Posted date: April 19, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
لاہور کو پاکستان کا ’دل ‘ اور اہلِ لاہور کو ’زندہ دلانِ پاکستان کہتے ہیں، اِس لئے کہتے ہیں کہ’’ جس نے لاہور نہیں دیکھا اُس نے کچھ نہیں دیکھا ‘‘اہلِ وطن کو لاہور اور اہلِ لاہور پر بہت ناز اِس وجہ سے ہے کہ لاہور نے اپنی باہیں ہر آنے والی کے لئے ہمیشہ کھلی رکھی ہیں لاہوریوں کے دل سمندروں جیسے کشادہ‘ یہ تشبیہ غلط نہیں واقعی لاہور اہلِ پاکستان کادل ہے لاہور میں غمی خوشی کا کوئی واقعہ رونما ہو جائے سبھی پاکستان اُس غمی خوشی کے واقعہ کو بھرپور اپنایت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، صوبہ ِٗ خیبر پختونخواہ ہو یا سندھ کا صوبہ ہو، پاکستان کا عظیم الشان فخر صوبہ ِٗ بلوچستان ہو یا کشمیر ہو،یا گلگت بلتستان جہاں کسی کو کوئی’ بات‘ پورے پاکستان تک پہنچانی ہوتی ہے، وہ بلا تامل جھٹ سے لاہور کا رخ کرتا ہے یہاں پر لفظ’ بات ‘پر ہم نے ’کوما‘ کیوں لگایا؟ وہ اِس لئے کہ لاہور میں جو صاحب بھی پاکستان کے کسی صوبے سے آنا چاہئیں، ضرور آئیں جو ’بات ‘ کہنی ہے بلا جھجھک کہہ ڈالیں مگر خیال رکھیں کہ اُن کی وہ ’بات ‘ پاکستان کی قومی سلامتی کو کہیں سوالیہ نشان نہ بنا دے لاہوری سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، پاکستان کے خلاف کسی کی تیوری پر آئی ہوئی شکنیں وہ بالکل برداشت نہیں کرسکتے اِس مختصر سی تہمید سے ’بات ‘ کی تہہ تک وہ چند مخصوص ذہنیت رکھنے والے افراد ضرور پہنچ گئے ہوں گے جنہیں حکومتِ پنجاب نے ایک بہت بڑی نامی گرامی یونیورسٹی کا 9؍ اپریل2015 کو پہلے سے شیڈول سمینار کرنے کی اجازت نہیں دی ،یہاں پر واقعی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بھی اب حکومتوں کو دخل در معقولات کرنے کی ضرورت پیش آ نے لگی ،لاہور اور کراچی پاکستان کے دو بڑے شہر‘ اوّل تو جب یہ خبر ’مکمل‘ مندرجات کے حوالوں سے ہم نے پڑھی یقین جانئیے ایسا لگا جیسے کسی نے دل پر چرخا سا لگا دیا ہو مطلب یہ کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے بلو چستان اور کراچی تو اپنی جگہ اُس کا پہلے سے ’سوفٹ ٹارگٹ ‘ ہے کیا اب ہم یہ سمجھ لیں کہ ’را‘ نے لاہور کے شہرتِ یافتہ تعلیمی اداروں پر بھی سرمایہ کاری کرنی شروع کردی ہے؟ لاہور کی اِس نامور یونیورسٹی نے اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کا دائرہ ’انسانی حقوق ‘ جیسے انتہائی حساس اور متنازعہ موضوعات پر بھی مذاکرے اور سمینارز کرانے کا عزم کرلیا ہے ، آخر یونیورسٹی کی انتظامیہ ’بلوچستان کے مسنگ پر سنز ‘ کے حساس موضوع پر ہی کیوں سمینار کرنا چاہ رہی تھی؟اِس موضوع پر بولنے کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ نے نام نہاد و خود ساختہ وائس آف مسنگ پرسنز ‘ کے چیئرمین ماما قدیر جیسی شخصیت کا انتخاب کرلیا اُن کے ساتھ جن لوگوں کو اسٹیج پر بٹھایا جانا تھا، اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو نام نہاد مسنگ پرسنز کی اصل پول پٹیاں کھولتا ،پاکستان اور پاکستانی حساس سیکورٹی اداروں پر لگائے جانے والے بے بنیاد ‘ بے سروپا اور لغو الزامات کے دفاع میں اپنے وطن پاکستان کے حق میں اپنے دلائل پیش کرتا یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے جنابِ والہ! لندن کا ہائیڈ پارک نہیں( ہاں لندن کے ہائیڈ پارک میں بھی آپ کے منہ جو آئے وہ کہہ دیں کوئی کسی کو نہیں پوچھے سکتا ایسا نہیں وہاں پر بھی کچھ حدودو قیود ہیں ملکہ معظمہ کے بارے میں وہاں بات کرکے تو دیکھیں) جہاں تک جو حلقے اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر لاہور جیسے انتہائی اہم شہر میں پاکستان اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کے خلاف تماشا لگا نے کی جن مذموم اوررزیل کوششوں میں مصروف تھے اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ اظہارِِرائے کی آزادی یقیناًہر پاکستانی کا حق ہے وہ اِسے استعمال کرئے لیکن اِس کے بھی کچھ اخلاقی و آئینی حدودوقیود تعین کیئے گئے ہیں، جنہیں توڑنے یا پھلانگنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر جناب اِتنے ہی دیدہ دلیر ہیں، تو پھر آئیے لنگوٹ کس کر ‘ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کرائیں سمینارز انسانی حقوق کے نام پر ‘ ہمت ہے تو بتائیے اپنے طلباء وطالبات کو لاہور کی شاہی مسجد کی بغل میں کسی زمانے میں ایک رونق آفروز ’شاہی محلہ ‘ ہوا کرتا تھا کیا یہ موضوع مناسب نہیں ؟ اظہارِ رائے کی آزادی ہے نا تو بلوچستان جیسے حساس گنجلک اور پیچیدہ سیاسی ایشوز کو نوعمر طلبا وطالبات کے سامنے چھیڑنے کی بجائے اور بھی کئی ایسے سوشل موضوع ہیں اُنہیں کیوں نا لیا ئے ؟لاہور میں بھیک مانگتے ہوئے ناچتے ہوئے ہیجڑوں کے انسانی حقوق کے مسائل ہیں اُنہیں کیوں زیر بحث نہیں لا یا جاسکتا ہے؟ لاہور کے کئی بڑے بڑے سنیما گھر توڑے جارہے ہیں اُن میں کسی زمانے میں کیسی کیسی کھڑکی توڑ فلمیں لگتی تھی فنونِ لطیفہ لاہور میں دم توڑ رہا ہے، اِن پر انسانی حقوق کے سمینار کروا ئیے انسانی حقوق کے نام پر آزادی کو اگر استعمال کرنا ہے تو دلیری سے کریں نا، اگر اِن موضوعات پر آپ کی یونیورسٹی میں سمینار ہونگے تو لاہور کے طالبِ علموں کی تعلیمی اپچ بڑھے گی یا پھر اُنہیں ’شرم و ندامت ‘ محسوس ہوگی؟ اُنہیں اپنے معزز اساتذہ اور پروفیسر لیکچرار کی علمی بصیرت پر ناز ہوگا یا یہ طلباء وطالبات یہ سوچنے پر مجبور ہونگے ہماری پوری فیکلٹی اندرونی وبیرونی تخریبی طاقتوں کی آلہ ِٗ کار بن گئی ہیں؟ ماما قدیر کے ٹاک شو میں بلوچستان کے عوامی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ بھی آپ مدعو کرلیتے پھر وہ بتاتے کہ نہیں یہ مسنگ پرسنز ایک بھارتی ڈرامہ ہے کوئی غیر مند بلوچ مسنگ پرسنز نہیں ہے حکومت کو مطلوب مفرور دہشت گرد ’را‘ کے تربیتی کیمپوں میں تربیت لینے والے یقیناًمسنگ پرسنز ہوسکتے ہیں بلوچستان سے آکر لاہور میں مسنگ پرسنز کا رونا دھونا ‘کیا کوئی شمالی پنجاب کے پی کے اور سندھ کے اُن مزدوروں جن کا حال ہی میں بلوچستان میں اجتماعی قتل عام ہوا ہے پنجاب ‘ کے پی کے اور سندھ کا کوئی ’ماما قدیر ‘ ایسا سوشل ورکر بلوچستان کے کسی بڑے تعلیمی دارے میں اُن کا مقدمہ پیش کرئے تو کیا وہ اپنے اِ س مقصد میں کامیاب ہوجائے گا ؟یقیناًیونیورسٹیزتعلیمی آگہی کے شعور کو پھیلانے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو پوری آزادی کے ساتھ روبہ عمل میں لانے کی بہترین جگہ ہوتی ہے لیکن جن اندرونی قوتوں کا ملکی آئین اور ملکی سیکورٹی کے ساتھ متصادم ہو اُن کا فورم اور موضوع ملکی تعلیمی نظام سے کسی صورت میں ہم آھنگ نہیں ہوتا ہاں اِس پر کوئی دورائے نہیں ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ چھوٹے بڑے ملکی شہرتِ یافتہ تعلیمی ادارے نصانی اور غیر نصابی ٹاک شوز اور سمینار ضرور منعقد کروائیں ہمارے ملک میں انصاف اور احتساب پر بات ہوسکتی ہے تعلیمی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اپنے گروپس بناکر ملک بھر میں تعلیم کو عام کرنے اور ملک کے ایک ایک بچہ تک تعلیمی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے اپنی بہترین تجاویز حکومت کو دے سکتے ہیں پاکستان کو بے مثال تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں طلباء ہراول دستہ کارول ادا کرسکتے ہیں آخر میں ہماری التجا ہے کہ اب صرف لاہور کیا ملک بھر کے پرا ئیویٹ اسکولوں کالجوں اور بڑی یونیورسٹیوں کی اعلیٰ سطحی انتظامیہ کو اپنے اردگرد گہری نظروں سے بہت ہی گہرا خود احتسابی کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے چونکہ ’را‘ کی خفیہ سرگرمیاں پاکستان کے ہر بڑے شہر وں میں پھیلتی ہی چلی جارہی ہیں ۔