الطا ف حسین کا باغیانہ نخوت وتکبر۔ ریاستِ پاکستان کے لئے چیلنج
Posted date: August 03, 2015In: Articles|comment : 0
ناصررضا کاظمی
گزشتہ دنوںیکم ؍ اگست2015 کو برطانیہ میں مقیم ایم کیو ایم کے قائد جنہیں لوگ الطاف حسین کے نام سے پکارتے ہیں اُنہوں نے ایک اور انتہائی متنازعہ ‘ بیہودہ‘ لب ولہجہ اور انتہا درجہ کی نچلی زبان کے استعارے اور گھٹیا اشارے کنائیے کھلے عام استعمال کرکے پاکستان کی ریاست پر ‘ پاکستان کے نظرئیے پر اور افواجِ پاکستان سمیت تقریباً سبھی سیکورٹی اداروں پر جس طرح کیچڑ اُ چھالا ہے، یہ اُن کی کوئی پہلی نازیبا ‘ ناشائستہ اور پرلے درجہ کی مکروہانہ حرکت نہیں ہے، آج سے قبل بھی ماضی میں کئی بار وہ اِس نوع کی مختلف ناقابلِ معافی جسارتیں کرچکے ہیں اور دوسرے ہی روز جب رات کا نشہ ہرن ہوتا ہے تو وہ فوراً پیروں میں گر پڑتے ہیں ‘زبان پھسل گئی ‘ میرا مطلب یہ نہیں تھا میں یہ نہیں بلکہ یہ کہنا چاہ رہا تھا میں معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کردیں گزشتہ بیس پچیس برسوں میں ایسے ایک نہیں کئی واقعات ہیں مگر یکم ؍ اگست کو تو اُنہوں نے حد ہی مٹا دی ،سیاسی شرافت ‘ سیاسی رواداری ‘ سیاسی متعدل مزاجی کی اُنہوں نے جس طرح مٹی پلید کی ہے ماضی کے مرکز مخالف پاکستانی سیاست دانوں میں اِ س کی کوئی ایک مثال نہیں ملتی، الطاف حسین نے کچھ باقی نہیں چھوڑا جو وہ مزید کچھ اور کہتے؟ پاکستانی قوم نے الطاف حسین کو اور کتنا برداشت کرنا ہے، اُنہوں نے اپنے آپ کو ہر کسی سے ’قوی تر ‘ سمجھا ہوا ہے، جو منہ میں آتا وہ بلا سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں اپنے گلہ پڑی مصیبتوں کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہرانا اُن ایک عادت بن چکی ہے جب بھی وہ پاکستان میں کسی قومی ادارے پر کیچڑ اُ چھالنے کا ارادہ کرتے ہیں، تو لے دیکے وہ افواجِ پاکستان کو اپنا موضوعِ بحث بنا تے ہیں، جہاں تک اُن کا یہ کہنا کہ اُنہوں نے ہمیشہ افواجِ پاکستان کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی تو اِس میں بھی اُن کے اندر کا خبثِ باطن لاکھ چھپائے نہیں چھپ سکا یہ افواجِ پاکستان کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے کبھی اِن جناب’الطاف حسین ‘ کی باتوں کو کبھی خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جیسے اُنہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ہے الطاف حسین کو اگر ہم ایک ’عجلت پسند‘ سیاست دان کہیں تو شائد غلط نہ ہو گا اُنہیں یہ کون سمجھائے گا کہ ’بات کرنے سے قبل صبر وسکون کے ساتھ غور وفکر کرنا ‘ عقل مند ہونے ا ور دانشورہونے کا ایک روشن راستہ ہے یہ راستہ اُنہوں نے کبھی نہیں اپنایا سوچ سمجھ کر باتیں کرنے سے انسان کبھی منہ کے بل نہیں گرتا جس گہری اندھی کھائی میں آج ایم کیو ایم کے یہ قائد منہ کے بل گرئے ہیں شائد نہ گرتے اگر یکم ؍ اگست کو وہ ریاستِ پاکستان ‘ آئینِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف اِ س قدر نازبیا نہیں‘ بلکہ انتہائی گھٹیا اور لغویات پر مبنی تقریر نہ کرتے، یاد رہے کہ ہر سال کا ماہِ اگست 18 کروڑ پاکستانیوں کے لئے اُن کی قومی آزادی کی ثمرہ آور اور شاندار تاریخی یادوں کی کیف آور بہاریں لئے آتا ہے آج سے چند دنوں بعد پاکستانی قوم اپنی قومی وملی آزادی کی پُر مسرت خوشیاں منانے کی تیاریاں منانے جارہی ہے اور اِسی مبارک اور سعید مہینہ اگست کے شروع ہوتے ہی قوم کو الطاف حسین آخر کیا یہ کیسا گمراہ کن پیغام دینے لگے؟ یہ کیسابیہودہ ‘ ہرزہ سرائی پر مبنی الطاف حسین نے لندن سے خطاب کیا جس کے ذلیل و خوار اور بدترین مندرجات کو پاکستانی عوام کی ایک بڑی واضح اکثریت نے حرفِ غلط کی طر ح بالکل مسترد کردیا، ایک الطاف حسین پر ہی کیا منحصر؟ کراچی میں موجودہ 90 کی آج کی پوری کی پوری ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی الطاف حسین کا عکس ہے لندن میں بیٹھ کر الطاف حسین جو کہہ دیتا ہے، یہ سب کے سب رابطہ کمیٹی والے اُس کے من وعن جملوں کو ’آسمانی شریعت ‘
سمجھنے لگتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ قیامت میں ایک کا بوجھ کوئی دوسر ا نہیں اُٹھائے گا سب کو اپنے کہے ہوئے کا اور اپنے کیئے ہوئے کا جواب خود دینا ہوگا، یہ عجب تماشا ہے پاکستان کی سیاست میں ‘ ہر سیاسی قائد ین کے کہے ہوئے غلط‘ بوگس اور بے سروپا باتوں کا بوجھ اُن کے وفادار سیاسی ورکر اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھرتے اتراتے ہیں، پاکستان کی آئینی اتھارٹی کو جتنا الطاف حسین نے خوار کرنا تھا وہ اُس نے کیا اور رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے اور نکال دی 2 ؍ اگست کی شام وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جس کسی نے میڈیا پر کی جانے والی ہنگامی پریس کانفرنس دیکھی ہوگی پہلے لمحات میں رات گئے الطاف حسین کی تقریر پر جو سخت اور ترش لب ولہجہ چوہدری نثار نے اپنا یا تو ایک لمحہ کو یوں لگا جیسے حکومت آج ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بہت ہی اہم اور بڑا قدم اُٹھانے والی ہے، فوراً ہمارے فون کی گھنٹی بجنے لگی ہم سنا کہ شائد ایم کیو ایم پر پابندی لگنے والی ہے؟لیکن اچانک دورانِ پریس کانفرنس چوہدری نثار یہ کہتے سنائی دئیے کہ ’صرف ایک الطاف حسین ‘ باقی ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے کراچی اور حیدرآباد کے عوام اُس جماعت کے ووٹر ز ہیں باقی رابطہ کمیٹی جو چاہے فیصلہ کرئے ؟؟اِسے کہتے ہیں’ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘ چوہدری نثار کو یہ بات کہنے سے
قبل ذرا فاروق ستار ہی سے یہ پوچھ لیتے ‘ اسلام آباد میں موجود ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں لیتے اور اُن سے اُن کی رائے معلوم کرتے کہ ’’کیا وہ الطاف حسین کی رات والی تقریر میں ادا کیئے جانے والے الزامات سے اپنی براّت(علیحدگی ) کا اعلان کرتے ہیں یا وہ بھی الطاف حسین کی رات گئے کی جانے والی تقریر کو من وعن من حق پر مبنی سمجھتے ہیں ؟ تو جناب پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ،پہلی بات یہ تھی دوسری یہ کہ پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کرنے والی کوئی آئینی اتھارٹی ہے یا نہیں ؟ اتنا کچھ کہنے سننے کے باوجود بہت سے نجی ٹی وی والے اب تک الطاف حسین کی تصاویر کے خوشنما پہلوؤں کو اجاگر کررہے ہیں افسوس صدہا افسوس! چند برس پیشتر یاد ہو گا آپ کو کہ ایک ٹی وی اینکر پرسن پر کسی نے کراچی ائیر پورٹ پر حملہ کیا اُس وقت کیا ہوا تھا کیا قیامت ڈھائی گئی تھی ،آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ کی تصویر کے گرد اُن کے چہرہ کو ہدف بنا کر لال دائرہ لگائی گئی آٹھ گھنٹے تک اُن کی بار بار تصویر دکھائی جاتی رہی آج ایک متنازعہ سیاسی قائد کھلے عوام پاکستان کو لتاڑ رہا ہے افواجِ پاکستان پر پے درپے جھوٹے اور لغو الزامات عائد کررہا ہے آئینِ پاکستان کو چیلنج کررہا ہے ریاستِ پاکستان کی کھلے عام بدترین توہین کررہا ہے اُسے ہمارا یہ نجی میڈیا اب بھی اپنے پروگراموں میں جگہ دے رہا ہے؟ اُس کے حواریوں کے پو ائنٹ آف ویوو کو بھی برابر کی جگہ دی جارہی ہے؟ کیوں؟ کہاں ہیں کہا ں گئے آئینِ پاکستان کے تحفظ کا حلف اُٹھانے والے ہمارے حکمران جماعت اور حز بِ اختلاف کے اراکینِ اسمبلی ؟لگتا ہے جیسے اراکینِ اسمبلی کو سانپ سونگھ گیا ہے، آئینِ پاکستان کے سنہری اُصولوں کو جیسے دیمک چاٹ گئی ہے؟ قومی وقار اور قومی عزتِ نفس پر سیاسی مصلحتوں کی دھول اور گرد بہت زیادہ پڑ گئی ہے؟ ہماری موجودہ سیاسی حکومت نے غیر جانبداری کا آئینی ثبوت فراہم نہیں کیا ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے موجودہ سیاسی زعماء‘ قائدین اور اراکینِ اسمبلی’’ عساکرِ پاکستان‘‘ کے آئینی منفرد اعجاز سے اور اُس کی بیش قیمت خدمات پر کہیں نہ کہیں اپنے اندر متعصبانہ رشک وحسد ضرور رکھتے ہیں جبھی تو وہ کھل کر الطاف حسین کی جسارتوں پر جسارتیں برداشت کیئے چلے جارہے ہیں ایک مرتبہ پھر ہم آپ کو یہ یاد دلادیتے ہیں کہ’’ یہ ہوشمندی اور سنجیدگی کی سیاست نہیں بلکہ مستقلاً گمراہی کے اندھیرے کی جانب جانے والی سیاست کی کھائی ہے۔