Posted date: July 22, 2018In: Urdu Section|comment : 0
ڈاکٹر شیر شاہ سید
میری بیٹی نے مجھے دو دفعہ حیران کیا۔ پہلی دفعہ جب اس نے مجھے لندن سے فون کرکے بتایا کہ وہ لاہورسے آئے ہوئے اپنے ہم جماعت لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے اوروہ یہ بھی چاہتی ہے کہ اس کی ماں کومیں سمجھاؤں کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اس کی ماں اور نانی طوفان کھڑا کردیں گی۔ دوسری دفعہ اس وقت جب منگنی کے بعد شادی سے صرف تین ماہ قبل اس نے مجھے رشتہ ٹوٹ جانے کی خبر دی تھی۔ دونوں دفعہ اس کی ماں اور نانی کو سمجھانا مشکل ہوگیا تھا۔ سمجھنا تومیرے لیے بھی مشکل تھا لیکن حالات سے سمجھوتہ اگر سمجھتا ہے تو اس لحاظ سے میری سمجھ اچھی تھی۔
ہم لوگ بہار سے پہلے مشرقی پاکستان آئے وہیں ڈھاکہ میں میری پیدائش ہوئی وہاں کے ہی پرائمری اور سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کی، نذرالاسلام کے گیت گائے، بچپن کے دوست بنائے، ڈھاکہ کی دہی اور پنیر کھا کر بڑا ہوا۔ چٹاگانگ کے ساحل اور سلہٹ کی پہاڑیوں کو دیکھنے کا موقع ملا، مشرقی پاکستان کے چھوٹے ریل کے ڈبوں میں سفر کیا، ندی اور نالوں کو پہچانا، دریاؤں میں ڈولتی ہوئی کشتیوں میں ایک پار سے دوسرے پار گئے اور وہاں کی بارشوں سے لطف اندوز ہُوا۔ بظاہر زندگی پرسکون تھی، کھانے پینے کو وافر تھا، کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا سب امن و آشتی کے ساتھ سکون سے رہ رہے تھے۔ نہ جانے کیا ہُوا کہ ابا جان نے فیصلہ کرلیا کہ انہیں مشرقی پاکستان میں نہیں رہنا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ پاکستان ایک مصنوعی ملک ہے۔ بنگالیوں کی اکثریت کے باوجود پاکستان پر مغربی پاکستانیوں کی حکومت ہے جو مشرقی پاکستان میں بہاریوں کو استعمال کررہے ہیں۔ ان کی مدد سے پاکستان کی اکثریت پر حکومت کررہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بہاری بہت زیادہ اقلیت میں ہیں لیکن صوبے کی حکمرانی میں ان کا بہت حصہ ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے زبان کے مسئلے پر ہونے والے فسادات دیکھے تھے۔ پاکستان کو بنے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ لوگوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف نعرے بلند کرنے شروع کردیے۔
اتنی جلدی یہ سب کچھ شروع ہوجائے گا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا وہ بھی اس بنگال میں جہاں پاکستان کی تحریک کا آغاز ہوا جہاں مسلم لیگ بنی، جہاں اُردو سے محبت کی جاتی تھی وہاں اُردو کے خلاف مہم چلے گی، اسے نفرت کا نشانہ بنایا جائے گا۔ تحریک کے نتیجے میں زبان کا مطالبہ تو مان لیا گیا مگر حکمرانوں نے اپنی حماقت، کوتاہ نظری اور خود غرضی سے نفرت کے جو بیج بوئے ا ن کی فصل اُگ رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں فسادات ہوں گے جس کا نشانہ بہاری بنیں گے۔ میں چھوٹا تھا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اندر اندر کیا کیا پک رہا ہے۔ ابا جان جہاندیدہ تھے بہار کے فساد میں ایک بھائی کھو چکے تھے جس کے قتل کے بعد ڈر ڈر کے رہنا ان کی عادت سی بن گئی تھی، خوف کی چادر وہ ہمیشہ اوڑھے رہے۔
ہم سب لوگ سب مغربی پاکستان آگئے تھے۔ ابا جان نے ڈھاکہ میں بنایا ہُوا گھر بیچ دیا، جمع شدہ پونجی لے کر کراچی آگئے۔ انہوں نے کم سرمائے اور بڑی محنت سے آہستہ آہستہ کراچی میں بھی زندہ رہے کے لیے لوازمات پیدا کرلیے تھے۔
میں نے بھی کراچی میں اسکول کی تعلیم مکمل کی تھی، انٹر کا امتحان اتنے اچھے نمبروں سے پاس کرلیا کہ مجھے کراچی کے میڈیکل کالج میں تو نہیں مگر لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تھا۔ چھ سال بہت تیزی سے کراچی لاڑکانہ کراچی کے چکر لگاتے ہوئے گزرگئے اور میں ڈاکٹر بن گیا تھا۔
ڈاکٹر بننے کے بعد میں باہر نہیں گیا، نہ جانے کیوں میرا خیال تھا کہ چانڈکا میڈیکل کالج سے پڑھے ہوؤں کو باہر کے ملک والے شاید موقع نہ دیں۔ یہ میری غلطی تھی، بعد میں بہت سارے لڑکے لڑکیاں جو چانڈکا کے پڑھے ہوئے تھے نہ صرف یہ کہ باہر گئے بلکہ پڑھ لکھ کر لوٹ کے بھی آئے اور کئی ان ہی ملکوں میں رہ گئے۔ لیکن مجھے اس کا کوئی خاص افسوس نہیں ہے۔ میں نے کراچی کے جناح ہسپتال میں ہاؤس جاب کرنے کے بعد کچھ عرصے تک جناح ہسپتال میں ہی کام کیا پھر گلشن اقبال کے علاقے میں اپنا دوا خانہ کھول لیا تھا۔ جلد ہی میرا دواخانہ چل نکلا۔
اس زمانے میں گلشن اقبال میں تیزی سے آبادی بڑھ رہی تھی اور ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم تھی۔ میں صبح سے شام تک دواخانے میں مصروف رہتا۔ میں اچھا ڈاکٹر تھا، مریضوں کو وقت دیتا تھا، ان کی سنتا تھا، میرے لیے مریضوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی بہت تیزی کے ساتھ علاقے میں میری مشہوری ہوگئی۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ میری آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا اور میں اچھی بلکہ بہت اچھی خوشحال زندگی گزاررہا تھا۔
ابا جان ریٹائر ہوگئے، گلشن کے ہی اچھے سے علاقے میں میں نے مکان بنالیا۔ میرا چھوٹا بھائی بھی ڈاکٹر بن گیا، اس نے سندھ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی پھر ڈاکٹر بننے کے بعد انگلستان چلا گیا اوروہیں کا ہوکر رہ گیا۔ شروع شروع میں تو وہ ہر سال آتا رہا لیکن امی اور ابا جان کے جانے کے بعد اس کا آنا جانا کم ہوگیا۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ انگلستان میں خوش اور مطمئن تھا۔ بہار سے بچ کر نکلے ہوئے اباجان کی اولادیں کہاں سے شروع ہوکر کہاں پہنچ گئی تھیں
ابا جان اور امی کی ہی زندگی میں میری، بھائی اور چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی تھی۔ اللہ نے مجھے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی۔ زندگی سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی مجھے۔ میری بیوی میرے والدین کی پسند تھی۔ وہ سگھڑ اور خانہ داری والی اچھے گھرانے کی بہاری لڑکی تھی۔ اس زمانے میں بہاریوں کی بہاریوں میں ہی شادی ہوتی تھی۔ اب تو حالات بدل گئے ہیں، بچے اپنی مرضی سے شادیاں کررہے ہیں۔ ہم لوگوں کے زمانے میں شادیاں والدین کی مرضی سے ہوتی تھیں اور ان کی ہی مرضی سے زندگی گزرجاتی تھی۔ آج کل یہ تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج کا طریقہ یہی ہے اور اسے تسلیم کرلینا چاہیے۔
شازیہ کی بات سن کر میں تھوڑا گھبرا سا گیا تھا۔ یہ تو مجھے پتہ تھا کہ شازیہ کے اپنے خیالات ہیں، اپنا ذہن ہے اور وہ اپنے فیصلے خود ہی کرتی ہے۔ اسے میں نے بہترین ترین تعلیم دلائی تھی۔ کراچی کے گرائمر اسکول میں داخلہ کرایا۔ وہ بلا کی ذہین تھی اور اچھے اسکول نے اس میں زبردست خوداعتمادی پیدا کردی تھی۔ گرائمر اسکول میں اسے پہلے سال سے وظیفہ ملنا شروع ہوگیا اور وہ تیزی سے ایک کے بعد ایک امتحانات پاس کرتی چلی گئی۔ میں اور میری بیوی دونوں ہی چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنے مگر اسے ڈاکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ انگلستان جا کر تعلیم حاصل کرے۔
گرائمر اسکول میں تعلیم کے دوران ہی اسے انگلستان کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ اور وظیفہ مل گیا۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ ذہین ہے مگر اس قدر ذہین، میرے خیال میں یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم تھا کیوں کہ میرے بچوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ شازیہ کی تو بات ہی کچھ اور تھی، ہم سب بجا طور پر اس پر فخر کرتے تھے۔
لندن میں اس کی ملاقات عظیم سے ہوئی۔ عظیم لاہور سے پڑھنے آیا تھا اور ان دونوں کی ملاقات کیمبرج یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی۔ دونوں کے ایک ہی مضامین تھے اور شاید دونوں کے مزاج بھی ملتے ہوں گے۔ جب وہ اپنے تعلیم کے تیسرے سال میں تھی تو اس نے اور عظیم نے فیصلہ کیا کہ اپنے اس رشتے کے بارے میں اپنے اپنے خاندانوں کو بتائیں۔ انہوں نے اپنے طور پر تو فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ وہ شادی کریں گے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ان کے اس فیصلے میں ان کے والدین بھی شامل ہوجائیں۔
عام طور پر بیٹیاں ماں کے قریب ہوتی ہیں، ان سے اپنے من کی بات کرلیتی ہیں، انہیں رازدار بنالیتی ہیں مگر ہمارے گھر میں یہ ایک عجیب بات تھی کہ میری بیٹی مجھ سے زیادہ قریب تھی۔ اس کا خیال تھا کہ میں اس کی باتیں آسانی سے سمجھ لیتا ہوں۔ اس سے بحث نہیں کرتا ہوں اس کی بات مان لیتا ہوں جبکہ اس کی ماں کو اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔
سچی بات تو یہی تھی کہ میں اس کی بات آسانی سے سمجھ بھی لیتا تھا اور اس سے اس کے بارے میں گفتگو بھی کرلیتا تھا۔ فریدہ کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ فریدہ روایتی قسم کی بیوی اور ماں تھی۔ اس کی ساری توجہ کا مرکز میں اور ہمارے بچے تھے۔ گھر چلانے کے اُس کے اصول تھے، بچوں کے بارے میں اس کے اپنے طریقہ کار تھے جن کی وہ پاسداری کرتی تھی۔ شازیہ کبھی ماں کی سنتی تھی اور کبھی اس کے خیالات اور مشوروں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتی تھی۔ کبھی تو اسے ماں پر بے پناہ پیار آتا اور کبھی وہ سخت ناراض ہوجاتی۔ ایک عجیب دلچسپ قسم کا تعلق تھا اس کا اپنی ماں کے ساتھ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت سی باتیں اپنی ماں سے نہیں کرتی تھی، اس کے خیال میں جو بات وہ سمجھتی کہ ماں سے کرنی ہے صرف وہی بات وہ فریدہ سے کرتی تھی۔ کچھ باتوں کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کی ماں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔
میرے ساتھ معاملات مختلف تھے۔ وہ مجھ سے ہر موضوع پر کھل کر بات کرتی اسے پتہ تھا کہ میں اس کے خیالات کا احترام کرتا ہوں اور مجھ سے ہر بات کرسکتی ہے۔ میں اپنی رائے ضرور دوں گا مگر تھوپوں گا نہیں۔ اسے احساس دلاتا تھا کہ اس کی رائے کی بہت اہمیت ہوگی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میری توقع کے خلاف اس نے میری بات مان بھی لی تھی۔
میں نے اس سے کہا کہ کہاں ہم لوگ بہار، بنگلہ دیش کے مہاجر اور کہاں وہ پنجابی لوگ۔ بیٹا تم نے سوچ لیا ہے۔
ہم نے سوچ لیا ہے ابو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ مجھ پر بھروسہ کریں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔
میں نے اس پر بھروسہ کرلیا تھا۔
فریدہ کو سمجھانا مشکل تھامگر کچھ دنوں کی بات چیت کے بعد ہم سمجھ گئے تھے کہ اس معاملے میں ہماری رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پھر لاہور سے عظیم ہم لوگوں سے ملنے آگیا۔ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ گورے چٹے رنگ کے ساتھ وہ جاذب نظر چہرے کا مالک تھا جیسے پنجاب کے امیر گھرانوں کے بچے ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اگر خوبصورتی کی کوئی اہمیت ہے تو ہماری بیٹی کے مقابلے میں وہ یقینی طور پر زیادہ خوبصورت تھا، وہ ایک پرکشش شخصیت کا مالک اور ایک وجیہہ انسان تھا، خاندانی دولت نے اس کی ذات میں خوداعتمادی بھی کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ مجھے اس سے تو نہیں اس کی خوبصورتی سے ڈر لگا تھا۔ بس دل سے یہی دعا نکلی کہ دونوں خوش رہیں۔
عظیم کا تعلق لاہور کے کافی مشہور خاندان سے تھا۔ وہ ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ امیر لوگ تھے۔ میں ایک معمولی سا ڈاکٹر گلشن اقبال میں ایک پانچ سو گز کے مکان کا مالک۔ ہماری زندگی لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مقابلے میں بہت خوشحال تھی مگر ان کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ ان کے خاندان میں سیاستدان بھی تھی اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی۔ وہ کاروباری بھی تھے اور افواج پاکستان کے اہلکار بھی۔ مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ہوئی کہ شازیہ کی شادی ایک اچھے دولت مند خوشحال گھرانے میں ہورہی تھی مگر دوسری جانب میں پریشان بھی تھا کہ اس طرح کے گھرانوں کے مسائل بھی عجیب ہوتے ہیں، کہیں میری بیٹی وہاں پریشان نہ ہوجائے۔ ایک متوسط گھرانے میں بیٹی کا باپ جو کچھ سوچ سکتا تھا وہ سب کچھ میں نے سوچا تھا۔ فریدہ سے بات بھی کی تھی، اس کے ذہن کو بھی پڑھا تھا، خوف اور تردّد کے باوجود ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔
جب وہ چھٹیوں پر آئی تو میں نے اسے اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ اس نے میری باتیں غور سے سنیں پھر ہنس دی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس کی ہنسی میں کچھ خوف ہے، تھوڑی پریشانی ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس نے اعتماد سے کہا تھا۔ نہیں ابو سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک رہے گا۔ بڑا بھروسہ ہے مجھے عظیم پر، بڑا اعتماد ہے اس پر وہ ایک اچھا آدمی ہے۔ بڑی ہم آہنگی ہے ہم دونوں میں۔ ایک طرح سے سوچتے ہیں ہم لوگ، ایک ہی طرح کے خواب ہیں ہمارے۔ ہم نے اپنی دنیا خود بنائی اور بسائی ہے۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ سے ہنس دی تھی۔
میں خاموش ہوگیا تھا۔ والدین اور کیا کرسکتے ہیں۔ آج کل بچوں کو صرف کہا جاسکتا ہے، سمجھایا جاسکتا ہے۔ ان کی سمجھ میں آجائے تو آجائے۔ اگر سمجھیں تو بھی ٹھیک ہے اور نہ سمجھیں تو بھی صحیح ہے۔ مگر نہ جانے کیوں میرے اندر دل کے اندر کچھ بھروسہ سا تھا کہ شازیہ کے ساتھ اچھا ہی ہوگا۔ یقیناً وہ جو کچھ کررہی ہے سمجھ بوجھ کر ہی کررہی ہے۔ وہ سمجھدار لڑکی ہے کبھی بھی اس نے مجھے مایوس نہیں کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہی رہے گی ہمیشہ کی طرح۔
پھر عظیم کے گھر والے کراچی آگئے۔ ایک رسمی سی منگنی کی تقریب ہوگئی اور ہم سب لوگوں نے یہ سوچ اور سمجھ لیا کہ ہماری بیٹی پنجابی خاندان میں بیاہ کر لاہور چلی جائے گی۔ ماضی کے بہاری خاندانوں میں ایسا کم ہی ہوتا تھا۔ مگر آج کل تو سب ہی کچھ ہورہا تھا۔ امریکا میں رہنے والے بہاری خاندانوں کے بہاری بچوں نے گورے، کالے، ہسپانوی اور ہر قسم کے امریکیوں کے خاندانوں میں شادیاں کرلی تھیں۔ اور کر رہے تھے، وقت بدل گیا تھا اور اس وقت پر کسی کا کوئی قابو ہیں تھا۔ وقت پر قابو بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس بدلتے ہوئے وقت کا فیصلہ ہم سب نے قبول کرلیا تھا۔
یہ طے ہُوا کہ شادی ایک سال کے بعد جب دونوں اپنی تعلیم مکمل کرلیں تو ہوگی۔ ہم لوگوں نے اپنے طور سے شادی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔
ایک دن خبر آئی کہ عظیم کی دادی کی طبیعت خراب ہے اور عظیم لندن سے لاہور چلا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے اس کے آنے کی فرمائش کی ہے۔ وہ ان کا بڑا چہیتا پوتا تھا وہ فوراً ہی روانہ ہوگیا تھا۔ چار دنوں کے بعد شازیہ کا فون آیا کہ وہ بھی آرہی ہے کیوں کہ عظیم کی دادی کی خواہش ہے کہ وہ اسے دیکھ لیں، نہ جانے کب ان کا انتقال ہوجائے اور مرنے سے پہلے وہ اپنے چہیتے پوتے عظیم کی دلہن کودیکھنا چاہتی ہیں۔
میں فریدہ اور شازیہ لاہور گئے تھے۔ میں دو دن کے بعد واپس آگیا جب کہ فریدہ اور شازیہ کو ان لوگوں نے زبردستی روک لیا تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ کچھ دنوں میں عظیم کی دادی کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ بالکل ہی ٹھیک ٹھاک ہوگئیں۔ بعض دفعہ بعض وائرس کے حملے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ مرض جان لے لے گا۔ خاص طور پر بڑھاپے میں طبیعت بگڑنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پہلے وائرس کا حملہ پھر پھیپھڑوں کا انفیکشن مگر بھلا ہوآج کل کے اینٹی بایوٹک کا کہ اس سے پہلے پھیپھڑوں کا انفیکشن جان لے لیتا، دوا نے زبردست کام کیا تھا۔
ہفتے بھر کے بعد فریدہ اور شازیہ دونوں واپس آگئے تھے۔ عظیم کے بڑے سارے گھر میں ان کی بڑی خاطرمدارت ہوئی تھی۔ عظیم کے گھر والوں نے فریدہ کو بہت عزت دی تھی اور ان کے ساتھ رہ کر اسے بہت اچھا لگا تھا وہ بہت خوش تھی کہ شازیہ کی شادی اچھے گھرانے میں ہورہی تھی۔ کراچی میں ایک دن رہنے کے بعد شازیہ لندن واپس چلی گئی۔
لاہور کے بڑے مہنگے علاقے میں بہت بڑی جگہ پر ایک بڑے سے احاطے میں ان لوگوں کے کئی مکان تھے جہاں پورا خاندان رہتا تھا۔ اسی احاطے میں ایک مہمان خانہ بنا ہُوا تھا، جہاں ہم لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ مہمان خانہ کسی بھی اچھے ہوٹل سے کم نہیں تھا۔ میں بھی مرعوب ہی ہوکر آیا تھا اور ساتھ ہی میرے اندر کا خوف مجھے پریشان کرنے لگا تھا۔ وہ لوگ ہماری حیثیت سے کہیں بڑھ کر تھے۔ ہمارا خاندان پڑھے لکھے لوگوں کا درمیانے درجے کا خاندان تھا جو اطمینان سے اپنی دنیا میں خوشحالی سے رہ رہا تھا۔
ہم لوگ سادہ زندگی عزت کے ساتھ گزارتے تھے زندگی اور حالات نے جو بھی کچھ ہمیں دیا تھا وہ ہماری حیثیت سے زیادہ تھا ہمیں اس کے علاوہ اور چاہیے بھی کیا تھا، ہمارے مقابلے میں یہ لوگ امیر نہیں تھے بلکہ بے انتہا امیر تھے۔ بڑا سا گھر، زمینداری اور کاروبار، رہن سہن کا شاہی طریقہ اور کہاں ہم لوگ اوسط درجے کے روزانہ کام کرکے زندہ رہنے والے لوگ۔ میں اندر ہی اندر یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا۔ میں نے اپنے خوف کا ذکر فریدہ سے بھی کیا مگر مجھے لگا جیسے وہ مطمئن تھی اور خوش بھی کہ شازیہ کی پسند اچھی پسند ثابت ہوئی تھی۔ عظیم ایک خوبرو نوجوان تھا گورا چٹا، طویل قامت اور پُرکشش۔ ایسے چہرے تو فلموں میں کام کرتے ہیں۔ ہماری شازیہ بہت اچھے نصیب لے کر آئی ہے۔
دو ہفتے بھی نہیں گزرے تھے میں شش و پنج کا ہی شکار تھا کہ ایک دن شازیہ نے فون کرکے بتایا کہ اس نے عظیم سے منگنی توڑ دی ہے۔ یہ دوسری دفعہ کی بات تھی جب اس نے مجھے حیران کردیا، فریدہ پریشان ہوگئی جو اسپیکر پر یہ سب کچھ سن رہی تھی۔
سب ٹھیک ہے ناں بیٹا میں نے پوچھا تھا۔
ٹھیک ہے پاپا اور ٹھیک نہیں بھی ہے۔ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔ ٹھیک اس لیے کہ میرے لیے یہی اچھا ہے اور اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ عظیم اس رشتے کو برقرار رکھنا چاہتا تھا جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کچھ عرصہ پریشانی میں گزرے گا، ہم دونوں جلد ہی ایک دوسرے کو بھول جائیں گے۔
فریدہ کے چہرے پر بڑھتی ہوئی پریشانی کے ساتھ میرے اندر نہ جانے کیوں ایک اطمینان کی لہر سی دوڑگئی تھی جس نے پُرسکون کردیا۔ یہی اچھا تھا۔ شاید میرے دل نے آہستہ سے کہا تھا۔
ٹھیک ہے شازیہ مگر وجہ تو بتاؤ میں نے فریدہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
سب ٹھیک ہے ابو سب ٹھیک ہے، میں نے سب کچھ ای میل میں لکھ دیا ہے اسے پڑھ لیں۔ پھر خدا حافظ کہہ کر اس نے فون بند کردیا تھا۔
ای میل میں لکھا تھا:
ابو امی!
پہلے تو مجھے اس بات کے لیے معاف کردیں کہ میرے اس فیصلے کے بعد دوستوں اور رشتہ داروں میں جو سبکی ہوگی وہ میری وجہ سے آپ دونوں کو ہی سہنا ہوگا۔ اس بات کے لیے بھی معاف کردیں کہ بظاہر ایک اچھے رشتے سے میں اپنی مرضی سے خود ہی الگ ہورہی ہوں جس کا آپ دونوں کو بھی افسوس ہوگا۔ مجھے احساس ہے کہ آپ دونوں کو بھی عظیم اچھے لگے تھے۔ عظیم مجھے بھی اچھے لگے اور شاید وہ اچھے بھی ہوں لیکن زندگی صرف عظیم کے ساتھ تو نہیں گزارنی ہے۔
وہ جس خاندان کا حصہ ہے اس خاندان کا ایک طریقہ زندگی ہے، اس طریقۂ زندگی کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ طریقہ زندگی، ان کے رہنے سہنے کے اصول، ان کی زندگی کا دستور میری آپ کی ہم سب کی زندگی سے مختلف ہے۔ بہت مختلف بلکہ ناقابل برداشت۔
ابو، ان کے گھر میں تھوڑے ہی دن رہنے سے یہ اندازہ ہوگیا کہ ان کی امارت، دولت اور عظمت کے پیچھے بہت سارے جھوٹ، دھوکے اور بے ایمانیاں ہیں، وہی طریقہ حیات ہے جس سے تمام عمر آپ نے اور میں نے نفرت کی ہے۔ جتنے دن میں وہاں رہی محکمہ زراعت کی ایک اچھی سی گاڑی محکمے کے ڈرائیور کے ساتھ ہمارے حوالے کردی گئی تھی، وہ ڈرائیور بیچارا ہماری ڈیوٹی نبھا رہا تھا، وہ ڈیوٹی جس کا محکمہ زراعت سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کے گھر میں بہت ساری گاڑیاں تھیں، مگر گھر کے لوگوں کے لیے سبزی گوشت پرچون کا سامان لانے کے لیے، گھر کے بڑے بوڑھوں کے لیے، میں اور امی جیسے مہمانوں کے لیے۔
حکومت کے مختلف محکموں کی گاڑیاں ڈرائیوروں کے ساتھ موجود تھیں۔ باتوں باتوں میں محکمہ زراعت کے ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ گھر کے چوکیدار بھی محکمہ پولیس سے آئے ہیں۔ باورچی سرکاری ہسپتال کا ہے اور صفائی ستھرائی کرنے والے میونسپلٹی کے ملازم ہیں جو اپنی ڈیوٹیاں اس گھر میں دیتے ہیں۔ عظیم کے خاندان کے سرکاری افسران اور سیاسی عہدیدار سرکار کی ہر رعایت کا فائدہ اُٹھارہے تھے۔ زمینداری تو اپنی جگہ پر مگر شان وشوکت سرکار کے کارندوں کی وجہ سے تھی۔
اس دولت اور امارت کا کیا فائدہ ہے، ابو جب پورا خاندان جونک بن کر سرکار کو چوس رہا ہے، میں نے عظیم سے بات کی تھی، میرا خیال تھا کہ وہ میری بات کو سمجھ لے گا مگر یہ میری بھول تھی۔ وہ کیسے سمجھتا وہ سمجھ نہیں سکتا تھا۔ کیمبرج اورلندن میں اپنی پلیٹ خود دھونے والا اپنے کپڑے خود استری کرنے والا عظیم لاہور میں مختلف تھا۔ چال ڈھال کا انداز بات کرنے کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ سب کچھ بدل گیا تھا اس گھر میں داخل ہونے کے ساتھ۔ اس کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اسی طریقۂ زندگی سے واقف تھا وہ۔ لندن یورپ میں چند سال گزار لینے سے زندگی کے وہ طور طریقے نہیں بدلتے ہیں جو ان خاندانوں کی میراث ہے۔
اس نے پیدا ہونے کے بعد سے آج تک زندگی ایسے ہی گزاری تھی یہی اس کا سچ تھا اس کے علاوہ کوئی بھی معیار، کوئی بھی اصول اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ لندن کی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کا پابند تھا مگر لاہور میں نہیں۔ انگلستان اور یورپ کی بڑی شاہراہوں پر چنگی دیتا تھا مگر پاکستان میں نہیں۔ چنگیاں اور ٹیکس تو چھوٹے لوگ دیتے ہیں، رعایا کا کام ہے یہ حکمرانوں کے لیے الگ قانون ہے اور رعیت کے لیے الگ۔ وہ پاکستان کی اس بدبودار اشرافیہ کا رکن ہے جس کے سچ اور جھوٹ دنیا کے سچ اور جھوٹ سے مختلف ہیں۔ اس کے اور اس کے خاندان کے اور اس جیسے خاندانوں کے بہت سے چہرے ہوتے ہیں، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔
ابو میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ان گھروں کی مائیں اپنے بچوں کو کیا سکھاتی ہیں کیسے دیکھتی ہیں کہ ان کے نہ کوئی اصول ہیں اور نہ ہی کوئی ایمان۔ کیسے زندگی گزارتے ہیں یہ لوگ لوٹے ہوئے پیسوں پر اور کس طرح استعمال کرتی ہیں ان اداروں کو جن کا استحصال ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے کرتے ہیں عظیم بھی کوئی مختلف نہیں تھا ان بچوں سے جو ایسے گھرانوں میں جنم دیتے ہیں، جھوٹ، بے ایمانی اور غریبوں کے استحصال سے ان کی پرورش ہوتی ہے۔ آنکھ کھلتے ہی اور ہوش سنبھالتے ہی یہ سمجھتے ہیں کہ عوام، سرکار اور سب کچھ پر ان کا حق ہے اور یہی صحیح ہے۔ غلطی تو میری تھی جسے یہ سب کچھ نظر نہیں آیا تھا۔
اسے میری باتوں پرحیرت ہوئی۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی، میں رشتہ توڑنا نہیں چاہتی تھی وہ مجھے اچھا لگتا ہے اچھا لگا تھا۔ میں نے کہا تھا کیوں ناں ہم دونوں لندن میں سادگی سے شادی کرکے یہیں رہ لیں۔ ایسی زندگی گزاریں جس میں دوسروں کا خون پسینہ بھوک حق نہیں شامل ہو۔ یہاں ہم اچھے سے رہ سکتے ہیں بغیر جونک بنے ہوئے۔
مگر وہ ہنس دیا تھا، الو! کیسی بے وقوفی کی باتیں کرتی ہو ہم لوگ ایسی زندگی کا تجربہ کرسکتے ہیں اس طرح گزار نہیں سکتے۔ ہزاروں سال پہلے بھی سماج ایسا ہی تھا اب بھی ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا چیزیں بدل جاتی ہیں اصول نہیں بدلتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تھا مجھے پہلی دفعہ اس سے گھن سی آئی تھی۔
یہ زندگی کا پہلا دھوکہ اور پہلا صدمہ ہے جسے میں جھیل لوں گی۔ آپ دونوں اپنا خیال رکھیں اور مجھے معاف کر دیجئے گا۔
میں نے دل ہی دل میں شازیہ کو کئی دفعہ چوما۔ میرا سینہ غرور سے بھر گیا تھا۔