Posted date: November 25, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
قوموں کا مستقبل اُس کی درسگاہوں اور کمرۂ جماعت میں بنتا ہے یا خدا نخواستہ بگڑ تا ہے اگر بنیادوں کی تعمیر میں معمولی بھی کجی ہو تو پور ی عمارت کو گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ یہاں معمار کی مہارت اور اپنے کام کی سمجھ بوجھ انتہائی ضروری ہے اور تعلیم و تعلم کے معا ملے میں یہ معمار استاد ہیں اور عمارت وہ طالب علم جو اُس کے سامنے بیٹھا ہے ہاں عمارت کے انجینئر یعنی نصاب سازوں کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیں۔ والدین بھی اس تکون کے ایک سرے پر بیٹھ کر اس سارے عمل کا اہم ترین حصہ ہیں یہی درسگاہیں ہیں جہاں نسلوں کی تربیت ہوتی ہے یعنی اگر یہ جگہ درست ہے تو سب ٹھیک ہے۔ قارئین حالیہ برسوں میں دہشت گردی نے جہاں ہمارے معاشرے کی دیگر اکائیوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے وہیں ہماری درسگاہیں بھی اس کی زد میں آئیں چاہے مدرسے ہیں یا جدید تعلیمی ادارے سب اس سے کم یا زیادہ متاثر ہوئے۔ مدارس میں پڑھنے والے پُرامن اور معصوم بچوں کو شدت پسندی اور دہشت گردی میں استعمال کیا گیا۔ ہمارے ملک میں ایک دوسرے کو مذہب کے نام پر لڑانا سب سے آسان کام ہے اگر یہ لڑائی کسی غیر مذہب والے کے ساتھ ہو تو شاید بات سمجھ میں بھی آئے لیکن ہم سب ایک ہی بنیادی عقیدے پر قائم ہو کر اُن باتوں پر اُلجھتے ہیں جو ہمارے بنیادی عقائد کو کسی طرح بھی متاثر نہیں کرتے لیکن پھر بھی ہم اِن کو کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اسلام جو برداشت اور محبت کا دین ہے جس کے نبی ﷺ نے انسانیت کے دل آپس میں جوڑے، صلہ رحمی کا سبق دیا اور قطع رحمی سے منع فرمایا اُس دین کے ماننے والوں میں نفرت کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں اس طرح نہ صرف پورا معاشرہ داؤ پر رکھ دیا جاتا ہے بلکہ دین اور مذہب کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دہشت گردی کا دائرہ پھیلتے پھیلتے اب ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیوں تک پہنچ چکا ہے اور دہشت گردی کے کئی واقعات میں انہی جدید درسگاہوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ملوث پائے گئے۔ ان تمام واقعات اور حالات کو مدنظر رکھ کر اگر سوچا جائے تو ماضی کے مقابلے میں ہماری درسگاہوں اور اساتذہ کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ان کی ذمہ داری پہلے بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت کرنا بھی تھا لیکن موجودہ حالات میں انہیں طلبہ میں رواداری، قوت برداشت، توکل علی اللہ اور شخصیت میں توازن پیدا کرنے میں بھی اپنی توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔ ہمیں اپنے نصاب میں اسلام کو اس کی درست روح کے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ ہماری کتابوں میں اگر رواداری کے عنوان سے کوئی سبق شامل بھی ہو، اخوت کا کوئی باب شامل نصاب بھی ہو تو امتحانی نظام کے بوجھ تلے دبے ہوئے اساتذہ اور طلبہ نصاب کو ختم کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ایک ذہنیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ بچہ ہے سدھر جائے گااور یوں اُسے حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اورسدھارنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی جاتی۔یہاں نہ اُستاد اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے نہ والدین ہر ایک، دوسرے کو اس ذمہ داری کا ذمہ دار سمجھتا ہے ہمارے معاشرے کے منفی رویوں میں ایک اپنی ذمہ داری سے فرار بھی ہے۔اس وقت ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ضرورت قوت برداشت کی ہے ہمارے ہاں جرائم یا دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ قوت برداشت کی کمی ہے ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو زیادہ اُجاگر کرتے ہیں اور خوبیوں کو کم اور نوجوانوں میں یہ اوسط اس لیے زیادہ ہے کہ ایک تو یہ عمر کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں کہ ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتے ہیں اور دوسرے تجربے کی کمی کے باعث وہ ایسی باتوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور پھر ان کا ردِعمل بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ان تمام عوامل کو مد نظر رکھ کر ہمیں اپنے نوجوانوں اور خاص کر طلبہ کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اور ایسی پالسیاں مرتب کرنا چاہیے جو اِن مسائل کو قابو کر سکیں۔حال ہی میں کوئٹہ میں سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی ایک ٹریننگ منعقد ہوئی جس کا موضوع ’’پاکستان میں انسانیت، اخلاقیات اور شہریت‘‘ تھا جس میں معاشرے میں اساتذہ اور طلبہ کے کردار پر زور دیا گیا جو ایک حو صلہ افزاء اقدام ہے ۔اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ آج کل کے حالات میں معاشرے کے ہر فرد کواپنے حصے کا کام کر نا ہے۔اساتذہ اور طلبہ معاشرے کا وہ طبقہ ہیں کہ اگر اپنی صلاحیتیں درست سمت میں استعمال کریں تو یہ بڑے سے بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔قائد اعظم طلبہ اپنا ہراول دستہ کہتے تھے اور آج بھی یہ اپناکردار اسی طرح نبھا سکتے ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان کی کردار سازی اس نہج پر کی جائے کہ غیر صحتمندانہ سر گرمیوں سے نہ صرف انہیں دور رکھا جائے بلکہ انہیں ان کی روک تھام کے لیے ہراول دستہ بنا سکیں۔اساتذہ اگر معاشرے میں ارتقاء کا باعث بنتے ہیں تو طلبہ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔پاکستان کے قیام میں طلبہ کا جو قابلِ فخر کردار رہا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں چاہے وہ علی گڑھ تھا،پشاور کا اسلامیہ کالج تھا یا لاہور کا ہر ایک نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔آج بھی ان اداروں میں انہیں طلبہ کی اگلی نسلیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اورا نہیں یہ احساس دلانا بہت ضروری ہے کہ اِن کی صلاحیتیں ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں اور جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا کہ اس سلسلے میں اساتذہ،والدین اور نصاب سازوں نے اہم کردار ادا کرنا ہے۔خود اِن نوجوانوں کے اندر پیدا ہونے والے تنازعات کو انہی کے ذریعے حل کروانے پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ جامعات اور درسگاہوں کا ماحول درست رہے اور توجہ اِن مسائل کی بجائے تعلیم پر مرکوز رہے اور ہم ایک اچھی قوم اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکیں۔