نیا پشاور،نیا کے پی کے، نیا پاکستان کہاں

نغمہ حبیب
peshwar
پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں بہت اچھے اچھے منصوبہ ساز پیدا ہوئے بڑے اچھے منصوبے بنے جو دیکھنے میں انتہائی عملی محسوس ہوتے ہیں لیکن اس کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ منصوبے فائلوں میں بند پڑے رہ جاتے ہیں بنانے والے تو انہیں بنا کر پیش کر دیتے ہیں لیکن بنوانے والے انہیں بنوا کر عوام کو سبز بلکہ سر سبز و شاداب خواب دکھا کر ان سے داد وصول کرکے اور ان کے ووٹوں سے منتخب ہو کر حکومت اور سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پروٹوکول کا لطف اٹھاتے ہوئے انہیں عوام کے مسائل بھول جاتے ہیں۔ عظیم الشان محلات میں بیٹھ کر انہیں کچے مکان کی مشکلات کا احساس ہی نہیں رہتا، راستوں پر وہ کالے شیشوں کی بلٹ پروف گاڑی پر بیٹھ کر گزرتے ہیں اُن کے آگے پیچھے گاڑیوں کا اتنا بڑا قافلہ گزرتا ہے اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ گندی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نظر ٹھہرنا ممکن ہی نہیں رہتا اور یوں وہ ’’بے چارے‘‘ حالات سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔ یہ حال کسی ایک صوبے یا ایک شہر کا نہیں آپ چترال سے کراچی تک چلتے جائیں کوئی ایسا شہر نہیں جس کو صاف یا آلودگی سے پاک کہا جا سکے جبکہ دعوے ہر صوبے کی حکومت کر رہی ہے بلکہ آپ اسلام آباد کی کئی سڑکوں اور مارکیٹوں میں بھی گندکے ڈھیر ملا خطہ کر سکتے ہیں ۔ کراچی کے بارے میں ایسی رپورٹس روزانہ کی خبروں کی حصہ ہیں یہی حال لاہور، کوئٹہ اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں کا ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور عوام دونوں ذمہ دار ہیں ہمارا ہر عام آدمی سڑک پر گند پھینکتے ہوئے یہ ارشاد فرما کر اپنے فعل کے لیے تاویل پیش کرتا ہے کہ ’’اتنا گند تو پہلے سے پڑا ہے ایک میرے نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے‘‘ لیکن چونکہ حکومتیں با اختیار ہیں لہٰذا ان کا حصہ اس میں زیادہ سمجھنا بالکل بجا ہے لہٰذا حکام کو بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہو گی۔ میں نے کالم کے شروع میں پاکستانیوں کی منصوبہ بندی کی جس صلا حیت کا ذکر کیا ایسا ہی ایک منصوبہ خیبر پختونخوا ہ کی حکومت نے اپنے انتخابی نعروں بلکہ انتخابی منشور میں شامل کیا تھا جی ہاں بات بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا اصل منشور اور انتخابی منشور مختلف ہوتا ہے عوام کے سامنے رکھا تو انتخابی منشور جاتا ہے جو مکمل طور پر عوام کے لیے ہی ہوتا ہے لیکن عمل اُس کے اصل منشور پر کیا جاتا ہے جو پارٹی اور اُس کے رہنماؤں کے لیے ہوتا ہے اور یہی کے پی کے حکومت کے منصوبے کے ساتھ ہوا یا کم از کم اب تک ہو رہا ہے ۔ صوبے کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ نئے پاکستان کے وعدے پر دیا تھا لیکن تا حال نیا پشاور بھی نظر نہیں آیا۔ اقدامات اٹھائے ضرور گئے لیکن اُسے پا یہ تکمیل تک پہنچایا نہیں گیا بلکہ اکثر تو شروع بھی نہیں کیے گئے یا غلط سمت میں اقدام اٹھائے گئے مثلاََ پشاور کو خوبصورت بنانے کی بات کی گئی تو یو نیورسٹی روڈ پر طلباء سے پیٹنگ کروائی گئی یا طلبہ نے خود ہی کی جبکہ یہ دیواریں سادی بھی اچھی لگتی ہیں اگر ماحول صاف ہو ۔خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی دیواروں پر ٹرک آرٹ کروایا گیا جبکہ ضروری تھا کہ پہلے اس کے ارد گرد کچرے کے ڈھیر اٹھائے جاتے ،پشاور صدر بجلی کی تاروں بلکہ تاروں کے لٹکتے گچھوں سے اٹا پڑا ہے لیکن حکام کی نظر ادھر گئی ہی نہیں ہے یا جا جا کر پلٹ گئی ہے۔ ارد گرد کے علاقے تو کسی کی نظر کے جیسے محتاج ہی نہیں ۔ پشاور بورڈ کے علاقے میں بہتی نہر کو خوبصورت بنانے سے نہ صرف اس آبادی بلکہ پشاور کی خوبصورتی میں اضافہ کیاجا سکتا ہے اس پر کام شروع بھی ہوا اور بار بار ہوا چند گز کی لمبائی پر کام ہوتا ہے اور پھر روک دیا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو وقفے کی لمبائی کی وجہ سے لگتا ہے منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے ایسا بھی ضروری نہیں کہ لیڈر شپ کی بد نیتی کو اس میں دخل ہو گا لیکن نا اہلی ضرور ہے کہ خوش قسمتی سے اگر کوئی منصوبہ شروع ہوجاتا ہے تو اُسکی فیڈ بیک لینا بھی ضروری ہے اور تکمیل بھی ورنہ تو نا مکمل منصوبے تو وقت اور پیسے کا ضیاع ہی ہیں ۔ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ضروری ہے لیکن بہتر ہے کہ پورے شہر بلکہ پورے صوبے پر توجہ دی جائے ۔ ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف ہماری حکومتوں کا دھیان گیا ہی نہیں ہے یا بہت سارے مفادات انہیں نظر ڈالنے سے روک دیتے ہیں اور یہ مسئلہ ہے اونچی اونچی عمارتوں کا۔ ہمارے ہاں اونچے اونچے پلازے برساتی کیڑوں کی طرح اُگ رہے ہیں ابھی ایک پلازہ کی تمام دکانیں نہ خریدی گئی ہوتی ہیں نا کرائے پر دی جا چکی ہوتی ہیں کہ دوسرا ،تیسرا،چوتھا اور نجانے کتنے اور بن چکے ہوتے ہیں اگر تعداد میں اس اضافے کو تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ سمجھا جا رہا ہے تو یہ غلط ہے اگر ایسا ہوتا تو یہ پلازے بننے سے پہلے ہی بھرے جا چکے ہوتے ہاں یہ ضرور ہے کہ ان بلند وبالا عمارتوں نے شہروں کو گنجان اور تنگ کردیا ہے وہ زمین جو دس سال بعد کی ضرورتو ں کے لیے تھی آج ہی سے بند کر دی گئی جبکہ استعمال بھی نہیں ہو رہی حکومت سے درخواست ہے کہ اس پہلو کی طرف توجہ دے ۔پشاور صدر میں اب بھی کئی پلازے زیر تعمیر ہیں یہی حال یونیورسٹی روڈ کا ہے جہاں کئی منزلہ عمارتیں یوں بن رہی ہیں جیسے بچے اپنے کھیلنے والے بلاکس سے فٹا فٹ بلڈنگ بنا لیتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ بہت اچھی بات ہوتی اگر پہلے بنی ہوئی مارکیٹسں پہلے بھری جا چکی ہوتیں۔ صرف عمارتیں اور دکانیں بنا لینا کافی نہیں اصل بات وہاں کاروبار شروع ہوجانا اور چل جانا ہے اور یہ سب کچھ تنظیم اور ترتیب سے ہونا چاہیے ۔بازاروں میں دکانوں کے سامنے مستقل کھڑی دکانداروں کی گاڑیوں نے پارکنگ کی صورت حال کو بھی مخدوش کر رکھا ہے تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ ان دکانداروں کی گاڑیوں کومخصوص جگہوں پر رکھا جائے جو صبح سے شام تک دکان کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ سو روپے کی خریداری کرنے کے لیے دس منٹ کو آنے ولا گاہک تیس چالیس روپے پارکنگ کے دیتا ہے اور سارا دن بازار میں بیٹھنے ولا دکاندار مفت گاڑی پارک کرتا ہے اس معاملے پر ضرور غور ہونا چاہیے تاکہ نہ صرف خرید و فروخت کو آسان بنایا جا سکے بلکہ رش کو بھی قابو میں رکھا جا سکے ۔ یہاں تو ڈیو جیسی بڑی بس سروس کے بس سٹینڈ کی اپنی کوئی پارکنگ نہیں، اندر گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں اور باہر کھڑی کرنے کو جگہ نہیں لہٰذاسروس روڈ کو ہی پارکنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور یہاں مسافروں کو لانے اور لے جانے والی گاڑیوں ، رکشوں اور ٹیکسیوں کا ایک ہجوم رہتا ہے نتیجتاََسروس روڈ بند ہوجاتی ہے لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں ،آخر کیوں۔ کہنے کو یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں اور معاملات ہیں لیکن انہی چھوٹی چیزوں اور معاملات نے بڑے مسائل کو جنم دیا ہے جس نے عوام کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔حکومت چاہے قومی ہے یا صوبائی ان مسائل پر توجہ دے جن کا تعلق عوام سے ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کی بجائے اگر عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے تو انہیں سیاسی سہارے لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ایک سادہ اور پُر وقار پاکستان ہم سب کی خواہش ہے لیکن اس کے لیے خلوص نیت کی ضرورت ہے نعروں کی نہیں نعرے لگتے ہیں اور ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ ان کی حکومت کو بھی زندہ رکھتے ہیں لہٰذا سیاسی نعروں کی بجائے عملی کام پر توجہ دی جائے تو یہی قومی خدمت ہو گی اور ایسا ہوا تو نیا پاکستان خود بخود عملی شکل میں ڈھل جائے گا اس کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top