرلیں تو اُن کے فیصلے کن اقدام کی مخالفت کرنے میں اُن کا مخالف بہت سوچ سمجھ کر اپنا قدم اُٹھائے گا جب عام اور باشعور دانشور لوگ اِس مر حلے پر صاف ستھرے اور مہذبانہ طور طریقے اپنا کر فیصلے کرتے ہیں تو ایسے سماج میں بدگمانیاں بڑھتی ہیں نہ متعصبانہ فکر پروان چڑھتی ہے نہ جھگڑے ہوتے ہیں نہ جھوٹے من گھڑت الزامات عائد کرکے سماجی ومعاشرتی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کسی میں جراّت یا جسارت کرنے کی نوبت آ تی ہے امن کا حقیقی معاشرہ اِن ہی بنیادی اصولوں پر قائم ہوتا ہے متمدن و مہذب معاشروں کی تاریخ کا مطالعہ کرلیجئے ،باہم متصادم قوموں کے ذمہ دار افراد نے موقع پاتے ہی سنگین متضاد حالتوں میں ایسے ایسے تاریخی کردار ادا کیئے کہ چند دنوں کے اندر ایک دوسرے کی جانوں کے دشمنوں نے اپنے ہتھیار پھینک دئیے، جنگ سے سب فریقوں نے ہاتھ اُٹھالیئے زمینی حقائق کی روشن دلائل کو تسلیم کیا گیا کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ایسی ہستیاں تاریخ میں محترم مقام کی لائق قرار پائیں اپنی غلطیوں کو جن نے برملا تسلیم کیا حدود سے تجاوز کرنے پر اُنہیں یہ احساس ہوا اُن سے یقیناًکہیں نہ کہیں کوئی غلطی ضرور سر زد ہوئی ہے، 9/11 کو گزرے ہوئے دس برس سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مجال ہے اب تک امریکا اور اُس کے عالمی اتحادیوں نے تسلیم کیا ہو کہ افغانستان پر اندھادھند لشکر کشی کرکے اُنہوں نے ہزاروں افغانیوں کو جہاں دارِ فانی میں جھونکا وہاں کئی ہزار امریکی میرینز بھی موت کی وادی میں جاگرے ہیں نہ جانے امریکی اور مغربی اقوام کس مٹی سے بنے ہیں جنہیں نہ دوسر ی بے گناہ قوم کے افراد کے بے دریغ قتل وغارت گری پر کوئی شرمندگی ہے نہ خود امریکی قوم سوچتی ہے کہ اُن کے اپنے پیارے اپنے وطن سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلوں پر اِتنی دور کیوں مارے گئے اُن کی بے قیمت موت سے امریکا کو یا دیگر مغربی ممالک کو فائدہ کیا حاصل ہوا؟ 9/11 کے بعد 2014 بھی گزر گیا آج سے دس برس پہلے جہاں اور جیسی حالت افغانستان کی تھی آج بھی وہ حالت ویسی کی ویسی ہے کوئی تبدیلی کسی کو اگر نظرآرہی ہے تو نجانے وہ کیا تبدیلی ہے مگر افغانستان سے جڑے ہوئے ملکِ پاکستان کو ’امریکا افغان جنگ‘ سے اتنا زیادہ اور اتنا بڑا نقصان اُٹھانا پڑا، جتنا نقصان پاکستان نے افغانستان میں روسی فو جی لشکرکشی کے دوران نہیں اٹھایا تھا جبکہ اُس زمانے میں پاکستان نے افغان مہاجرین کی کھلی حمایت کی‘ اُن کی مہمان نوازی میں پوری قوم نے اسلامی جذبہ ِٗ ایثار کا ثبوت دیا‘ اپنے دیدہ ودل افغان مسلمان بھائیوں کے لئے پاکستانیوں نے فرشِ راہ کردئیے تھے9/11 کے واقعہ کے بعد امریکا نے وحشت ودہشت کی ایسی بدترین تاریخ رقم کی، جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی قوم اپنی مغربی سرحدوں پر بھگت رہی ہے نجانے کہاں کہاں کے مفرور اور خطرناک جرائم میں ملوث انسانیت کے دشمن دہشت گرد افغانستان کے صوبے کنٹر ‘ خوست اور نورستان میں ریاستی سرپرستی میں چھپے ہوئے ہیں جی ہاں یہ بالکل صحیح ہے وقت کی لگامیں کسی ہاتھ میں کبھی نہیں رہتیں وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے وقت گزر گیا 2014 آگیا امریکا نے دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ 2014 دسمبر تک امریکی اور نیٹوافواج افغانستان کی سرزمین چھوڑ دیں گی مگر سنا جارہا ہے پوری امریکی فوج افغانستان سے نہیں جائے گی بلکہ 10 ہزار سے زائد امریکی فوج کے دستے افغانستان کے ’استحکام ‘ تک وہاں رہیں گے’’ کیوں ؟‘‘ اِس ’کیوں‘ کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ممکن ہے، کل کلاں کو دنیا کی کوئی بڑی طاقت امریکا سے پوچھ لے ’حضور! اب جب کہ افغانستان میں دوتین بار الیکشن منعقد ہوچکے ہیں امریکی فوج وہاں کیوں بیٹھی ہے ؟‘ غالباً اِسی ممکنہ ’دھڑکے‘ کے زیر اثر امریکی محکمہ ِٗ دفاع پینٹاگان کو گزشتہ دنوں امریکی کانگریس کو ایک ’ڈیسک رپورٹ‘ بھیجنا پڑی جس میں سی آئی اے کے حکام نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا دیا ہے کہ افغانستان کو مسلسل دہشت گردی کی حالت میں مبتلا کیئے رکھنے کی غرض سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی ’پناہ گاہیں ‘ موجود ہیں ‘ امریکی محکمہ دفاع کے کے اِس جھوٹے پلندے میں رتی برابر سچائی ڈھونڈنے سے بھی کسی کو نہیں ملے گی یہ سطریں جب آپ کی نگاہوں کے سامنے ہونگی پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنا امریکا کا دورہ مکمل کرکے واپس وطن آچکے ہونگے، عالمی اور ملکی میڈیا کے توسط سے پاکستانی عوام تک جو خبریں اب تک پہنچی ہیں، اُن کے مطابق پاکستانی آرمی چیف نے امریکی اعلیٰ سطحی حکام کے ساتھ وفود کی شکل میں اور بعض امریکی حساس اداروں کے حکام کے ساتھ انفرادی طور پر کھل کر اُنہیں عین واضح ثبوت کے ساتھ باور کرادیا ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان کے لئے کتنا اہم اور ضروری ہے، افغانستان کے اندر حساس علاقوں سے جب تک بھارتی خفیہ ایجنٹس جن میں ’را‘ کے ساتھ بھارتی ’آئی بی ‘ بھی شامل ہے وہاں پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی پاکستان کی سلامتی کے لئے ہی نہیں خود افغانستان کی اندرونی سلامتی کے لئے بھی خطرہ بنی رہے گی امریکا نے جہاں تک یہ واضح کیا ہے افغانستان میں دسمبر2014 کے بعد 10ہزار امریکی میرینز کے دستے رہیں گے، چاہے امریکی فوج دستے وہاں رہیں یا افغان نیشنل آرمی کے دستے ہوں پاکستان سے ملحق مشرقی سرحدی علاقوں کی کڑی اور سخت ناکہ بندی پر اب پاکستان کسی طاقت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرئے گا اور جہاں تک پینٹاگان کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے لغو اور جھوٹے الزام کا تعلق ہے تو پاکستانی قوم امریکی الزام پر حیرت ‘ تعجب اور افسوس کے اور کربھی کیا سکتی ہے؟ پینٹگان کو پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بے سروپا الزام عائد کرنے سے پہلے اِتنا انتظار تو کرلینا چاہیئے تھا؟ ابھی پاکستانی آرمی چیف امریکا میں موجود تھے جنہوں نے اہم حساس امریکی عہدیدار پر واشگاف الفاظ میں پاکستان کا یہ موقف واضح کرنے میں کسی قسم کی ’مفاہمانہ ہچکچاہٹ‘ نہیں دکھلائی‘ صاف اور دوٹوک لب ولہجہ میں اپنا پیشہ ورانہ جراّت کا ا ظہار کردیا اور امریکیوں پر واضح کردیا کہ پاکستانی فوج کے نزدیک دہشت گردوں کی تعریف کی اب کوئی گنجائش نہیں‘ جو دہشت گرد گروپ بھی پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار اُٹھائے گا پاکستانی فوج اُسے نہیں بخشے گی یہاں یہ بھی واضح ہوجانا چاہیئے کہ افغانستان کے اندر پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دینے والے بھارتی و اسرائیلی سفارت خانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا اِنہیں مزید محتاط رہنا ہوگا اِس کے ساتھ امیّد ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی یقیناً’نئے پُرامن افغانستان ‘ کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے اپنے ان وعدوں پر کاربند رہیں گے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اپنی خصوصی ملاقات میں اُنہوں نے یہ وعدے کیئے ہیں سفاک وظالم دہشت گرد لیڈر ملا فضل اللہ سمیت اُ ن کے مفرور دہشت گرد گروپس کے افراد کو پاکستان کے حوالے کرنے میں افغان صدر مسٹر اشرف غنی کو اپنا سربراہی کردار ضرور نبھا نا چاہیئے ۔