انسانی حقوق کے علمبرداروں۔۔۔مزدوروں کا قتل کس جُرم کی سزا
Posted date: April 15, 2015In: Articles|comment : 0
نغمہ حبیب
بلوچستان میں ایک بار پھر نہتے غریب مزدور وں کو قتل کر دیا گیا۔ ان مزدوروں میں سے سولہ کا تعلق صادق آباد اور رحیم یار خان پنجاب، اور چار کا تعلق حیدرآباد سندھ سے تھا۔ یہ انتہائی غریب خاندانوں کے لوگ تھے جو تربت میں گڈان کے علاقے میں سہراب ڈیم کے منصوبے پر کام کررہے تھے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ غیر ترقی یافتہ صوبہ ہے یہ قدرتی دولت سے مالامال ہے لیکن کچھ شدید قسم کے جغرافیائی حالات اور کچھ یہاں موجود خود غرض قسم کے سردار اور خود کو لیڈر کہنے والے لوگ ہیں جو اپنے اقتدار اور اختیار کے دوام کے لیے اس صوبے کی ترقی کو ہر طرف سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صرف چند لوگ ہیں لیکن انہیں مسلسل بیرونی امداد میسر ہے اور اصل میں یہی وجہ ہے بلوچستان کے حالات بہتر نہ ہونے کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک مخلص شخص ہیں جو واقعی بلوچستان کی بہتری کے لیے کام کرناچاہتے ہیں اور پچھلے کچھ عرصے سے بلوچستان میں سکون اور امن ہونے سے دل کو تسلی مل رہی تھی کہ انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا کہ اچانک ایک بار پھر اس واقعے نے سب کے دل ہلا کر رکھ دیئے اور بیس انتہائی بے ضرر اور غریب مزدوروں کو قتل کر دیا گیا۔ جن لوگوں نے ان علاقوں میں غربت دیکھی ہے وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مزدور غربت کی لکیر سے بھی کتنا نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق مزدور کیمپ میں مزدوروں کو قطار میں کھڑا کیا گیا ان سے شناخت پوچھی گئی اور پھر انہیں گولیاں مار دی گئیں۔ اس وا قعے سے دو طرح کے مقاصد حاصل کیے گئے ایک غیر بلوچوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ بلوچستان کا رخ نہ کریں اور دوسرا حکومت کے ترقیاتی کاموں کو سبوتاژ کیا گیا۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگانا ایک عام آدمی کے لیے بھی مشکل نہیں کہ وا قعے کے پیچھے وہی غیر ملکی عناصر کارفرما ہیں جو اس صوبے میں امن نہیں ہونے دیتے لیکن اس اندازے کی تصدیق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی کردی اور کہا کہ اس وا قعے میں بھارت ملوث ہے۔ ایک انتہائی ذمہ دار سیاستدان اور وزیراعلیٰ کی طرف سے کوئی ایسی بات بغیر تصدیق کے نہیں کی جا سکتی۔بھارتی مداخلت کا یہ پہلا واقعہ بھی نہیں ہے بلوچستان بھارت کا پسندیدہ محاذ ہے جہاں وہ پاکستان کے مخالفین کو منظم کرتا ہے امداد کرتا ہے اور کاروائی کرواتا ہے۔ تربت واقعے کی ایف آئی آر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف درج کر لی گئی ہے جو کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والا وہ شر پسند ہے جو بلوچستان میں قتل وغارت گری میں ملوث ہے۔ خود کو بلوچوں کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز رہنما کہتا ہے اور وہ یہ اعزاز غیر بلوچوں کے خون ناحق کے بدلے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قتل کرتا ہے اور تسلیم کرتاہے کہ یہ خون اس نے بہایا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ شخص ایک بار پہلے بھی گرفتار ہوا لیکن چوہدری افتخار کی مہربانی سے رہا کردیا گیا۔ مئی 2004 میں اس نے تین چینی انجنیئرز کو جو گوادر میں کام کررہے تھے قتل کردیا۔ کیا اس کے ان اقدامات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ بلوچستان اور اس کی ترقی کا دشمن ہے اگر ایسانہ ہوتا تو وہ اس صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنے والوں کی قدر کرتا۔ تربت واقعے میں جو بھی گروپ ملک یا شخص ملوث ہے اس کے خلاف حکومت کو سخت کاروائی کرنا ہوگی ورنہ بلوچستان میں یہ سرگرمیاں دوبارہ زور پکڑ سکتی ہیں جن کا ملک کسی بھی طرح متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان مختلف قسم کی دہشتگردیوں کے خلاف ایک طویل عرصے سے جنگ لڑرہا ہے اور سچ یہ ہے کہ ان میں اکثر معاملات وہ ہیں جن میں غیر ملکی ہاتھ بڑا واضح دکھائی دیتا ہے اور ہماری افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل ان سے نبردآزما بھی ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ چند لوگ حکومت اورایک بہت بڑی فوج سے ٹکر لیے ہوئے ہیں ان تک اسلحے کی ترسیل بلاروک ٹوک جاری ہے اور ان کا انٹیلجنس نظام بھی اتنا مربوط اور مضبوط ہے کہ یہ اپنی کاروائی بڑی آسانی سے کرجاتے ہیں تو کیا یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انہیں کسی تربیت فوج کا تعاون اور پشت پناہی حاصل ہے اور یہی وہ قوتیں ہیں جو پاکستان کے خلاف ہر وقت جغرافیائی اور نظریاتی لحاظ سے برسر پیکار رہتی ہیں۔ عرصہ دراز سے پاکستانی عوام دہشت گردی کے سامنے ڈ ٹے ہوئے ہیں کہیں طالبان تو کہیں بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی مٹھی بھر علحدگی پسندوں کی تنظیمیں اور کہیں کراچی مارکہ دہشت گردی۔ حکومت اور فوج کی ان کے خلاف کاروائی جاری ہے لیکن کہیں کہیں اب بھی ان کے ہمدرد موجود ہیں۔ چاہے یہ ہمدرد ملکی ہوں یا غیر ملکی ان کا خاتمہ ضروری ہے اور ان کی مدد کرنے کی سخت سزا بھی دی جانی چاہیے۔ غیر ملکی دہشت گردی کے ثبوت کھل کر دنیا اور پاکستانی عوام کے سامنے رکھ د یے جانے چاہیے۔ صرف غیر ملکی ہاتھ کی موجودگی کا اعلان کافی نہیں۔ اگر بھارت ممبئی حملوں کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف انتہا پسندانہ پروپیگنڈا کر سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرتے اور ہمارے سفارتی ذرائع کیوں خاموش اور ناکام ر ہتے ہیں۔ ان بیس مزدوروں کے خاندانوں کے سامنے کون جوابدہ ہے ظاہر ہے کہ اپنی حکومت، اور اگر حکومت ایف آئی آر میں ملزم نامزد بھی کرتی ہے تو جرم ثابت ہونے پر سزا بھی ہونی چاہیے۔ انسانی حقوق کا واویلا مچا کر ان لوگوں کے حق میں میڈیا میں طوفان اٹھانے والوں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ان انتہائی غریب مزدوروں کا قصور کیا اتنا ہی نہ تھا کہ وہ دوسرے صوبوں سے مجبوراً اٹھ کر اپنے گھروں سے دور صحرا میں بیٹھ کر اور کام کرکے بارہ ہزار روپے کمانے گئے تھے۔ بارہ ہزار سے زیادہ میں تو ان انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کے کتے بلیوں کی خوراک آتی ہے۔ امید ہے کہ اس بار گرفتاری کے بعد یہ مجرم کسی ایسی عدالت میں پیش ہو کر بری نہیں ہونگے جن کو انصاف سے زیادہ اپنی ذاتی شہرت کی ضرورت ہو تی ہے۔ ان بیس مزدوروں کو اگر انصاف دلا دیا جائے تو امید ہے پھر کوئی لیڈر اپنی لیڈری چمکانے کے لیے کسی انسان کو خون میں نہیں نہلائے گا۔ بلوچستان آدھا پاکستان ہے اور حقوق کے نام پر اس کی علحدگی کی بات کرنے والے خود کیوں اس کی ترقی کے راستے مسدود کررہے ہیں ایک مقدمہ اس امر کا بھی دائر ہونا چاہیے۔