“For Kind Attention of U.S. President”

بعنوان۔(ثمرآور)
Obama visit           “For Kind Attention of U.S. President”                     سیّد ناصررضا کاظمی

امریکا اور بھارت کے مابین اعلیٰ ترین ’وی وی آئی پی‘ سطح کے تعلقات پر پاکستان کو رتی برابر بھی کوئی رشک ہے نہ تردد، یہ بھارتی اور امریکی باہمی تعلقات کا معاملہ ہے   پاکستان ایک آزاد وخود مختار اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے پاکستان کی چونکہ طویل مشرقی سرحدیں جو سندھ اور پنجاب کے میدانی اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں بھارت کے ساتھ ملحق ہیں عالمی وعلاقائی امور کے کسی بھی ماہر تجزیہ کار کو یہ لکھتے ہوئے یا ایسا سوچتے ہوئے یقینا بڑا تعجب ہوتا ہوگا کہ وہ کون سی ایسی وجوہ تھیں کہ پاکستان اور بھارت67-68 برس گزرنے کے باوجود آج تک با اعتماد دوست پڑوسی ملکوں کی طرح قابل  تقلید تاریخ رقم کیوں نہیں کر پائے؟قیام  پاکستان کے فوراً بعد بھارت کی مرکزی حکومت نے سری نگر پر فوج کشی کرکے تقسیم ہند کے ’لندن پلان‘کی دھجیاں اڑادی تھیں، مقبوضہ کشمیر کے حساس معاملے پر 1948 سے اب تک پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں ہوچکی ہیں‘ بھارت نے مسئلہ  کشمیر کے سنگین انسانی معاملہ کو خود ہی اقوام  متحدہ میں اٹھایا جبکہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ سلامتی کونسل کی منظور کردہ حق  استصواب  رائے دہی کی دو قرار دادوں کو آج تک من وعن تسلیم بھی نہیں کررہا ہے اِس کے علاوہ سرکریک‘ سیاچن اور دریائی پانی کو روکنے جیسے انسانی مسائل پر وہ اپنا سیاسی وسفارتی پریشر پاکستان پر بڑھانے کی اپنی غیر اخلاقی سفارتی پالیسیوں پر کاربند ہے دوسری جانب عالمی طاقتوں نے بھی بھارت کو ’عظیم جمہوریہ‘ ماننے کی آڑ میں پاکستان کے ساتھ اپنا معاندانہ و مخاصمانہ فکرو نظر اپنا کر ایک ’مخصوص رویہ‘اپنایا ہو ا ہے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات کی دوستی‘ اسلحے کی لین دین میں بے پناہ جھکاؤ‘پاکستان سے بھی لگاؤ اور دوستی کی پینگیں‘الغرض عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات اپنی جگہ‘ہمیں بحیثیت ِ پاکستانی یہ دیکھنا ہے پاکستان کا مفاد کیا ہے؟ پاکستان کے قومی مفادات کے حصول کے لئے پاکستان کبھی بھی کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی بدل نہیں کر سکتا یہ صحیح کہ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے جس کی نظریں ہمہ وقت ہمارے قومی وجود کے لئے زہر ِ قاتل بنی رہتی ہیں، کوئی دن نہیں جاتا جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر در اندازی کے جھوٹے‘ لغو‘ من گھڑت اور بے سروپا الزامات عائد نہ کیئے جاتے ہوں یکطرفہ الزامات کا یہ متعصبانہ سلسلہ گزشتہ نصف دہائیوں سے بھی زائد عرصہ بیت گیا آج تک جاری ہے، پاکستان کے ساتھ اپنے اِن سنگین مسائل پر دوطرفہ بامقصد بات چیت کی میز پر بھی بھارت آنا ہی نہیں چاہتا ایسے میں پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ بھارت اور امریکا کے درمیان تعلقات پر یا کسی اور حساس معاملے پر کوئی گفتگو کرئے امریکا جانے اور بھارت‘مگر جیسا اُوپر بیان کیا گیا ہے بھارت سرکار کے ’کارندے‘ اسٹیبلشمنٹ والے اپنی ہر نئی صبح کا آغازپاکستان کی سلامتی کو کس بھی قیمت پر داغدار بنانے کے اپنے مذموم و ناپاک ارادوں مکروہ عزائم کے منصوبوں کو بروئے  کار لانے سے شروع کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں مارچ 2000 میں امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن نے بھارت کا دور کیا بھارت کی سرزمین پر قدم رکھے ابھی اُنہیں کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں انت ناگ کے واقع گاؤں ’چٹی سنگھ پورہ‘میں 35 کے سکھوں کے اجتماعی قتل ِ عام کی خبر مسٹر کلنٹن سمیت دنیا کو چو نکا گئی، عالمی میڈیا امریکی صدر کو کوریج دے رہا تھا ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر سے 35 سکھوں کے قتل ِ عام کی خبر نے تہلکہ مچادیا نئی دہلی نے سوچے سمجھے‘ پلانٹیڈ منصوبے کے مطابق 35 سکھوں کے قتل ِ عام کا الزام اوّلاً پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی پر لگادیا اور یہ کہا گیا قتل ِ عام کی یہ مذموم کارروائی پاکستان کی ایما ء پر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں نے امریکی صدر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی نیت سے کی ہے؟ نئی دہلی اسٹیبلیشمنٹ کے اِس جھوٹے‘ لغو اور بے بنیاد ہونے کا حقیقی ثبوت کسی عام پاکستان نواز صحافی نے نہیں , بلکہ جھوٹ کے اِس ڈھول کا پول اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے‘ جو اُس وقت امریکی صدر کے ہمراہ تھیں اُنہوں نے اپنی معرکتہ آرا کتاب “The Mighty and the Almighty: Reflections on America, God, and World Affairs” میں کیا جواُن کی یادداشتوں پر مبنی ہے اپنی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’صدر بل کلنٹن کے نئی دہلی پہنچتے ہی چٹی سنگھ پورہ میں کیسے اور کن مقاصد کے تحت سکھوں کا اتنی بڑی تعداد میں قتل عام ہو ا جس پر صدر رامریکا کو سخت صدمہ پہنچا یوں محسوس ہوا جیسے دہشت گردی کی یہ کارروائی اُن کے لئے چیلنج ہوگی؟ ’سانحہ چٹی سنگھ پورا‘ کا براہ راست الزام بھارتی میڈیا پاکستانی سیکورٹی ادارے آئی ایس آئی کے سر تھوپنے پر اپنی ساری مکارانہ توانائیاں صرف کررہا تھا میڈلین البرائٹ لکھتی ہیں چند ہی گھنٹوں میں صدر کو بتادیا گیا کہ ’نئی دہلی حکومت نے پاکستان کے خلاف سیاسی وسفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے اپنے مذموم مقاصد سے مرعوب ہوکر ’را‘ کے ذریعے سے جنونی ہندو انتہا پسندوں کے ذریعے سے یہ قتل  عام کروایا ہے جب کبھی بھی کوئی امریکی صدر بھارت کے سرکاری دورے پر گیا ’را‘ والوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے ہاں کوئی بڑی دہشت گردی کی کارروائی بروئے  کار لاکر اِس کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز بعد 26 /جنوری2015 کو بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان  خصوصی امریکی صدر اُوبامہ کی’ممکنہ‘ آمد کی آڑ میں بھارتی ہائی آفیشلز کی چیخ وپکار نے ایک بار پھر پاکستان کے کان کھڑے کردئیے ہیں بی بی سی کے مطابق’بھارتی یومِ ِ جمہوریہ پر دہشت گردی کے ممکنہ’متوقع‘ خدشہ نے دیش کی اندرونی سیکورٹی کے معاملے پر سب ’بڑوں‘کو اپنے سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے بھارتی فوج کے ایک سینئر کمانڈر نے خبردار کردیا ہے کہ’دہشت گرد‘ دیش کے یوم جمہوریہ کی تقریب کو نشانہ بناسکتے ہیں؟ امریکہ کے صدر اوبامہ کے دور ہ ٗ بھارت کے موقع پر ا سکولوں اور فوجی کیمپوں پر حملہ کرنے کی کوئی متوقع کوشش ہوسکتی ہے مسٹر اوبامہ بھارت کے تین روزہ دورے پر 24 جنوری کو دہلی پہنچیں گے 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی پریڈ میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کریں گے‘ پینٹگان کے حکام نے بھارت جیسے ملک کی ’یوم ِ جمہوریہ‘ کی تقریب میں اپنے صدر کو بحیثیت ِ مہمان ِ خصوصی شرکت کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے قبل اُس دیش کی اندرونی انارکی‘ لاقانونیت‘ ایک درجن سے زائد ریاستوں میں چلنے والی علیحدگی کی مسلح مخدوش صورتحال کا جائزہ لینا ضروری کیوں نہیں سمجھا؟ اِس کا جواب وہی دے سکتے ہیں، عالمی میڈیا سے وابستہ ’جان کار‘ صحافیوں کہتے ہیں کہ بھارتی دارالحکومت میں سکیورٹی کے سخت انتظام کیے گئے ہیں اور صدر امریکا اُوبامہ کی آمد سے دس روز پہلے سے ہی اہم مقامات پر پولیس اور کمانڈوز تعینات کر دیے گئے ہیں‘ اس کے علاوہ شہر کے اہم سکولوں میں حفاظتی انتظامات سخت کر دئے گئے ہیں کیا وہ حلقے جنہیں نریندرمودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں بڑھتی ہوئی اُن کی عدم مقبولیت کا کوئی احساس ہے یا نہیں؟نریندری مودی جیسا شخص جو آر ایس ایس کا تربیت ِیافتہ شدت پسند رہا ہے،وہ اپنی مرکزی حکومت کو بچانے کے لئے ’آخری حد‘ تک جانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرسکتا، جبکہ بھارت کے اِس پار پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے، امریکا اور برطانیہ کے سربراہان پاکستانی فوج کے اُس تاریخی کردار پر اپنے  بھرپوراطمنان کا اظہار کرچکے ہیں پاکستانی فوج اِس وقت پاکستان کے شمالی وزیرستان میں اور اندرونِ ملک ’مودی ٹائپ‘ کے قصاب دہشت گردوں اور اُن کے شہری سہولت کاروں پر کاری ضرب لگانے میں مشغول ہے ایسے نازک اور انتہائی حساس موقع پر صدر اوبامہ کے دورہ ٗ ِ بھارت نے کئی سوالات اُٹھادئیے ہیں اگر نریندر مودی فسطائیت نے کسی قسم کی بھونڈی مہم جوئی کا اپنا کوئی شوق پورا کرنے کی بدنیتی کرڈالی جبکہ وہ کشمیر بارڈر پر پہلے خونریز چھیڑ چھاڑ جاری رکھے ہوئے ہے لہذا منصف مزاج چوکس عالمی میڈیا کو امریکی صدر کے دورہ ٗ ِ بھارت کے ایّام میں بڑی نازک مگر اہم ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اپنی آئے روز کی بڑھتی ہوئی عوامی عدم مقبولیت کے خوف میں مبتلا نریندرمودی سے کچھ بعید نہیں‘ سیاسی وسفارتی سطح پر وہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر از خود کردہ کسی جرم کا کسی قسم کی دہشت گردی کی بڑی کارروائی کا الزام لگا  د ئے اِس پر عالمی غیر جانبدار میڈیا کو خاص نظر رکھنی ہوگی جہاں تک امریکی صدر اوبامہ کا ’متوقع‘ دورہ ٰ ِ بھارت ہوگا، تو امریکی صدر بھارتی حکومت پر پاکستان کے ساتھ علاقائی کشیدگی کو ختم کرنے پر اپنا اثررسوخ استعمال کر ے تو کیا یہ ایک بہتر تجویز نہیں؟ تاکہ بھارت جنوبی ایشیا میں حقیقی امن کے قیام کو یقینی بنانے کی جانب اپنا ایک قدم آگے بڑھانے پرشائد آمادہ ہوجائے؟

 

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top