پاکستانی قوم اصل دشمن کو پہچانے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پشاور کے ایک اسکول میں معصوم بچوں کے ساتھ دہشت گردوں نے ظلم و بربریت کی جو داستان لکھی ہے، اس کی مثال ہلاکو اور چنگیز خان کے ہاں بھی نہیں ملتی ۔پوری قوم اس سانحے پر سوگوار ہے اور ہر آنکھ روہی ہے، سوائے دہشت گردوں کے ان ہمدردوں کے جو ابھی بھی ان کی حمایت پر کمربستہ ہیں ۔ ہمارے گلی کوچوں میں موجود بظاہر پرامن نظر آنے والے یہ چھپے ہوئے دہشت گرد ان طالبان کی اصل طاقت ہیں۔انھی کی حمایت اور بل بوتے پر یہ دہشت گرد پندرہ برسوں میں مختلف اندازوں کے مطابق پچاس ہزار سے ایک لاکھ بے گناہ اور معصوم پاکستانی بچوں، عورتوں اور مردوں کو بے رحمی سے مارچکے ہیں۔ یہی لوگ وزیرستان آپریشن کو روکتے رہے اور آج بھی جب دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا تو یہ ان کی حمایت پر نکل آئے۔طالبان اگر سانپ کا پھن ہیں تو اس کا دھڑ ان کے یہ حمایتی ہیں جو ہمارے ساتھ فیس بک پر یا کھلے عام ٹی وی پر اس وقت بھی ان کی حمایت کررہے ہیں یا مگر مچھ کے آنسوں بہاکر ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں۔ جب تک ہم اس سانپ کو نہیں پہچانیں گے یہ ہمارے بچوں کو اسی طرح ڈستا رہے گا۔ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور ہمارے درمیان انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ففتھ کالم (دشمن کا خفیہ گروپ )موجود ہے۔ آئیے اس ففتھ کالم کا تعارف حاصل کریں۔
۱) دیو بندی مدارس
طالبان دیوبندی مدارس کی پیداوار ہیں۔ان طالبان نے پچھلے دس برسوں میں پچاس ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کو خود کش حملوں اور دھماکوں میں شہید کیا ہے۔ دیوبندی دینی مدارس اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر ان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ۔گرچہ بظاہر عوام میں ان کے حق میں کھل کر نہیں بولتے لیکن اندورون خانہ یہ ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ یہ دیوبند ی مولوی ہر مسجد میں موجود ہیں جہاں جہاد کے نام پر یہ دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ہر جمعہ کو ملک بھر میں لاکھوں لوگوں سے خطاب کرتے ہیں۔ مگر آپ نے دس برسوں میں کبھی ان مولویو ں کی زبان سے طالبان کے خلاف بات نہیں سنی ہوگی۔
یہ دیوبندی خاموشی سے طالبان کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ان کا ایک گروہ کھل کر دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ حکومت وقت نامعلوم وجوہات کی بنا پر دہشت گردوں کے ایسے حمایتیوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ تاہم بعض خدا خوفی رکھنے والے دیوبندی عالم کھل کر اس دہشت گردی کے خلاف ہیں اور دل سے اس کو درست نہیں سمجھتے۔ مگر ایسے علماء خود انتہا پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ وہ یاتو قتل کردیے جاتے ہیں یا پھر ان کے خلاف زبردست مہمیں چلاکر ان کو بدنام کیا جاتا ہے۔
۲) انقلابی جماعتیں
پاکستان میں ڈنڈے اور بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے کے لیے تنظیم اسلام اور حزب التحریر جیسی جماعتیں کام کررہی ہیں۔ یہ اسلام اور قرآ ن کے نام پر لوگوں کو اپنے قریب لاتی ہیں لیکن ان کا علانیہ ایجنڈا یہ ہے کہ یہ زبردستی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کا اسلام لوگوں پر ٹھونس دیں گے۔پاکستان میں تو یہ ممکن نہ ہوسکا لیکن طالبان اور القاعدہ کی شکل میں انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آنے لگی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ لوگ علانیہ ان کے لیے چندے جمع کرتے اور ان کی مالی مدد کرنے کے علاوہ ان کی بھرپور عملی حمایت کرتے رہے۔ حزب التحریرپر حکومت پاکستان نے پابندی لگاد ی لیکن تنظیم اسلامی اپنے ایجنڈے پر آج کے دن تک آزادانہ کام کررہی ہے ۔ حالانکہ عرب ممالک نے تنظیم اسلامی پر پابندی لگاکر اپنے معاشرے کو انتہا پسندی سے بچالیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس تنظیم کو پاکستان میں کھل کر کام کرنے، رسالے نکالنے، اجتماعات کرنے کی آزادی ہے۔
۳) مذہبی سیاسی جماعتیں
ان جماعتوں میں جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام وغیرہ شامل ہیں۔جماعت اسلامی طالبان کی بھرپور حامی ہے۔ یہ عام طور پر سیاسی مصلحتوں کی بنا پر دہشت گردی کی مذمت بھی کرتی ہے، مگر اس کااصل چہرہ اس کے امیر منور حسن نے اس وقت کھولا تھا جب انھوں نے کھل کے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی موت پر اسے شہید قرار دیا اور پاکستان فوجیوں کو شہید ماننے سے انکار کردیا۔ معاشرے کی دباؤ کی بنا پر منور حسن کو امارت سے ہٹادیا گیا مگر آج بھی سراج الحسن نے پشاور کے معصوم بچوں کے سانحے پر جس طرح کا بیان دیا ہے وہ ان کی طالبان سے دلی ہمدردری کا ثبوت ہے۔ یعنی اظہار افسوس، مرنے والوں سے ہمدردی اور طالبان کی مذمت میں ایک لفظ نہیں۔ جبکہ شہر کراچی میں ان کا کوئی کارکن مرجائے تو کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ وہاں مرنے والوں سے ہمدردی کا سیاسی بیان دے کر خاموش نہیں ہوتے۔ یہی ان کی منافقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
۴) صحافی اور سماجی ویب سایٹ
بدقسمتی سے پاکستان کے کچھ صحافی اور عوام الناس میں سے کچھ لوگ بھی ان دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔ اس کی ایک مثال ایک ہفتے قبل اوریا جان مقبول صاحب کا وہ کالم ہے جو انھوں نے داعش کی حمایت میں لکھا ۔ داعش وہ جماعت ہے جو القاعدہ سے بھی زیادہ انتہا پسند ہے۔ مگر ان صاحب نے ایک قومی روزنامے میں اس کی بھرپور حمایت کی ۔ اس سے قبل وہ طالبان کی بھی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہی معاملہ فیس بک وغیرہ پر موجود بعض لوگوں کا ہے جو کسی جماعت کا حصہ نہیں مگر ہر طرح سے دہشت گردوں کا دفاع کرتے ہیں۔
طریقہ کار
اس ففتھ کالم کا طریقہ کار درج ذیل ہے۔
۱) دہشت گردوں کی عملی حمایت اور مدد۔ ان کو تحفظ اور پناہ گاہ فراہم کرنا۔ ان کو مالی وسائل فراہم کرنا۔ مختلف ٹارگٹس کی نشاندہی کرنا۔ ان کی ریکی کرنا اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنا۔
۲) جو معتدل دیوبندی یا دیگر فرقوں کے علماء صحیح بات کرتے ہیں، یہ ان کے خلاف اپنے اخبارات، رسائل اور انٹر نیٹ پر بھرپور مہم چلاکر ان کو معاشرے میں بدنام کرتا ہے۔ اس سے پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے علماء دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ بالفرض یہ نہ بھی ہو تب بھی عام لوگ ان صالح اور نیک علماء کو متنازعہ سمجھ کر ان سے دور رہتے ہیں۔ یوں یہ معاشرے پر اپنے مذہبی حکمرانی قائم رکھتے ہیں۔
۳) ان کا تیسرا کام دہشت گردوں کو سماجی اور سیاسی سطح پر بھرپور تحفظ دینا ہے۔ چنانچہ یہی لوگ یہ دباؤڈالتے تھے کہ وزیرستان میں آپریشن نہیں کیا جائے۔یہ قوم کو دہشت گردوں کے جوابی حملوں سے ڈراتے رہتے ہیں ۔ ان کا اصل مقصد طالبان کا تحفظ ہے تاکہ وہ ایک دن پورے پاکستان پر قبضہ کرلیں۔
۴) ان کا چوتھا کام اسلام کی تعلیم کی بالکل غلط ترجمانی ہے ۔ چنانچہ یہ خود کش حملوں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔جہاد کے مقدس نام پر دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔جمہوریت کی مذمت کرکے آمریت کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے پرامن لوگ کبھی جمہور ی راستے سے ان کو منتخب نہیں کریں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کو توڑ مروڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
محترم قارئین چند ہزار لوگوں پر مشتمل یہ وہ ففتھ کالم ہے جس نے کئی برسوں سے پاکستانی معاشرے کو یرغمال بنارکھا ہے۔یہ مٹھی بھر دہشت گرد طالبان کی اصل طاقت ہیں۔مگر ہم بیس کروڑ لوگ ہیں۔یہ ہم سے نہیں جیت سکتے۔ ہمارا کام ہے کہ ان کو بے نقاب کریں۔ دہشت گردوں کے ساتھ ان کی حمایت کرنے والوں، تاویل کرکے ان کی مدد کرنے والوں اور مذمت نہ کرنے والوں کو بھی دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیں۔اگر آپ اس ففتھ کالم کے خلاف نہیں اٹھیں گے تو ایک روز یہ آپ سب کے بچوں کو ایسے ہی ماردے گا جیسے آج پشاور میں مارا ہے۔اٹھیے یہ جہاد کا وقت ہے۔ اس ای میل کو ہر شخص تک پہنچائیں تاکہ ساری قوم اپنے مشترکہ دشمن کو پہچان سکے۔