بغل میں چھری منہ میں رام رام ‘۔چینی صدر کا دورہ بھارت

سیّد ناصررضا کاظمیThe Money Makers in Indian Military and Super Power Syndrome
چند دنوں پیشتر عوامی جمہوریہ ِٗ چین کے صدرشی جی پنگ نے بھارت کا دورہ کیا اپنے اِس اہم دورے سے قبل چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر ہمارے ہاں وفاقی ادارلحکومت اسلام آباد میں ’ شاہراہِ دستور ‘ پر آئین ‘ پا رلیمنٹ اور آئینی عزت ووقار کی بحالی کو برقرار رکھنے کی نہایت پیچیدہ و کشیدہ اور کسی حد تک بہت ہی تشویش ناک سیاست کے کئی جہتی ہنگامے اور شور شرابا ہورہے تھے‘ اسلام آباد کی سیکورٹی کی سوالیہ صورتحال کے پیشِ نظر چینی صدر کا دورہ ِٗ پاکستان ملتوی ہو ا ہے یا موخر کردیا گیا اِس کی تفصیلی خبر تاحال عوام کے سامنے نہیں آئی اگر ہمارے سیاسی وجمہوری حکمران اور اُن کی ٹیم کے ممبران اپنے میں تحمل وبربادی ‘ مدبرانہ عدم برداشت کی سیاسی حکمتِ عملی کو اپناکر چینی حکومت سے درخواست کرتے خود آگے بڑھتے جبکہ حکمران جماعت اور اِن کے پارلیمنٹ کے اتحادی سبھی اِن سیاسی دھرنوں اور مظاہروں کو ویسے ہی کسی خاطر میں وہ نہیں لارہے تھے وزیر اعظم پاکستان اور اُن کے خاص رفقاء چینی صدر کے اِس ددرے کی تمام تر حکمتِ عملی کو فوری طور پر تبدیل کر سکتے تھے، اسلام آباد کی بجائے پاکستانی حکمران چینی صدر کو لاہور یا کراچی میں مہمان بنالیتے، لاہور میں سیلاب تھا جبکہ پاکستان کا تجارتی’ حب ‘ ساحلی شہر کراچی میں اُن کا نہایت شاندار اور عدیم المثال استقبال ممکن تھا ،صرف دو روز تو اُنہوں نے رہنا تھا ،چینی عوام اور حکومت کو جمہوری مظاہروں اور عوامی مانگ کے ایسے کئی گنجلک نوعیت کے مناظر کا خوب عملی تجربہ ہے اُنہیں تو صرف پاکستان سے غرض تھی، اکثر وبیشتر ہمارے سیاسی نمائندے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چین اور پاکستان کی دوستی پر ایک دوسروں سے زیادہ گہری عقیدت ا ور وابستگی رکھتے ہیں عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کو منوانے کا ایک بڑا بہترین اور سنہری موقع حکمرانوں نے گنوا دیا، نامعلوم اُنہوں نے یہ کام کر کے امریکی خواہشات پر مبنی چینی دشمنی کی امنگوں میں کوئی اور رنگ بھرا ہے یا کوئی اور سیاسی چال چلی گئی ہے؟ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اِس حساس موقع پر اگر خود کو چینی صدر شی جی پنگ کے دورے کی خالص اہمیت وافادیت سے مربوط کر لیتے تو یقین کیجئے پاکستانی قوم اپنے وزیر اعظم کے اندر پائے جانے والے اِس نئے اور انوکھے احساس جمہوریت کی قدروں سے اُن کی والہانہ عقیدت پر وہ اُن پر ا ور زیادہ اعتماد کرتی کاش! ہماری سیاسی قیادت کبھی تو اپنی سیاسی سوچوں میں کوئی نیا پن پیدا کرئے ‘ کسی نئے چوکنا دینے والے حوصلہ مندتفکر کا کوئی ٹھوس مظاہر کرئے، جس میں جراّتِ خیال کا کوئی حیر ان کن جدید اندازِ نظر نمایاں ہو‘بہت افسوس ہوا پاکستان کے پُرخلوص عوامی جمہوریہ ِٗ چین کی امڈتی ہوئی ‘ بپھر تی
ہوئی دوستی کی قدر کرنے میں ہمارے سیاسی پالیسی ساز’’ بزرگ‘‘ سفارت کاروں نے ’بلاوجہ ‘ امریکا پرستی کا ایک اور کھلا ثبوت ہماری سفارتی کاری کی تاریخ میں رقم کردیا، چینی صدر شی جی پنگ کو پاکستان کے دورے کے اختتام پر ویسے بھی بھارت جانا ہی تھا اُن کے شیڈول کا یہ دوسرا مرحلہ تھا غالباً چین کے کسی صدر کے نزدیک بھارت کا یہ دورہ ایسے دوراہے پر ہوا ہے، جب وہاں جنونی عصبیتوں کے نام پر بی جے پی نے ایک ایسے بدنامِ زمانہ شخص نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ ِٗ جلیلہ پر لابٹھایا ہے جس کے ہاتھ بھارتی اقلیتوں خصوصاً گجرات کے مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں اب تک آنے والی خبروں کے مطابق چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان 22 ؍ارب ڈالر کے تجارتی معاہدوں پر دستخظ ہوئے ، دونوں سربراہوں کے مابین گفتگو کے کئی ادوار چلے، چینی عوام اور اُن کے اب تک کے سبھی رہنماؤں اور اعلیٰ سطحی زعماء نے ہمیشہ اپنے خطے میں بدلتے ہوئے حالات اور اِس کے ہم نظیر جدید اور نئی وقع پذیر‘ جنم لینے والی استعماریت کے تقاضوں کو بھاپنے میں رتی بھر کوتاہی نہیں کی ہے چین نے ہمیشہ اپنی منڈیاں دوسروں خصوصاً اپنے پڑوسی ملکوں کے لئے کھولنے میں بخل سے بھی کبھی کام نہیں لیا چین نے اس خطے میں کبھی سامراجی مقاصد نہیں رکھے چین نے ہمیشہ خطے میں پاکستان پر خصوصی بھروسہ اور اعتماد کیا جبکہ پاکستانی عوام نے بھی دو قدم آگے بڑھ کر چینی عوام کی جغرافیائی وثقافتی روایات کو اپنے دلوں کی دھڑکن بنانے میں فخر محسوس کیا، آج بھی کرتے ہیں خطے کے ملکوں کے مابین بے پناہ اعتمادی اور دوستی کے رشتوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اہل الرائے سفارتی دانشور اور قلمکار بخوبی یہ گواہی دیں گے کہ بھارت نے چاہے وہاں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو کبھی نئی دہلی نے چین کے ساتھ دوستی اور اپنائیت کا وہ پُراعتماد رشتہ بنانے میں نیک نیتی کا مظاہر ہ نہیں کیا جو وقت کا تقاضا ہوا کرتا ہے حالیہ چینی صدر کے دورے کے دوران دو واقعات بھارتی اسٹیبلیشمنٹ نے خود اپنی نگرانی میں انسپانسرڈ کراوئیے، ایک چینی صدر کی بھارت یاترا میں تبتی نوجوانوں کو جمع کرکے چین کے خلاف نہ صرف نعرے لگوائے، بلکہ ایک بے گناہ تبتی نوجوان کو جھانسا دے کر اُسے ایسا جھلسوادیا اُس کی قیمتی جان چلی گئی چین کو بھارتی یاد دلانا چاہ رہے تھے کہ ’دلائی لامہ ‘ ہمارے پاس ہے ؟دوسری جانب بھارتی فوج نے لداخ کے چینی علاقوں میں گھس کر چینی فوج کے خلاف عالمی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرڈالی، گزشتہ30 سال میں عوامی جمہوریہ چین کے سب سے زیادہ عوامی مقبولیت کے حامل چینی صدر شی جی پنگ کو بئی دہلی نے احساس دلایا کہ ’اور ناچل پردیش ‘ بھارت کا حصہ ہے بقول نئی دہلی کے’ چین اِس تنازعہ کو فراموش نہ سمجھے‘ نریندر مودی کا حال دیکھیں ایک طرف وہ چین سے اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے کررہا ہے ’بغل میں چھری ہے منہ میں رام رام ‘ صدیوں پر محیط بھارتیوں میں راسخ اِس سفارتی لعنتی تعصب اور عصبیتوں نے اکیسیویں صدی میں بھی بھارت کا پیچھا نہیں چھوڑا ’ کہاں تو سنیئے کہاں تک سنائیں ‘اتنا کچھ بھارت میں چینی صدر کے دورے کے دوران ہوا ہے ہمارے نجی الیکڑونک میڈیا کے سبھی ذمہ دار اِس اہم دو ایشیائی ملکوں (چین اور بھارت) کے سربراہوں کے دورے کے پس منظر میں چھپی مذموم بھارتی ذہنیت کے موضوعات پر کوئی ایک تجزیاتی بحث ومباحثے کے ٹاک شو کرنے میں پہلو تہی کے مرتکب نجانے کیوں ہو ئے؟علاقائی بالادستی کے زعم کی لاعلاج بیماری میں مبتلا بھارت کے اصلی چہر ے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع پاکستانی قوم پرست میڈیا کو ضائع کر نا زیب نہیں دیتا پاکستان اور چین کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے امریکا اور پاکستان کے چند وہ سیاست دان جن کے ذہنوں پر ہمہ وقت امریکی ذہنیت کا پردہ پڑا ہوا ہے اُسے آج نہیں تو کل ایک نہ ایک دن بے نقا ب ضرور ہونا ہے ۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top