انتخابات بنگلہ دیش میں اور الزامات پاکستان پر

bangladesh-articleLarge     نغمہ حبیب

بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت بھارتی احسانات کا بدلہ مسلسل پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی صورت میں دے رہی ہے۔ 2014 بنگلہ دیش میں انتخابات کا سال ہے جو کہ پانچ جنوری کو ہونے قرار پائے ہیں یعنی ایک بالکل اندرونی معاملہ ۔ لیکن بھارت کو اس میں شدید دلچسپی ہے کیونکہ عوامی لیگ کے دور حکومت میں بھارت کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور دور میں نہیں۔ عوامی لیگ بھارت کے لیے یوں بھی معاون ہوتی ہے کہ دونوں مل کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف بولنا بھارت کا پسندیدہ مو ضوع ہے اور جو ایسا کرے وہ اس کی پسندیدہ شخصیت یا حکومت ۔عوامی لیگ اور بھارت نے  بنگلہ دیش بنا کر جس پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی یہ دونوں اپنے مشن سے باز نہیں آئے۔ ابھی بھی یہ اسی کام پر مامور ہیں اور مصروف عمل بھی اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر بنگلہ دیش کے ہونے والے الیکشن میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی یعنی بی این پی کو حکومت کے خلاف مدد فراہم کر رہی ہے۔ دراصل عوامی لیگ نے اپنے دورِ حکومت میں اس کے علاوہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا کہ کچھ بنگالی سیاسی رہنماؤں کو پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں موت کی سزائیں سنائیں، پاکستان دشمنی کو ہوا دی اور اس کی مخالفت پیدا کی جبکہ پاکستان نے جب بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تو بس کرلیا،اور آج بھی پاکستانیوں کے پاس بنگلہ دیش کے لیے دعائیں ہی ہیں کہ اللہ اس کا آزاد اسلامی تشخص بر قرار رکھے۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش مشکل حالات کا سامنا کر رہا ہے اور جنوری کے الیکشن سے پہلے ہی کئی درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں دراصل بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور اٹھارہ دوسری سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ عوامی لیگی حکومت مستعفی ہو اور غیر جانبدار غیر جماعتی اور عبوری حکومت کے زیر نگرانی انتخابات ہوں کیونکہ عوامی لیگی حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ انتخابات شفاف طریقے سے کروائے اور یا بھارت کے اثر سے آزاد رہ سکے۔ بہر حال یہ اُن کا اپنا معاملہ اور مسئلہ ہے کہ وہ اسے عبوری حکومت کے زیر نگرانی کرائیں یا عوامی لیگ حکومت خود یہ فریضہ سرانجام دے، عوام سڑکوں پر آئیں یا گھروں میں رہیں، جس پارٹی کو بھی وہ ووٹ دیں یہ اُن کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور اُن کا قومی مسئلہ ہے لیکن خود بنگلہ دیشی میڈیا ایک غیر ضروری مسئلے کو ہوا دے رہا ہے اور ایسا وہ بھارت کی خوشنودی حاصل کر نے کے لیے کر رہے ہیں ۔ بھارت جس نے کہنے کو تو کہہ دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش الیکشن میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن اِن انتخابات سے پہلے ہی وہ مصروف عمل ہوگیا ہے اور ساتھ ہی اپنا فرضِ اولین یعنی پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی شروع کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے ہماری تاریخ کا ایک تلخ باب اُن سے وابستہ ضرور ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا مذہبی رشتہ ختم ہوگیا ہے جو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے سب سے مضبوط رشتہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان توڑنے کے بعد بھی بھارت کی تشویش ختم نہیں ہوئی۔ یورپ میں پڑھتے ہوئے ایک بنگالی طالب علم کا ایک پاکستانی طالب علم کو یہ کہنا ہی اُن برادرانہ جذبات کا اظہار ہے جو ان دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ہے کہ تم پاکستانی ہو لہٰذا تم عمر میں چھوٹے ہو یا بڑے میرے لیے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہو۔ بھارت نے اپنے سارے گھوڑے دوڑا دیئے اور پاک فوج پر مظالم کے ایسے ایسے الزامات لگائے جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ جو آبروریزی بنگا لی عورتوں کی انہوں نے کی وہ پاکستانی فوج کے کھاتے میں ڈال دی اُن کے مکنی باہنی کے مظالم تو چھپا دئیے گئے لیکن ان بنگالیوں کو جنہوں نے  غداری نہیں کی اور حکومت کا ساتھ دیا اُنہیں نوے سال کی عمر میں بھی پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ تاریخ کچھ عرصے کے لیے تو پوشیدہ رکھی جا سکتی ہے بدلی نہیں جا سکتی وقت آئے گا کہ بنگالی بھائی بھی دوست دشمن کی پہچان کر لیں گے اور بھارت کی پیروی میں جو غلط الزامات پاکستان پر لگائے جا رہے ہیں کہ خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق الر حمٰن آئی ایس آئی کی مدد سے عوامی لیگ حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور آئی ایس آئی اُسے مالی مدد فراہم کر رہی ہے بھی ظاہر ہو جائیں گے اور خود بھارت کی نیت سامنے آجائے گی ۔ دراصل طارق الر حمٰن کے دیگر خیالات تو جو بھی ہونگے لیکن وہ بھارت کو اپنا دشمن نمبر ایک ضرور قرار دیتے ہیں اگر میجر ضیا الر حمٰن کے بیٹے نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے تو پورا بنگلہ دیش بھی اس حقیقت کو جلد ہی تسلیم کرلے گا۔ اسی طارق الر حمٰن کا رشتہ ممبئی کے انڈر ورلڈکے داؤد ابراہیم سے بھی جوڑا گیا تھابنگلہ دیشی میڈیا  جوچاہے کرتا رہے لیکن پاکستان کے معاملے میں اُسے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ان الزامات کے لگائے جانے میں ہماری اپنی کمزوری بھی ہے اگر ہم خود کو مضبوط کر لیں ،آپس کے اختلافات ختم کر دیں اور اپنے قومی مسائل پر قابو پالیں تو کسی چھوٹی بڑی طاقت کو یہ ہمت ہی نہ ہو کہ وہ ہمارے بارے میں ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے۔ ہمارے میڈیا کو بھی ہر کسی سے ایوارڈ وصول کرنے کی بجائے اپنے ملک اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں کو ہر وقت چوکس رہنا چاہیے میڈیا کے خلاف جنگ تلواروں سے نہیں لڑی جا سکتی بلکہ اسے میڈیا کو ہی لڑنا ہے اور اس وقت تک لڑنا ہے جب تک دشمن کو خاموش نہ کر دیا جائے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top