Posted date: July 30, 2015In: Urdu Section|comment : 0
بھارت میں قیامت ڈھاتے ہوئے بھارتی جاسوسی اداروں کی اِسے دیدہ دلیری کہا جائے ‘ بزدلانہ ڈپلومیسی کہا جائے ‘ سفاکانہ سیاسی شرارتوں کا نام دیا جائے، اگر کچھ بھی کہا جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کے صفحات میں اِن جرائم کو کس شناخت کے ساتھ رقم کیا جائے گا ماضی میں جائیں گے تو نجانے ہمیں کہا ں سے شروع کرنا پڑے گا اور کہاں ختم، چلیئے زیادہ دور نہیں‘ بلکہ ہم 90کے عشرے سے شروع کرتے ہیں اور یہ اندازہ لگانے کی اپنی سی ایک کوشش کرتے ہیں 12 ؍ مارچ 1993 کو ممبئی میں لگاتار بم بلاسٹ اور عوام کے ہجوم پر کھلے عام براہِ راست فائرنگ کی ایک سیریز شروع کی گئی، جس میں انڈر گراونڈ ریلوے ٹرمینلز کو بھی بموں سے اُڑایا گیا ‘ 13؍ دسمبر 2001 کو نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر صبح سویرے حملہ کروایا گیا ،جس کے پاکستان اور بھارت پر بڑے سنگین نتائج مرتب ہوئے، تقریباً9-10 ماہ تک دونوں پڑوسی ایٹمی ملکوں کی لاکھوں کی تعداد میں افواج سر حدوں پر آگئیں 11 ؍ جولائی2006 کو ایک بار پھر ممبئی کو بم بلاسٹ سے تقریباً دہلا دیا گیا جبکہ 27 ؍ نومبر2008 کو بھارتی جاسوسی اداروں کے ایک ’گمنام ‘ گروہ نے ممبئی کے تاج اُوبرائے ہوٹل اور چند زیر زمین ریلوے ٹرمینلز کو ایک مرتبہ پھر اپنے ہی ہم دیشیوں کے خون سے رنگین کیا گیا اب چند روز پیشتر27 ؍ جولائی 2015 کو بھارت کے مشہور شہر گرداس پور میں متذکرہ بالا بم حملوں‘ دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے ملتی جلتی ایک اور قیامت ڈھاتی ہوئی کارروائی کردی گئی مارنے والوں کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ مرنے والے کون تھے ‘ اُن کا مذہب کیا تھا ‘ چونکہ یہ سفاکانہ کارروائی ہر لحاظ اور اعتبار سے ایک سوچی سمجھی کارروائی اِس لئے سمجھی جارہی ہے کہ حالیہ دنوں میں یہ خبریں عام تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اور کچھ نہیں تو ’ثقافتی ‘ معاملات پر حالات کا رخ بہتری کی جانب جاتا ہوا دکھائی دے تھا بعض لوگ باتیں کررہے تھے کہ ’شائد ‘ پاک بھارت کرکٹ کا عرصہ سے بند دروازہ کھل جائے ایسا ماضی میں ایک بار نہیں کئی بار ہوا کہ جب کبھی کرکٹ ڈپلومیسی بہتر ہوتی ہوئی نظر آئی تو بھارتی علاقوں میں کہیں کوئی بڑی دہشت گردی کی کارروائی ہوجاتی ہے اور تفتیش سے قبل بھارتی ذمہ دار لوگ دہشت گردی کے سِرے فوراً پاکستان میں ڈھونڈنے لگتے ہیں، اور بے سروپا الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جیسا بین السطور بیان کیا گیا 90 کے عشرے سے اب تک بھارت کے اہم بڑے شہروں سمیت نئی دہلی کی اہم عمارت ’پارلیمنٹ ہاؤس‘ پر دہشت گردی کی مسلح کارروائیاں سامنے آئیں اُن کے الزامات بلا سوچے سمجھے ‘ بغیر کسی تفتیش کے ہر دور کے بھارتی وزیر اعظم سے لے کر ایک عام وزیر تک سب نے اِن دہشت گردانہ کارروائیوں کا ملبہ پہلے پاکستان پر ڈال دیا اور پھر اپنے ہاں تفتیش شروع کردی گئی جس کے نتائج میں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے والوں کو سوائے شرمندگی ‘ ندامت اور کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ بھی نہ ملا بھارت ممبئی دھماکوں کی ’فلم ‘ کو ابھی تک نہیں بھولا ہر کچھ عرصہ بعد نئی دہلی اسٹیبلشمنٹ والوں کے دماغوں میں یہ غبار اُٹھتا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک ممبئی حملوں کے اصل ملزموں کو نہیں پکڑا جبکہ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بالکل فراموش کردیتے ہیں کہ بھارت نے بھی تو اولاً اصل’ مجرم ‘کس کانام اُنہوں نے ’اجمل قصاب ‘ رکھا ہوا تھا جسے اُنہوں نے پھانسی بھی دیدی ‘ کم ازکم اُسے پاکستانی تفتیشی اداروں تک رسائی تو دینی چاہیئے تھی تاکہ پاکستانی تفتیشی ادارے اُس کی زبانی کچھ سنتے کچھ اُس سے پوچھتے جس کی وہ نشاندہی کرتا ممبئی دھماکوں کی خالص اور گہری تفتیش کا کتنا سنہری موقع خود بھارت نے گنوا دیا ابتداء میں جیسا بیان ہوا کہ 91 سے آج2015 تک بھارت کبھی سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کہ ’چلیں تھوڑی دیر کے لئے ہم مان لیتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردیوں کی مبینہ کارروائیوں میں وہاں کی ایجنسیاں ملوث نہیں ہیں بلکہ واقعی وہاں اندرونَ دیش ’دہشت گردی‘ ہورہی ہے بھارت آخر یہ کیوں نہیں مانتا کہ خود بھارت کے اندر کتنے مسلح گروہ علیحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں چھتیس گڑھ کے علاقے’دانتے واڑہ‘ میں نکسل گوریلوں کی مسلح کارروائیوں کو بھارتی سول اور ملٹری ادارے کس کھاتے میں ڈالیں گے ؟ کیا اُن کا بھارت بھر میں کہیں کوئی مسلح کارروائی کرنا کوئی مشکل کام ہے ؟ یہ کیا ہوا ؟ ہر بار بھارت دہشت گردی کا نام نہاد ’سرحد پار ‘ دہشت گردی کہہ دیتا ہے اور اصل مجرمان اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے زیر لب مسکراتے رہتے ہیں ’’پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع گرداس پور میں تھانے پر حملہ کرنے والے تینوں افراد کو کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد ہلاک کر دیا گیا ‘‘ اس کارروائی کے دوران تینوں حملہ آوروں کے علاوہ گرداس پور کے ایس پی بلجیت سنگھ سمیت چار پولیس اہلکار اور تین شہری بھی مارے گئے متعدد افراد زخمی ہوئے بھارتی پنجاب پولیس کے سربراہ سمیدھ سنگھ سینی کے مطابق‘تینوں شدت پسند’ فوجی‘ وردیوں میں ملبوس جدید و مہلک ہتھیاروں‘چینی ساختہ دستی بموں اور جی پی آر ایس نظام سے لیس تھے جبکہ پنجاب کے وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے کہا ہے کہ ’بہت سالوں کے بعد اس طرح کا پہلا واقعہ رونما ہوا ہے بقول مسٹر پرکاش سنگھ کے یہ ایک قومی مسئلہ ہے نئی دہلی سرکار کو ا یسے سنگین مسائل سے قومی پالیسی اپنا کر ہی نمٹانے کی ضرورت ہے‘‘ حملے کے بعد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل ڈی کے پاٹھک سے بات کی ہے جس میں زور دیاگیا کہ بھارت اور پاکستان کی سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ‘‘ پاکستان نے بھارتی شہر گورداس پور میں ہوئے اِس دہشت گرد حملے کی پُزور الفاظ میں مذمت کی ہے پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں دہشت گرد حملے سے متاثر ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے ہمارا نئی دہلی حکومت کے لئے اور اُن بھارتی ذرائع کے لئے جو نئی دہلی حکام کو مشورہ دیتے ہیں اُن کے لئے مشورہ ہے جنوبی ایشیا میں علاقائی بالا دستی حاصل کرنے کا اگر یہ ہی گھناونا طریقہ استعمال کیا جاتا رہا تو اِس میں بھارت سخت نقصان اُٹھا سکتا ہے چونکہ اِس وقت بھارت کے اندر اقتدار کے بھوکوں میں قوت کے غلط استعمال کے رجحان کو بہت تیزرفتاری سے فروغ مل رہا ہے کشمیر کو ایک جانب رکھیں دیش بھر کی دیگر ایک درجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں نہ صرف مسلح ہیں بلکہ جب سے بھارت میں آر ایس ایس نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی ہے نئی دہلی اُن کا مطلوب و مقصود بن چکا ہے لہذاء ببھارت اپنے اندرونی امراض کا علاج کرنے کی طرف فی الفور توجہ کرئے۔