سابق بھارتی آرمی چیف کا مالی انکشاف۔ سی بی آئی متحرک
Posted date: October 19, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
بھارت کی گزشتہ 65-66 برسوں کی جمہوری تاریخ پر اگر کوئی صاحب ضرورت سے زیادہ فخر کرنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور فخر وانبساط کے ڈھول پیٹیں، کوئی اُن کا ہاتھ نہیں روکے گا، ہر جمہوری ملک و قوم کی اپنی اپنی ثقافتی و سماجی روایات ہوتی ہیں ایسے جمہوری ملکوں کے اہم قومی ادارے، بشمول عدلیہ اور فوج، جمہوری طرزِ حکومت کے پابند ‘ اور آئینی احکامات کو تسلیم کرنے کی پختہ روایات اپناتے ہیں بہت سے ’تحفظات ‘ اپنی جگہ، مگر‘ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت نے گزشتہ پانچ برسوں میں نہ صرف کئی قسم کے کٹھن مشکلات کا سامنا کیا اندرونی وبیرونی مسلح دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے میں تاحال ہماری افواج حالتِ جنگ میں ہے اِس کے علاوہ فروری2008 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے جیسے تیسے دو ر کی آئینی مدت میں ملکی افواج نے اعلیٰ عدلیہ سمیت حکومتی اقدامات کی بھرپور تائید وحمایت کرکے دنیا کو یہ جتلادیا ’ پاکستان حقیقتاً پختہ جمہوری سفر پر رواں دواں ہے‘
اِس کے باوجود مغربی طرزِ فکر کے حامل ملکی اشرافیہ کے کچھ گروہ یا کچھ شخصیات پاکستان میں جمہوری حکومت کو ہمیشہ شک وشبہ کی نظر وں سے دیکھنے والے سیاسی دانشور ‘ تجزیہ نگار اور قلمکار جن کے دلوں میں یہ کھٹکا کسی مقام پر لمحہ بھر کو دم نہیں لیتا کہیں رکتا نہیں کہ ’سیاست‘ سیاستدانوں کا کام ہے فوج کام نہیں‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی منفرد عسکری قیادت سے کیا یہ ثابت نہیں کردیا ہے کہ پاکستانی فوج گزشتہ پانچ سالہ جمہوری عہد کی روایات پر حقیقی معنوں میں قائم ر ہی، اپنی آئینی ذمہ داری وں کا فوکس ملکی سیکورٹی تک محدود رکھا عملاً ثابت کردیا ہے کہ کوئی سیاست دان کسی عہدے پر فائز جمہوری حکمران ملکی افواج کو اب ’ڈاج ‘ نہیں دے سکے گا افواجِ پاکستان پر ’جمہوریت ‘کو ڈی ریل کرنے کے الزامات اپنی جگہ ‘اب یہ قصہ ِٗ پارینہ بن چکے، پاکستان پیپلز پارٹی نے گز شتہ پانچ برس اپنی مکمل آئینی اتھارٹی کے ساتھ پورے کیئے وہ قوم کو کچھ ڈیلیور کرپائے یا نہیں ‘ اِس کا فیصلہ 2013 کے عام انتخابات میں عوام نے کردیا، مسلم لیگ کی قیادت میں وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں مضبوط ومستحکم جمہوری حکومت قائم ہے، کل سے زیادہ پُر اعتماد شکل میں پاکستان میں جمہوریت مزید پائیداری سے نشوونما پارہی ہے یقیناًاُن حلقوں کے پاس اب ایسا کوئی جواز باقی نہیں رہا پاکستان مخالف عالمی مفادات سے وابستہ جو چند گروہ پاکستان میں جمہوریت کو لاحق بے بنیاد خطرات کی آہ وبکا اور نالہ وفریاد کرنے میں اپنا اور قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی علتوں اور عادتوں کی لاعلاج بیماری کا شکا ر بنے کسی نہ کسی بحران کے آمد کے منتظر رہتے ہیں اُن کے پاس یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں حاضر وریٹائرڈ بھارتی فوجی جرنیلز نام نہاد ’عظیم سیکولر جمہوریت ‘ کے ساتھ کس قدر جنونی‘ متعصبانہ ‘ نامنصفانہ اور رو یے اپنائے بھارت میں جمہوریت کو داغدار کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیے ! ‘ بھارتی سیکولر آئین کی دھجیاں اُڑانے والی بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے دھماکہ خیز شرمناک انکشاف کے بعد وہ کیا کہیں گے؟ 21 ؍ ستمبر 2013 کی اپنی ایک اشاعت میں ممتاز بھارتی اخبار ’روز نامہ بھاسکر‘ نے نمایاں شہ سرخیوں سے یہ خبر شائع کی ہے نئی دہلی ‘ ممبئی ‘ بھوپال ’ اندرو‘ احمد آباد ‘ جے پور ‘ چندی گڑھ ‘ بنگلور اور پونا سے ایک ہی وقت میں شائع ہونے والے بھارتی روزنامہ بھاسکر کی اِس خبر پر نجانے کیوں ہمارے تقریباً سبھی نجی الیکٹرونک میڈیا والوں نے ’چپ ‘ کا روزہ رکھا لیا اِس خبر پر کھل کر تبصرے تجزئیے نہیں کیئے گئے؟ بھارتی فوج کے سابق چیف کی اِس خبر میں ’بھد‘ اُڑنی تھی شائد یہ وجوہ ہو بھئی ‘امن کی آشا کے لفافے بھی تو آرہے ہیں نا کہیں وہ بند نہ جائیں یا اُن لفافوں میں موجود ’مواد‘ کا وزن کم نہ ہو جائے سابق بھارتی آرمی چیف کی بدنامی کی شدیدطعن و لعن کی گرد‘ اُن کی عسکری شخصیت پر‘ اُن کی عسکری پیشہ ورانہ کارکردگیوں پر اُٹھنے والے سوالات اُن کے ملکی ’حواری‘ بھی پشمانی کے پسینے پوچھنے لگیں نئی دہلی والے ناراض ہوجا ئیں؟دنیا بھر میں بھارتی فوج کے آئینی کردار پر انگلیاں اُ ٹھنے لگیں ‘
سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ متنازعہ بحث ومباحثوں میں یوں خوب گھسیٹے جا ئیں گے اپنے گزشتہ عسکری دورِ سربراہی میں اِن جناب جنرل صاحب نے کچھ کم نہیں کیا جنرل وی کے سنگھ نے بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے TDS ونگ ٹیکنیکل سروسز ڈویڑن کو اپنے مبینہ مقاصد کو بروئےِ کار لانے کے لئے کشمیر میں ذاتی مفادات کی منڈیاں لگا لیں، 2010 سے 2012 کے دوران جنرل وی کے کی ایماء پر بھارتی اسٹیٹ بنک سے اعلیٰ سطحی پیمانے پر 20 کروڑ روپے کے لین دین میں سنگاپور کی ایک گمنام کمپنی کو استعمال کیا گیا جس کے نام پر فوجی سازوسامان کی خریداری میں گھپلے ہوئے بلکہ بعض سینئر ملٹری آفیسرز کی ملی بھگت سے بھارتی زیر کنٹرول کشمیر کی کٹھ پتلی سری نگر حکومت کے وزراء کو خریدنے کی نیت سے اُنہیں تین سے چار کروڑروپے بطور ’نذرانہ ‘ ادا کیئے گئے تاکہ کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو مزید کمزور سے کمزور کرکے وہاں پر اپنی مرضی کے وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کے عمل ممکن بنایا جاسکے، بھارتی میڈیا میں اِس خبر نے غیر جانبدار سول سوسائٹی کو متحرک کیا گانگریسی اشرافیہ میں اِس خبر کے افشاء ہونے کے بعد کافی سراسیمگی پھیل گئی ہے کئی’ معززین‘ کے دامن پر لگے رشوت کے داغ سبھی ’نظروں ‘ والوں کو نظر آنے لگے ہیں بھارت کی سی بی آئی میں نئی بھگدڑ مچی گئی ہے مقبوضہ جموں وکشمیر کے وزیر زراعت غلام حسن میر نے تو TSD ونگ کے اہلکاروں سے ڈیڑھ کروڑ روپے خود وصول کرنے کا اعتراف کرلیا ہے، بھارتی وزارتِ دفاع اور سی بی آئی مشترکہ طور پر اِس کرپشن کی تہہ تک پہنچنے کی اپنی سی سر توڑ کوشش میں ہیں وہ یہ کوشش کریں یا درمیان میں اِس مسئلہ کو چھوڑ دیں مگر اِس خفیہ اطلاع کی تحقیقات عالمی ادار ے کے توسط سے ہونا اب ضروری ہوگیاہے بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدیدار جن میں جنرل اور میجر جنرل تک کی اعلیٰ عسکری شخصیات شامل معلوم ہوتی ہیں جو اپنے پُر جلال عسکری عہدوں کی دھونس دھاندلیوں سے اپنی بیگما ت کے نام پر کشمیر میں فلاحی خدمات کے نا م پر این جی اوز چلا رہے ہیں ’جموں وکشمیر ہیومن سروسنز آرگنائزیشن (JKHSO ( نامی این جی اوز کے عہدیداروں اور بورڈ کے ممبروں کی چھان پھٹک ہونا انتہائی ضروری تفتیش ہوگی، سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سمیت جتنے بھی فوجی افسر بھارتی زیر انتظام کشمیری علاقوں میں اب تک تعینات رہ چکے ‘ یا آجکل بھی وہاں پر ڈیوٹی کے فرائض ادا کررہے ہیں اُن سب کی غیر فوجی سرگرمیوں کی تفصیلات کا پتہ چلایا جائے اِنہوں نے ماضی میں کتنی این جی اُوز بنا ئی ہیں یا وہ اُن کے اب بھی حصہ دار رہے ہیں؟۔