گجرات۔اور امریکی صدر کے ضمیر کی بے چینی
سیّد ناصررضا کاظمی
کل تک ہمارا کیا بہت سوں کا خیال تھا کہ جنونی مذہبی منافرت کے لبادوں میں لپٹی ‘ تعصبات کی رنگی رنگائی میں رنگی بھارتی سیکولر جمہوریت کا قدبت‘ بہت طاقتور ’قد آور ‘ ہے ماضی میں اِس کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا بھارتی سیکولر جمہور ی تسلسل کی انعقاد پذیری سے بھارت کے عوام کو کتنا فائدہ پہنچا ہے بحث اِس پر نہیں اصل بات یہ ہے کہ کیا بھارت میں ہر پانچ برس بعد اپنے وقت پر منعقد کرائے جانے والے انتخابات کے نتیجے میں دیش میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں نے اپنے اقتدار کے حقیقی ثمرات بلاشرکتِ مذہب وملت ‘ رنگ ونسل اور ذات پات کی حدوں سے بالاتر ہوکر اپنے ملک کے ہر طبقے کے عوام تک پہنچائے ہیں یانہیں ؟ ظاہر ہے کہ اِس کا فیصلہ بھارت میں بسنے والے انسانوں کے سمند ر نے ہی کرنا ہے جو آج بھی دیش کے بڑے شہروں کی سڑکوں کے کنارے انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں اپنی زندگیوں کے تلخ اُوقات گزارنے پر مجبور ہیں’’ جمہوریت‘‘ کا عمل بھارت میں کبھی رکا نہیں، مگر پھر بھی ایک ارب اور تیس کروڑ عوام کے 85% حصہ کو زندگیوں کی بنیادی سہولیات نام کو بھی میسر نہیں ‘ ایساکیوں ہے ؟ اِس ’کیوں ‘ کا جواب بھارتی لیڈروں کے پاس تو آپ کو نہیں ملے گا ‘ بھارتی عوام کی بنیادی ضروریاتِ زندگی تو رہیں ایک طرف‘ مگر اُس دیش میں انسانی زندگی کی آزادی اُس کی عزت و تکریم واحترام کا بھی کوئی نہ کوئی ایسا سرکاری ماحول تو ضرور قائم نظر آنا جانا چاہیئے جو ہر جمہوری ملک کی ’جمہوریت کا اصل حسن ہوتاہے کئی برس پیشتر ٹوکیو میں ’چوٹی کے اقتصادی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اِس اہم کانفرنس میں دنیا کی سات بڑی جمہوری ملکوں سربراہانِ ریاست اور یورپی ممالک کے ممتاز سیاسی مفکرین شریک ہوئے تھے جن میں ’بھارت جیسا جمہوری ملک ‘ شامل تھا جی ہاں ! وقت پر انتخابات کا انعقاد کرالینا بھی جمہوریت کا ایک ’حسن ‘ ہے قطعِ نظر اِس بات کے کہ جمہوری ثمرات عوام تک پہنچیں یا نہ پہنچیں یہ کون پوچھتا ہے؟ اِ س اجلاس میں طے پایا کہ ’ہم ارادہ کرتے ہیں ہر قسم کی دہشت گردی اور اُس میں شریک مجرموں ‘ اعانت کاروں ‘ اور حکومتوں سمیت اُن سب گروہوں اور قوموں کی جو دہشت گردی کی کفالت یا اُن کی مدد کرتے ہیں یا اُنہیں سہولت دیتے ہیں اُن کی سخت مذمت کرتے ہیں یادر رہے کہ ’بھارت‘ بھی بطور رکن ملک کے اِس اہم اجلاس میں شریک تھا جو گزشتہ 67-66 برسوں سے اپنی بھرپور سرکاری اعانت و تعاون سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی فوجوں کی تعیناتی اور مقامی انتظام کی دیکھ بھال کے نام پر وہاں کے ’بھارت کے مخالفین‘ بھارتی قابضین فوجوں کے ظلم وستم کے خلاف ’ریاستی دہشت گردی ‘ جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھا ٹوکیو میں منعقدہ اِس اجلاس میں جہاں ہر نوع کی دہشت گردی کے معاملے کو اُٹھایا گیا تھا، اجلاس کے اختتام پر چار اہم نکات کے اعلامیئے کا اعلان ہوا جس کی یلی شقوں میں صاف صاف طے کیا گیا کہ ’ ریاستی دہشت گردی کی کفیل یا معاون ریاستوں کو اسلحہ برآمد کرنے سے گریز کیا جائے گا ‘ ریاستی دہشت گردی کی کفالت یا اعانت کرنے والی ریاستوں کے ذمہ داران سیاسی حکمران ٹولے کو چاہے وہ حکومت کا حصہ ہوں یا وہ کبھی ماضی میں حکومت کاحصہ رہ چکے ہوں اُن پر امیگریشن یا ویزے کی سخت کڑی شرائط اور کڑے ضابطوں کا اطلاق یقینی بنائے جائے گا ‘اِس تمہید کا اصل مقصد یہی سمجھئے کہ آجکل کے ملکی وغیر ملکی اخبارات اُ ٹھا کر دیکھ لیجئے گزشتہ66-67 برسوں میں بھارت میں سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں کے خلاف کیسی کیسی جارحانہ ظلم وبربریت کی دہشت گردی کے جرائم ہوئے مثلاً’بھارتی ریاست گجرات کے ایک سینئر پولیس افسر سنجیو بھٹ ( جو کہ خود سانحہ کے دوران وہاں متعین تھا ) اُس سینئر پولیس آفیسر نے سپریم کورٹ میں داخل کیئے گئے اپنے حلفی بیان میں گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ اور آج کے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی پر کے بارے میں کیسے انکشافات کیئے ہیں اُس پولیس آفیسر نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے فل بینچ کو بتایا کہ نریندر مودی نے خود پولیس حکام کو گودھرا کی ٹرین میں کارسیوکوں کو جلائے جانے کے واقعہ کے بعد کو حکم دیا تھا کہ وہ ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے دیں سنجیو بھٹ 2002 میں گودھرا فسادات کے وقت انٹیلی جنس کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے گودھرا واقعہ کے بعد زبردست کشیدگی کے دوران 27 ؍ فروری 2002 کو احمد آباد میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں کی ایک میٹنگ میں شرکت کی جس میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے اعلیٰ پولیس افسران سے کہا کہ’ وہ فسادیوں کو نہ روکیں مسلمانوں کی طرف سے مدد کی التجاؤں پر کان نہ دھریں ‘ عدالتِ اعظمیٰ میں داخل کیئے گئے 18صفحات پر مشتمل اپنے اِس بیانِ حلفی میں سنجیو بھٹ نے میٹنگ کی تفصیلات بتا تے ہوئے کہا کہ اِس میٹنگ میں آٹھ پولیس افسران شریک تھے مسٹر نریندر مودی نے اُن اعلیٰ اہلکاروں سے یہ کہا تھا ’ ایک طویل عرصہ سے گجرات پولیس مذہبی فسادات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں توازن سے کام لیتی رہی، لیکن اِس بار صور تِ حال ماضی سے برعکس ہوگی اور مسلمانوں کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ کبھی گودھراٹرین جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہونے پائے ‘ مسٹر بھٹ نے انڈیں سپریم کورٹ میں بتایا کہ’ وزیرِ اعلیٰ مودی نے کہا تھا کہ’ ہندوؤں کے جذبات بہت زیادہ مشتعل ہیں یہ ’لازمی ہے کہ اُنہیں جتنا وہ چاہئیں غصہ نکالنے دیا جائے ‘سنجیوبھٹ نے بیانِ حلفی میں یہ بھی کہا ہے اُنہوں نے سپریم کورٹ کی مقررکردہ تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی کو بھی یہ باتیں بتائی تھیں لیکن اُنہوں نے اُن کے بیان کو اُس سنجیدگی سے نہیں لیا جیسا اُنہیں لینا چاہیئے تھا، بلکہ ایس آئی ٹی نے اُن کی گواہی کے بیانات کو ’لیک ‘ کردیا تھا جس کی وجہ سے اب وہ اپنی زندگی کے لئے خطرہ محسوس کررہے ہیں مسٹر بھٹ نے نامہ نگاروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا یہ بھی بتائا تھا کہ اگر اُنہیں کسی پینل یا عدالت کے سامنے طلب کیا گیا تو وہ مزید ثبوت پیش کر یں گے‘ نجانے بیچارے سنجیو بھٹ آج کل کس حال میں ہونگے؟ زندہ بھی ہونگے یا نہیں ؟ مگر انسان ہونے کے ناطے اُنہوں نے سچ بول کر انسانیت کا نام ضرور اُونچا کردیا جیسا کھرا سچ گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام مسلسل چیخ چیخ کر بول رہے ہیں مگر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر حساس نوعیت کے عالمی معاہدات کا بھارت جیسے دیش پر کوئی اثر نہیں پڑرہا ‘ کچھ لوگ اگر یہ خیال کرتے ہیں تو وہ غلط نہیں کہتے کہ بھارت اپنے ہاں وقت پر جمہوریت کا ڈھونگ رچاتا ہی اِس لئے ہے کہ عالمی ممالک میں اُس کی جمہوری ساکھ قائم رہے ؟جمہوریت میں انسانی حقوق کیا ہیں؟ اُسے اِس سے کچھ لینا دینا نہیں ،ہے نا یہ مقامِ شرم؟2002 کے گودھرا مسلم کش فسادات کے بارے میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے بہت خوب کہا تھا کہ ’ گجرات کے گودھراکیمپ کے شرمناک واقعہ سے بھارت کے سیکولر ازم کے چہرے پر ایک اور بدنما داغ لگ گیا ‘عالمی سطح پر نریندر مودی کو گجرات کے فسادات کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیئے جانے کا واضح ثبوت یوں بھی سامنے آیا جب وہ امریکا اور یورپ کا دورہ کرنے کے لئے ویزہ لینا چاہ رہے تھے تو اُنہیں نہ امریکا نے ویزہ دیا نہ ہی یورپی ممالک نے ‘ مسٹر نریندر مودی نے 2002 میں گودھرا کیمپ کے فسادات میں کھلم کھلا ہندو دہشت گردوں کی کفالت کی ‘ اُن کی برملا اعانت کی اور اپنی انتظامیہ کو اپنا یہ حکم کو ماننے پر مجبور کیا کہ وہ ہندودہشت گرد جنونیوں کی مذموم سفاکانہ سرگرمیوں سے مکمل چشم پوشی اختیار کریں مسلح ہندو غنڈوں کی ٹولیاں گودھرا اور گجرات شہر میں جہاں چاہئیں‘ خوف زدہ مسلمانوں کی جان ومال اوراُن کی عزت وآبرو ؤں کولوٹیں‘ ریاستی پولیس کا کوئی (غیر جابندار) اہل کار اُن ہندوغنڈوں کی راہ میں بالکل حائل نہ ہو ‘ بھارتی سپریم کورٹ میں گودھرا فسادات کے وقت انٹیلی جنس کے اعلیٰ آفسر سنجیو بھٹ نے اپنا بیان حلفی داخل کرکے بھارتی انتظامیہ میں ایک ہلچل پیدا ضرور کی تھی عالمی مہذب دنیا نہ کل ’مہذب ‘ تھی اور نہ آج اُسے کوئی ’مہذب ‘ سمجھے کیا بگاڑ لیا مہذب دنیا نے کل کے کھلے دہشت گرد نریندر مودی کا ؟ افسوس صدہا افسوس ‘یقیناًامریکی صدر اُوبامہ کا ضمیر اُنہیں کچوکوں پر کچوکے ضرور لگا رہا ہو گا؟؟