مسئلہ آف شور یا آن شورکمپنیوں کا نہیں
آرمی چیف نے بیان دیا کہ جب تک ملک سے کرپشن ختم نہ ہو جائے دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اس سلسلے میں ہونے والی ہر سنجیدہ کوشش میں فوج حکومت کا ساتھ دے گی اور تعاون کرے گی۔ آرمی چیف کے بیان کے بعد حسب معمول ملک میں شدید ترین ارتعا ش پیدا ہوا جہاں ایک طرف اس عزم کا خیر مقدم کیا گیا تو دوسری طرف اعتراض کرنے والے بھی میدان میں آگئے اور کہا گیا کہ آرمی چیف کیسے اس طرح کا بیان دے رہے ہیں اور کیا یہ اُن کا مینڈیٹ ہے یا نہیں کہ وہ ایسے بیانات دیں پھر یہ بھی کہا گیا کہ ان کا رویہ فوج میں کرپشن کے بارے میں کیا ہوگا۔ آرمی چیف کا یہ بیان عام حالات میں تو عام لیا جاتا لیکن اس سے پہلے پانامہ لیکس میں شامل ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ناموں اور ان کی آف شور کمپنیوں نے انہیں پریشان کیا ہوا تھا اور انہیں چیف کے بیان کے دوسرے اور تیسرے معنی نظر آنے لگے جو دراصل اس بیان کے معنی نہیں تھے بلکہ خود ان کے دل میں بیٹھے چوروں کے بیانات اور خیالات تھے۔ پانامہ لیکس میں آف شور کمپنیوں کا انکشاف کچھ ایسا نیا بھی نہیں تھا بات وہی پرانی تھی نام نیا دیا گیا اور پاکستان کے عام آدمی کو کرپشن کی ایک اور قسم سے مکمل آگاہی حاصل ہوئی اور معلوم ہوگیا کہ اُن کے حکمران کیسے کیسے اور کن کن طریقوں سے ان کی دولت اپنی آنے والی سات پشتوں کے لیے سنبھال کر رکھ رہے ہیں چاہے آج ان کے عوام بھوکوں مریں یا ننگے رہیں اُن کو اِس سے کوئی غرض نہیں، ان کے خزانوں کے حجم میں روز افزوں اضافہ اُن کی تسلی کا باعث ہے وہ سب جانتے ہیں کہ ان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ کیسے اور کیوں کر ہو رہا ہے اور اسی لیے جب آرمی چیف نے یہ بات کی تو ہر ایک کو اس آئینے میں اپنا آپ نظر آیا اور اسی لیے ان کو اعتراض بھی ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ فوج میں بھی احتساب ہونا چاہیے بالکل ایسا ہی ہے اگر کسی ایک ادارے کو بھی احتساب اور سوال و جواب سے مثتثنٰی قرار دے دیا گیا چاہے تو بد عنوانی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ فوج ہو، پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ یا کوئی اور ادارہ ہر ایک کو عوام کی عدالت میں جوابدہ ہونا چاہیے اور ان کو کڑے احتساب سے گزرنا چاہیے کسی کو معافی نہیں ملنی چاہیے تا کہ ملک سے اس کلچر کا خاتمہ ہو آرمی چیف نے یہی کیا اپنے کہے پر عمل کر کے دکھا یا اور سب سے پہلے اپنے ہی ادارے سے ابتدا ء کرتے ہوئے اپنے دو جرنیلوں سمیت چھ افسران کو کرپشن ثابت ہونے پر فارغ کر دیا۔ مسئلہ فوجی یا غیر فوجی کا نہیں مسئلہ عملی اقدامات اٹھانے کا ہے جس کے بغیر ہمارے معاشرے کے بہت سارے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور یقیناًاُن میں دہشت گردی بھی شامل ہے اسی کرپشن نے معاشرے میں ایک ایسا طبقہء پیدا کیا جو جب میرٹ پر بھی روز گار حاصل نہیں کر پاتا تو وہ دہشت گردوں کے ہتھے بڑی آسانی سے چڑھ جاتا ہے میں پہلے بھی کئی بار اس بات کی نشاندہی کر چکی ہوں اور ملکی حالات پر نظر رکھنے والے طبقے کی بھی یہی رائے ہے۔ صرف یہی نہیں کرپشن نے اس معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے جہاں اس چیز کو اب کوئی برائی تصور ہی نہیں کرتا اپنی کرپشن کے لیے سو سو تو جیہات تلاش کرتا ہے اور اسے جائز اور اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ رویہ اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اور نیچے سے اوپر کی طرف جاتا ہے اور اس کی مقدار اور وسعت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ۔ اس عفریت نے ہمارے قومی نظام کو درہم برہم کیا ہوا ہے سڑکیں اور پل انسانی جانوں کو لیکر اسی کی وجہ سے بیٹھ جاتے ہیں،تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو اس نے ہلایا ہوا ہے، بجلی پانی اس کے ہاتھوں بے ربط ہے ،یہاں تک کہ ہسپتال جیسی حساس جگہ بھی اِس کے وار سے نہیں بچی ہوئی چاہے کوئی کچھ کہے سب اِس گنگامیں ہاتھ دھو رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سوائے اُسکے کوئی ایماندار نہیں جبکہ سب سے زیادہ کرپشن وہ خود کر رہا ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سروے ہوتے ہیں سب سے زیادہ بد عنوان ملکوں کی فہرست میں پاکستان سر فہرست چند ملکوں میں شامل ہوتا ہے لیکن اس کی پرواہ کسی کو نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ختم کیا جائے۔مسئلہ آف شور یا آن شورکمپنیوں کا نہیں مسئلہ اُس ذہنیت کاہے جو قومی دولت اور وسائل کواپنے ذاتی مفادکے لئے استعمال کرتی ہے اور یہ لوگ اس پر اپنا اس طرح حق سمجھتے ہیں گویا یہ ان کی ملکیت ہو اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس سوچ کا خاتمہ نہ ہو اور ساتھ ہی بلا تخصیص ہر بدعنوان اہلکار کے خلاف سخت کاروائی نہ ہو چاہے وہ اعلیٰ افسران ہوں یا ماتحت طبقہ بد عنوانی سے پاک معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ بلا خوف سخت کاروائی صرف تب ہی کی جاسکتی ہے جب کاروائی کرنے والے کے اپنے ہاتھ صاف ہوں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے ہی ناموں کے ساتھ بد عنوانی کی طویل فہرستیں اورنت نئے انداز وابستہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سخت کاروائی سے ہچکچاتے ہیں بلکہ ایسی کسی کاروائی پر آمادہ ہی نہیں ہوتے جس میں کسی بڑی مچھلی کو پکڑاجاسکے کیونکہ ان تمام کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔لیکن اب عوام کو خود آگے بڑھ کر اپنا مقدمہ لڑنا چاہیے اور یہ مقدمہ بالائی سے لے کر زریں سطح تک اور اس سے آگے بڑھ کر اپنی ذات تک ہو اور جب اپنی اپنی ذات کو درست کر لیا جائے تو پورا پاکستان درست ہو جائے گا ورنہ یہ باری باری کے حکمران سیاست دان اپنی ذات کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوتے رہیں گے اور نہ تو سوئسں بنکوں کا مسلۂ حل ہو سکے گا اور نہ ہی آف شور کمپنیوں کا۔