اجیت دوول بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں‘ یہ نریندر مودی کے انتہائی قریب ہیں اور یہ اپنے جارحانہ انٹیلی جنس آپریشنز کی وجہ سے انڈین جیمز بانڈ کہلاتے ہیں‘بھارت میں گولڈن ٹمپل آپریشن ہو‘ درگاہ حضرت بل کا ایشو ہو‘ سری نگر سے غیر ملکی سیاحوں کا اغواء ہو یا پھر ائیر انڈیا کے طیارے کی ہائی جیکنگ ہو اجیت دوول نے ہر بڑے آپریشن میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ بھارتی ایجنٹ کی حیثیت سے سات سال پاکستان میں بھی رہے‘ یہ بیس سال سے بلوچستان اور سندھ میں پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ یہ پاکستان کو ’’مصروف‘‘ رکھنے کے لیے ’’بلوچستان میں مسائل پیدا کریں‘‘ جیسی فلاسفی کے بانی بھی ہیں‘ یہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطے میں بھی ہیں‘ کلبھوشن یادیو اس اجیت دوول کا رشتہ دار ہے‘ کلبھوشن پولیس افسروں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ اس کا والد سدھیر یادیو ممبئی پولیس کا کمشنر رہا جب کہ چچا سبھاش یادیو باندرا پولیس اسٹیشن کا انچارج تھا۔
یہ لوگ ممبئی کے مضافات میں پودائی میں رہتے ہیں‘ کلبھوشن نے 1987ء میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی جوائن کی اور یہ 1991ء میں انڈین نیوی کا حصہ بن گیا‘ یہ ترقی کرتا ہوا نیوی میں کمانڈر بن گیا‘ یہ عہدہ لیفٹیننٹ کرنل کے برابر ہوتا ہے‘ 13 دسمبر2001ء کو انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا‘ کلبوشن یادیو نے اس حملے کے بعد ’’را‘‘ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ عارضی طور پر نیوی سے ’’را‘‘ میں شفٹ ہو گیا‘ یہ اب بیک وقت را اور نیوی دونوں کا ملازم تھا‘ اجیت دوول اس زمانے میں انڈین انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر تھے‘ یہ بلوچستان اور کراچی پر کام کر رہے تھے۔
اجیت دوول نے کلبھوشن یادیو کو ’’بلوچستان ونگ‘‘ میں بھجوا دیا‘اس نے دو سال ٹریننگ لی‘ فارسی اور بلوچی زبان سیکھی‘ حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے پونا سے پاسپورٹ بنوایا اور یہ ایران کے ساحلی شہر ’’چاہ بہار‘‘ آ گیا‘ کلبھوشن نے چاہ بہار میں کارگو کمپنی کھول لی‘ یہ چاہ بہار کیوں آیا تھا یہ وجہ کم دلچسپ نہیں‘ چاہ بہار میں دراصل بھارت نے اپنا انٹیلی جنس بیس قائم کر رکھا ہے‘ یہ دفتر بھارت نے ایران کی باقاعدہ اجازت سے بنایا‘ چاہ بہار گوادر سے متصل ساحلی شہر ہے‘ را یہاں بیٹھ کر گوادر اور اقتصادی راہداری کو آسانی سے نشانہ بنا سکتی ہے‘ یہ بیس اس لیے چاہ بہار میں بنایا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کلبھوشن جب اصل نام سے ایران جا سکتا تھا تو یہ جعلی نام سے چاہ بہار کیوں آیا؟یہ وجہ بھی کم دلچسپ نہیں‘ بھارت دراصل کلبھوشن یادیو کی کارروائیوں کو ایران سے بھی خفیہ رکھنا چاہتا تھا چنانچہ یہ حسین مبارک کی شناخت سے تاجر بن کر وہاں پہنچ گیا‘ کلبھوشن 2004ء اور 2005ء میں کراچی بھی آیا اور یہاں بھی اس نے اپنے رابطے استوار کیے‘ یہ ترقی کرتا کرتا پاکستان آپریشن کا سربراہ بن گیا۔
بھارت نے اسے چار سو ملین ڈالر (یہ رقم پاکستانی روپوں میں 41ارب روپے بنتی ہے) دیے‘ کلبھوشن نے یہ رقم بلوچ علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بدامنی پھیلانے والے گروپوں میں تقسیم کی‘ یہ حربیار مری‘ براہمداغ بگٹی اور عزیر بلوچ جیسے لوگوں سے بھی رابطے میں تھا اور یہ ایم کیو ایم (پرانی) کے لوگوں کو بھی فنڈز دیتا تھا۔
پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچستان اور کراچی آپریشن کے دوران حسین مبارک پٹیل تک پہنچے‘ پاکستان کو پتہ چلا بلوچستان کے علیحدگی پسند ہوں‘ کراچی کے مافیاز ہوں یا پھر ملک میں خودکش حملہ آوروں کے ماسٹر مائینڈ ہوں یہ تمام لوگ آخر میں چاہ بہار سے آپریٹ ہوتے ہیں‘ حسین مبارک اس دوران جب انڈیا جاتا تھا تو یہ وہاں سے بھی اپنے کارندوں کو پیغام دیتا تھا‘کلبھوشن کی بھارتی لوکیشن بھی ہمارے اداروں کے نوٹس میں آتی رہی یوں یہ شخص آہستہ آہستہ پاکستانی ایجنسیوں کے سامنے کھلتا چلا گیا یہاں تک کہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان نے اسے پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ ایک مشکل ٹاسک تھا‘ کلبھوشن عام جاسوس نہیں تھا‘ یہ پاکستان آپریشن کا سربراہ تھا‘ یہ ’’فیلڈ آپریٹر‘‘ تھا اور دنیا میں آج تک کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اتنے بڑے انٹیلی جنس آفیسر کو نہیں پکڑ سکا لیکن ہمارے اداروں نے یہ تاریخ بدل دی‘ آئی ایس آئی کے لوگوں کو کلبھوشن یادیو کو پاکستان لانے میں ڈیڑھ سال لگ گیا‘ ادارے نے اس عرصے میں بلوچ علیحدگی پسندوں میں اپنے لوگ ڈویلپ کیے‘ یہ لوگ آہستہ آہستہ حسین مبارک سے براہ راست رابطے میں آئے اور آخر میں ان لوگوں نے اسے پاکستان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے اغواء اور قتل کا ایک ’’فول پروف‘‘ منصوبہ پیش کر دیا۔
یہ منصوبہ اس قدر اعلیٰ تھا کہ حسین مبارک پٹیل پاکستان آنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ اجیت دوول کے روکنے پر بھی نہ رکا اور یہ تین مارچ 2016ء کو ایران سرحد کراس کر کے پاکستان آ گیا‘ یہ بلوچستان کے ضلع خاران کی تحصیل ماشکیل آیا اور گرفتار ہو گیا‘ کلبھوشن کے پاس گرفتاری کے بعد دو آپشن تھے‘ یہ حسین مبارک پٹیل کی شناخت پر ڈٹا رہتا‘ ٹارچر سہتا اور اس دوران دنیا سے گزر جاتا یا پھر یہ خود کو فوج کا حاضر سروس آفیسر ڈکلیئر کرتا اور قانون کے مطابق مراعات حاصل کرتا‘ کلبھوشن سمجھ دار تھا‘ اس نے دوسرا آپشن لے لیا‘ اس نے اپنی شناخت کھول دی یوں پاکستان اسے جنگی مجرم کا اسٹیٹس دینے اور اسے حاضر سروس آفیسر کی تمام مراعات دینے پر مجبور ہوگیا۔
کلبھوشن یادیو نے اچھا بچہ بن کر اپنے سارے رابطے پاکستان کے حوالے کر دیے‘ اس کی اطلاعات پر ملک کے مختلف حصوں سے چار سو لوگ گرفتار ہوئے‘ اسلحے کی بھاری کھیپ بھی برآمد ہوئی اور ایم کیو ایم اور پیپلز امن کمیٹی میں چھپے ملک دشمن عناصر بھی سامنے آ گئے‘ کلبھوشن را کے 13 اہم لوگوں سے بھی رابطے میں تھا‘ یہ ان سے براہ راست احکامات لیتا تھا‘ یہ لوگ بھی سامنے آ گئے۔
تفتیش کے دوران کلبھوشن سے ان لوگوں کو فون بھی کرائے گئے اور ان کی گفتگو بھی ریکارڈ کی گئی‘ پاکستانی مجرموں نے بھی کلبھوشن سے رابطوں‘ فنڈز‘ اسلحہ اور مختلف آپریشنز کا اعتراف کرلیا‘ پاک فوج نے آرمی ایکٹ 1923ء کے تحت کلبھوشن کا فیلڈجنرل کورٹ مارشل کیا اور اسے 10 اپریل کو سزائے موت سنا دی۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور سزائے موت کے بعد بھارت خوفناک مسائل میں الجھ گیا‘ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد 1373 کے تحت کسی دوسرے ملک میں ریاستی دہشت گردی خوفناک جرم ہے‘ پاکستان کلبھوشن کے اعترافات اور ثبوت سیکیورٹی کونسل میں لے جائے گا جس کے بعد بھارت کے لیے جواب دینا مشکل ہو جائے گا‘ کلبھوشن کی کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں کے لواحقین بھی بھارت کے خلاف عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں‘ یہ مرحلہ بھی بھارت کے لیے مشکل ہو گا۔
بھارت کو کلبھوشن یادیو کا کیس لڑنے کے لیے اسے سرکاری ملازم تسلیم کرنا ہوگا‘ بھارت کا یہ قدم اسے مزید سفارتی مسائل میں الجھا دے گا‘ بھارت میں ’’را‘‘ کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت ہے‘ لوک سبھا میں جس دن کسی رکن نے کلبھوشن کی فنڈنگ کا سوال اٹھا دیا کیبنٹ ڈویژن اس دن ان چار سو ملین ڈالرز کے آڈٹ پر مجبور ہو جائے گی جو کلبھوشن یادیو نے چاہ بہار میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف استعمال کیے تھے‘ یہ آڈٹ بھارت کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
بھارت میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اجیت دوول نے کس قانون کے تحت اپنے ایک عزیز کو ’’پاکستان آپریشن‘‘ کا سربراہ بنایا اور اسے کس قاعدے کے تحت چار سو ملین ڈالر خرچ کرنے کی اجازت دی؟ بھارت میں را کی اہلیت پر بھی سوال اٹھے گاکیونکہ جس ملک کا ڈائریکٹر جنرل لیول کا افسر نہ صرف دوسرے ملک کے اندر سے گرفتار ہو جائے بلکہ وہ چند گھنٹوں میں اپنے پورے ادارے کی تمام خفیہ معلومات بھی دوسرے ملک کے حوالے کر دے اس ملک کے خفیہ ادارے کی کیا عزت بچتی ہے اور یہ بھی پوچھا جائے گا بھارت نے چاہ بہار میں را کا بیس کیوں بنا رکھا ہے؟
بھارتی حکومت کو ان سارے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے اور بھارت جوں جوں ان سوالوں کے جواب دیتا جائے گا پاکستان کا کیس مضبوط ہوتا جائے گا‘ دنیا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی بھارت پاکستان میں دہشت گردی بھی کرا رہا تھا اور ملک کو توڑنے کی سازش بھی‘ کلبھوشن یادیو نے پاکستان کو خوفناک نقصان پہنچایا‘ یہ ہمارے ہزاروں لوگوں کا قاتل ہے لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا محسن بھی ثابت ہوا‘ پاکستان اس کی گرفتاری سے مضبوط ہوا۔
کراچی میں امن‘ ایم کیو ایم کے تین حصے اور پیپلز امن کمیٹی کا زوال یہ کلبھوشن کی گرفتاری کا نتیجہ ہے‘ یہ اس کی فراہم کردہ معلومات تھیں جس نے کراچی کے حالات بہتر بنائے‘ بلوچستان میں بھی امن ہو رہا ہے‘ فراری بھی ہتھیار پھینک رہے ہیں‘ یہ بھی اس کی معلومات کا کمال ہے‘کلبھوشن یادیو کی وجہ سے خطے میں ایران کا کردار بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے‘ پہلے یہ ایران سے پاکستان آیا اور گرفتار ہوا اور بعد ازاں تحریک طالبان کے امیر ملا منصور ایران سے واپس آتے ہوئے ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے اور ان دونوں سے پہلے اسامہ بن لادن کی اہلیہ ایران میں مقیم رہی‘ وہ ایران سے پاکستان آئی اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔
ہمیں ان تمام واقعات کا تجزیہ کر کے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا‘ ایران ہمیں جنرل راحیل شریف اور اسلامی دنیا کی مشترکہ فوج پر ڈکٹیشن دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن دوسری طرف یہ پاکستان کے دشمنوں کو پناہ بھی دے رہا ہے اور انھیں سفارتی اور زمینی سہولتیں بھی فراہم کر رہا ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے‘ یہ کہاں کی دوستی ہے اور یہ کہاں کی ہمسائیگی ہے لہٰذا ہمیں اب ایران کو بھی سخت جواب دینا ہو گا‘