پانی ذخیرہ کرنا ہو گا ورنہ۔۔۔
نغمہ حبیب
موسموں کے غیر معمولی تغیر و تبدل نے دنیا کے طبعی حالات پر ہمیشہ اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور پھر ان طبعی حالات نے انسانی زندگی پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اُس نے اسی پانی کے کنارے فصلیں اگائیں ، آباد یاں بسائیں، تہذیبوں نے اسی کے کنارے اپنے خدوخال وضع کیے، ایسا ازل سے ہور ہا ہے اور نہ صرف آج تک جاری ہے بلکہ مستقبل میں تو اسی پانی کے حصول کے لیے جنگوں کی پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں اور حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اِن پیشں گوئیوں کے پورے ہونے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ ممالک جہاں پانی کی کمی ہے وہاں زندگی مشکل نہیں اجیرن ہے نہ پینے کو پانی پورا ،نہ کھانے کو خوراک کافی وہاں زندگی ہے ہی نہیں یا سِسک سِسک کر گزاری جا رہی ہے اور ختم ہو رہی ہے۔ دنیا میں قدرتی طور پر پانی کی تقسیم نا ہموار ہے، اسی لیے کہیں صحرا ہیں اور کہیں لہلہاتی فصلیں۔ پاکستان اُن ملکوں میں سے ہے جس میں اگرچہ سارا سال بارش نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار تو کم ہے لیکن اللہ نے اس کو دریاؤں کی نعمت سے نوازا ہوا ہے اس کے شمالی پہاڑوں پر عظیم گلیشئرز کی صورت میں بھی پانی کے ذخائر موجود ہیں، مون سون کی بارشیں بھی وافر مقدار میں ہو جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں اور اس خطرے سے شدید طور پر دوچار ممالک میں شامل ہیں۔ ہماری بدقسمتی دو طرح سے ہے ایک تو ہمارا پڑوسی بھارت ہے جس نے بقول قائداعظم ہماری شہ رگ یعنی کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے جہاں ہمارے بڑے بڑے دریاؤں کے منبے ہیں جب وہ چاہتا ہے جس دریا کا چاہتا ہے پانی روک دیتا ہے اور جب چا ہتا ہے سیلابی ریلا ہماری طرف چھوڑ دیتا ہے جو تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور ہماری دوسری بد قسمتی یہی ہے کہ ہم بارشوں اور سیلاب کے پانی کو صرف تباہی مچانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہی نہیں ہیں۔ ہمارے دشمن نے پانی کو ایک بڑے ہتھیار کے طور پر ہمارے خلاف استعمال کیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس نے یہ ہتھیار پاکستان بنتے ہی چلانا شروع کر دیا تھا اور اب بھی پانی کی تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کی تمام شرائط کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر کہیں وہ ڈیم بنا کر ان کا پانی روک رہا ہے اور کہیں دریاؤں کے رخ موڑ رہا ہے۔ پہلے اُس نے کشن گنگا کے لیے دریائے جہلم کا پانی موڑا اور اب اُس کے شدت پسند وزیراعظم نے چناب کا پانی بیاس کی طرف موڑنے کا حکم دیا ہے یوں پاکستان کو خدانخواستہ صومالیہ اور ایتھوپیا بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ دشمن تو بڑی تند ہی سے کام کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں کیا ہم نے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے یا ہم غیر ارادی طور پر ہی سہی دشمن کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے یا کوتا ہی کہ ہم دستیاب پانی کا درست استعمال نہیں کر رہے ۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر پائے اور نہ ہی ایسے منصوبوں کا نعم البدل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی اس وقت 950 مکعب میٹر ہے یہی اعداد و شمار 1951 میں 5500 مکعب میٹر تھے اور اگر یہ تناسب اسی طرح کم ہوتا رہا تو ہماری صورت حال خطرناک حد تک گھمبیر ہو سکتی ہے ۔ تمام ماہرین یہ پیشن گوئیاں کر رہے ہیں لیکن بات اس سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات تک پہنچ جانی چاہیے اگر صورت حال کو قابو کرنے کی کوشش ابھی سے نہ کی گئی تو پیش آمدہ مسائل سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا ۔ اس وقت متنازعہ منصوبوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے پانی کے مزید ذخائر بنانے ہو ں گے۔ ہمارے پاس قدرتی طور پر بے شمار مقامات موجود ہیں جن کو بڑی آسانی سے ڈیم بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ان میں سے بہت سے بجلی اور پانی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں لیکن ہم ہر سال 30 ملین ایکڑ فٹ پانی بغیر استعمال کیے سمندر میں پھینک دیتے ہیں ۔پانی کے بہتر استعمال اور صوبوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کے منصوبوں پر بھی عمل در آمد نہیں کیا جا رہا جو زرخیز زمینوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف ٹھٹھہ میں 2.2 ملین ایکڑ زمین سمندری پانی کی نظر ہو چکی ہے۔ سندھ میں کوٹری بیراج سے ضرورت سے کم پانی کے اخراج نے بھی وسیع رقبے کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اگر بارشوں کے موسم میں تباہی مچاتے سیلابی پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کیا جا سکتا تو نہ صرف یہ کہ جانی و مالی نقصان کو روکا جا سکتا، غذائی خود کفالت حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ ہم اپنی زرخیز زمینوں کی پیدا وار سے زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس وقت جب دنیا پائیدار ترقی اور مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبے بنا رہی ہے پڑوسی ملک ہمارے دریاؤں پر ڈاکے ڈال ڈال کر آبی ذخائر بنا رہا ہے نہ صرف ہماری بلکہ نیپال اور بنگلہ دیش کی بھی مخالفت مول کر اُن کا پانی بھی روک دیا ہے ہم اپنے کچھ منصوبوں کو متنازعہ بنا کر نا قابل عمل بنا رہے ہیں اور نہ ہی نئے ذخائر کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہمارے پانی کے محفوظ ذخائر یعنی ہمالیائی گلیشئر پگھل پگھل کر ضائع ہو رہے ہیں اور ہر سال ان کا حجم 30 سے 50 میٹر کم ہو رہا ہے۔ آنے والی نسلوں کا حق ہمارے آج کے سیاستدان اور حکمران ما رہے ہیں اور پھر بھی خود کو عظیم رہنما سمجھتے ہیں ۔ ہم موجود پانی کو بھی اُس طرح استعمال نہیں کر رہے جیسا کرنا چاہیے ہماری کچی نہریں پختہ نہیں کی جا رہی جس سے پانی بجائے کھیتوں میں اپنی منزل تک پہنچنے کے راستے میں ہی جذب ہو کر شور زدہ زمینوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ مسائل جن کا میں نے ذکر کیا ہے ایسے نہیں ہیں جن کی اس سے پہلے نشان دہی نہ کی گئی ہو یا یہ کسی کو معلوم نہ ہوں لیکن سب آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ مبادا آنکھ کھلے تو کہیں ضمیر نہ جاگ اٹھے۔ ہم اگر اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کر دیں اور اپنے ملک کے ان حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں سیاسی دھینگا مثتنی ختم کر دیں اور اپنی توانائیاں اپنی ترقی پر صرف کریں تو پاکستان دنیا میں نہ صرف اپنی جگہ بنالے گا بلکہ ایک اہم مقام حاصل کر سکے گا کیونکہ اللہ نے تو اس کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان نعمتوں کے استعمال کے لیے کیسی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ہاں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو یہ یاد دلا دوں کہ زمین اس لیے زندہ سیارہ کہلاتا ہے کہ اس پر پانی موجود ہے پانی نہ ہوتا تو زندگی نہ ہوتی یہی حال پھر زمین کا ہے کہ جہاں پانی ہے زندگی ہے جہاں پانی نہیں وہاں زندگی نہیں لہٰذا اپنے ملک کو صومالیہ اور ایتھوپیا بننے سے روکنے کے لیے ہمیں عملی اقدامات اٹھانا ہونگے اور جلد اٹھانا ہونگے ورنہ خدانخواستہ دس بیس سال بعد ہمیں یہ موقع بھی میسر نہ آسکے گا ۔