Posted date: September 06, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
1965 کی جنگِ ستمبر میں پاکستان کی تینوں باقاعدہ عسکری سروسنز ‘پاکستان آرمی ‘ پاکستانی فضائیہ اور پاکستانی نیوی کے جواں ہمت اور نڈر افسروں اور جوانوں نے جتنی بہادری اور جس ناقابلِ شکست عزم کے مظاہرپیش کیئے آج50 برس گزرنے کے باوجود بحیثیتِ پاکستانی قوم کے ہمیں یوں لگتا ہے کہ 6 ؍ستمبر1965 کی جنگ جیسے کل کی بات ہوملکی فضائیہ اور ملکی آرمی کے ہم قدم ہمارے سمندورں کے محافظوں نے بھی جنگِ ستمبر میں وہ شاندار تاریخی جنگی معرکے سر کیئے جس سے بھارتیوں کے نخوت و تکبر کے بت پاش پاش ہوگئے جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت نے جب پہلی فرصت میں اپنی آرمی کو اور اپنی فضائیہ کو اِس جنگ کا حصہ بنایا تو اُس وقت کی ہماری عسکری قیادت کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ دشمن اب اپنی بحری قوت ضرور استعمال کرئے گا کوئی لاکھ بھلانے کی کوشش کرئے مگر جو معرکے تاریخ کا حصہ بنے اُن سے کیسے مکرا جاسکتا ہے 8 ؍ستمبر1965 کو ’دوارکا‘کی تباہی کو بھارتی نیوی کبھی نہیں بھلا سکتی ’دوارکا‘ بھارت کی انتہائی اہم فوجی بندر گاہ تھی جس کو پاکستانی بحریہ کے دو جنگی جہازوں’جعفر‘ اور ’منصور‘ نے اپنی بے پناہ سمندری جنگی مہارت کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو عملاً بروئےِ کار لاتے ہوئے نیست ونابود کرکے رکھ دیا پاکستانی پانی کے راستوں کو محدود کرنے کی دشمن کی ناپاک سازش سمندر برد کردی بھارتی نیوی کے مکروہ عزائم خاک میں مل گئے اور جنگِ ستمبر کا یہ جارح ملک بھارت انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ وہ خود اِس میں گرسکتے ہیں جنگِ ستمبر میں بھارت کے ساتھ ایسا ہی بہیمانہ واقعہ رونما ہوانہ اُس کی زمینی جارحیت اُس کے کچھ کام آئی نہ فضائی جھڑپوں نے اُسے کہیں کا رہنے دیا، رہی سہی کسر 8 ؍ستمبر1965 کو پاکستانی بحریہ نے اور نکال دی، اصل میں 6 ؍ستمبر 1965 کو بھارتی زمینی فوج نے جب لاہور کی بین الاقوامی سرحدوں پر ریاکارانہ عزائم کے نشے میں مست ہوکر حملہ کیا تو اُس کے چند گھنٹوں کے اندر اندر پاکستانی نیوی کے بیڑے بھی اپنے کیل کانٹوں سے لیس ہوکر سمندر میں اتر کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لئے دشمن کو تباہی وبربادی سے دوچار کرنے کے لئے بڑے بے چین تھے ‘یاد رہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ‘عسکری ماہرین کے نزدیک موقر ترین تجزیہ یہ ہی ہے کہ سمندری بیڑے کی ترتیب و تنظیم نہایت پیچیدہ ہوتی ہے ایک مختصر سی جگہ میں جنگی سازوسامان ‘بجلی اور الیکٹرونک کے آلات کو سمانا پڑتا ہے چنانچہ اتنے نازک مرحلے میں ہمارے سمندی بیڑے کا یکدم تیار ہوکر سمندر میں اتر آنا ہمارے بحری منصوبہ سازوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کی اعلیٰ فنی مہارت اور جنگی بصیرت کی تاریخی شہادت پیش کرتا ہے اِسی فنی مہارت اور حربی سوجھ بوجھ نے پاکستانی سمندری بیڑے کو اِس قدر چاق وچوبند بنادیا کہ وہ ہر بھارتی آفت کا جھپٹ کر مقابلہ کرسکتا تھا، یوں ہر فریقِ مخالف کی موج سے ٹکرانے کے لئے پاکستانی بیڑا ’نہگِ اجل‘ کی صورت اختیار کرچکا تھا 1965 کی جنگِ ستمبر پر اپنی غیر جانبدارانہ تجزیاتی گہری نظر رکھنے والے غیر ملکی صحافیوں کے مطابق پاکستانی بحری بیڑا شروع دن سے بھارت کے ساتھ سمندر میں دوبدو مقابلہ کرنے کے لئے بالکل تیار دکھائی دیا، پاکستانی جنگی جہاز پاکستانی سمندر میں موجوں پر سوار پانی کو فلک شگاف اُچھالتے ہوئے اپنی معمول کی تربیت میں مشغول تھے ہمہ وقت اُنہیں اِسی حالت میں دیکھا گیا اگرچہ دشمن کی سمندی طاقت اُس وقت پاکستان سے پانچ گنا زیادہ تھی مگر اِس کے باوجود بھارتی نیوی اپنی بحری پناہ گاہوں سے باہر آنے کی جسارت نہ کرسکا ،6 ؍ستمبر کو پاکستانی آرمی کی پہلی خوفناک ضرب نے بھارتی سروسنز میں خوف کی ایک لہر پیدا کردی تھی عین ممکن ہے کہ خوف کی اِسی ممکنہ وجوہ نے بھارتی نیوی کو بھی اپنے حصار میں لے لیا ہو عالمی عسکری تجزیہ کہنا ہے کہ جنگِ ستمبر کے شروع میں بھارت کے اکثر بحری جہاز مرمت کی گودیوں میں رہے یا پھر بندرگاہوں کی مرمت میں لگے رہے بھارتی بحریہ کی اِس بے عملی پر اُس وقت بھی لوک سبھا میں پُرزور احتجاج کیا گیا اور ایک ممبر نے یہ پوچھ ’جب پاکستانی بحریہ ’دوراکا ‘ پر تابڑ توڑ گولے برسا رہی تھی تو بھارتی سمندری بیڑا کہا ں چلا گیا تھا ؟‘‘بھارتی فوجی بندرگاہ’’ دوراکا‘‘ کی تباہی کی سچائی یہ ہے کہ کراچی سے 210 میل دور خلیجِ کچھ میں ’دوارکا‘کا مضبوط ساحلی قلعہ جنگی اہمیت کا حامل رہا جہاں پر بھارت نے کراچی کے حساس ساحلی علاقوں کی نگرانی کے لئے زبردست قسم کے ریڈار نصب کررکھے تھے کراچی اور سندھ کے ساحلی علاقوں کی نقل وحرکت کی خفیہ معلومات کا یہ واحد ذریعہ بھارتی مفادات کے لئے بڑی خصوصی افادیت رکھتا تھا یہ پاکستانی بحریہ کے لئے ایک سنہری موقع تھا جسے کسی قیمت پر ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا جنگِ ستمبر بالا آخر پاکستانی بحریہ کو یہ موقع فراہم کیا پاک بحریہ نے کوئی لمحہ ضائع کیئے بغیر ’دوارکا‘ کے اِس ساحلی خفیہ اڈّے کو نشانہ بنانے کا ارادہ کیا 7 اور8 ؍ستمبر1965 کی درمیانی شب کو جونہی پاکستانی نیوی کے بحری یونٹ’دوارکا‘ کے ساحل کی طرف لپکے پاکستانی ملاحوں کے دلوں میں گرمی وحرارت کی لہر دوڑ گئی کوئی بھی اپنے جذبات پر نہ قابو پاسکا وطن کی محبت کے احساس و شعور میں اتنی تیزی اور جراّت پیدا ہوگئی کہ دشمن کو اُسی کے سمندر میں جاکر مزا چکھانے کی امنگ مزید بے تابانہ انگڑائیاں لینے لگی پاکستانی نیوی کے جوانوں اورافسروں کا یہ جذبہ اتنی شدید صورت اختیار کرگیا کہ ہمارے نیوی کے جوانوں نے اِس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ بھارتی شہر ’جام نگر ‘ قریب ہے وہاں سے ہوائی حملے کا خدشہ ہوسکتا ہے یا اُن کی ساحلی توپوں کا رخ اُن کی طرف آسکتا ہے پاکستانی عزم استقلال کے پیکر ہمارے ملاح ٹھوس اعتماد سے آگے بڑھے اور عین ’دوارکا‘ کے قریب پہنچ کر اپنی توپوں کے دہانے کھول کر ’دوارکا‘ پر آگ برسانی شروع کردی دیکھتے ہی دیکھتے ’دوارکا ‘ کی ساحلی خفیہ کمیں گاہ تباہ ہوگی اِسی دوران بھارتی ساحلی شہر جام نگر سے آنے والے تین بھارتی طیاروں کو بھی سمندر میں مارگرایااور بھارتی پوائنٹ آف ویوو سے اُس کا ایک بہت ہی قیمتی فر ی گیٹ کو غرقاب کیا، تین تجارتی جہاذوں کو اپنے حصار میں لے لیا پاکستانی بحریہ کی اِس شاندار کامیابی کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ یہ کہ بھارت جارح تھا جس نے بلا وجہ اور بغیر کسی اشتعال کے یہ جنگ پاکستا ن پر مسلط کی تھی پاکستان پر حق تھااُس وقت پاکستان کے دس کروڑ عوام اپنے ملک کے افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے جن کی دعائیں پاکستان کی سلامتی وتحفظ کے لئے تھیں دنیا نے بالا آخر 1965 میں ہی یہ تسلیم کرلیا تھا جنہوں نے اپنے تجزیوں اور تبصروں میں پاکستانی آرمی ‘ پاکستانی فضائیہ اور پاکستانی بحریہ کی عسکری کارکردگی پر شاندار الفاظ میں تحسین وستائش سے ہمیشہ یاد کیا ہے پاکستان کے ایک نامور معروف شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے ’’فرماں روائےِ بحرِ عرب پاک بحریہ۔ بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ‘