پاکستانی دستور اسلام اور شریعت کی روح

pakistan-constitution-islamicافتخار حسین جاذب

پاکستان کا دستور قرآن و سنت، اسلامی اقدار اور تعلیمات کا مکمل آئینہ دار ہے۔ موجودہ دستور میں کوئی بھی ایسی شِق نہیں ہے جسے شریعت سے متصادم قرار دیا جا سکتا ہو۔ لہذا دہشت گردوں کا یہ مطالبہ کہ آئین  سے غیر اسلامی شقیں نکالی جائیں  محض غلط فہمیوں یا منافقت پر مبنی ہے۔ اس مختصر مضمون میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کی آئین کے اسلامی تشخص سے واقفیت پیدا کی جائے تا کہ وہ دہشت گردوں کی منفی سوچ سے محفوظ رہ کر ملک کے موجودہ نظام  کو تقویت پہنچائیں۔

        پاکستان کے موجودہ  آئین کی پہلی شِق  کے مطابق ملک کا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان”  رکھا کیا گیا ہے۔ جدید دور میں پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے  اسلامی جمہوریہ  کا نہ صرف  تصور پیش کیا بلکہ موجودہ نظام کی صورت میں اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے رکھا۔ ہماری   پیروی  کرتے ہوئے ایران دنیا کا وہ دوسرا ملک بنا جس نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد “اسلامی جمہوریہ” کو اپنے سرکاری نام کا حصہ بنایا۔  آئین  کی دوسری شِق  کے تحت اسلام کو مملکت کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے۔ نیز دستور  میں یہ بھی  درج ہے کہ مسلمان وہ ہے جو اللہ کی توحید پر یقین رکھتا ہو اور حضرت محمدﷺ کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرتا ہو۔ دنیا میں کوئی  دوسرا آئین  نہیں جو کلمہء طیبہ  کی  ایسی عکاسی کرتا ہو۔ یہ حقائق  ثابت  کرتے ہیں کہ پاکستانی دستور دنیا کا واحد مسلمان آئین ہے۔ اگر دہشت گرد دستور سے کچھ واقفیت رکھتے  ہوتے  یا اسلامی  نظام کا مطالبہ کرنے میں مخلص ہوتے تو ہمارے دستور کی ہرگز مخالفت نہ کرتے۔

        اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو ساری کائنات پر  دستور  کی دوسری  شق میں تسلیم کیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ پاکستانی عوام اللہ کے نائب ہیں جو مملکت کا نظام منتخب نمائندوں کے ذریعے اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر چلائیں گے۔ پارلیمنٹ کا نام  “مجلسِ شوریٰ “دستور کی شِق نمبر 50 میں رکھا گیا ہے جو اسلامی روایات سے ہم آہنگ ہے۔ اکتالیسویں شِق کے تحت صرف ایک مسلمان ہی صدرمملکت بننے کا اہل ہے۔ شِق نمبر 62  کےمطابق مجلسِ شوریٰ  کے ارکان وہی افراد بن سکتے ہیں جو نہ صرف  مسلمان ہوں بلکہ کبھی کسی کبیرہ گناہ کے بھی مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ نیز یہ کہ پارلیمنٹ کے ارکان اللہ کی مقرر کردہ  حدود میں رہ کر ہی قانون سازی کر سکتے ہیں۔ یہ  سبھی اقدار اسلامی خلافت کے تصور کے عین مطابق ہیں۔ یہ حقائق  واضح کر دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کا یہ مطالبہ کہ دستور کو اسلام کے مطابق بنایا جائے محض ایک لُغو بات ہے۔ انھیں چاہیے  کہ مخالفت برائے مخالفت کرنے کی بجائے ہمارے آئین کی اسلامی روح سے آگاہی حاصل  کریں۔

        دستور کی شِق نمبر 227 کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو قرآن و سنت کے احکام سے متصادم ہو اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مروجہ قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام شِق نمبر228  کے تحت  عمل میں لایا جاتا ہے۔ یہ کونسل اسلامی فقہ کے ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے ارکان  خود یا کسی شہری کی درخواست پر کسی موجودہ قانون کےغیر اسلامی پہلو سے حکومت اور پارلیمنٹ کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ پاکستانی دستور کا سب سے اجاگر پہلو وفاقی  شرعی عدالت کا قیام ہے۔ یہ عدالت آئین  کی شق نمبر 203 کے تحت کسی بھی قانون کو کسی بھی وقت غیر اسلامی قرار دے کر کالعدم کر  سکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے ججز خود بھی ایسا  کرنے کے مجاز ہیں اور کوئی شہری بھی عدالت میں پیروی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اگر کسی شہری کو کسی قانون کے  غیر اسلامی ہونے کا یقین ہو تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شہری عدالت کا دروازہ  کھٹکھٹا سکتا ہے۔ فساد کی جو راہ دہشت گردوں نے اپنا رکھی ہے اس کا کوئی بھی اسلامی جواز ان حقائق کی روشنی میں باقی نہیں رہ جاتا۔

دستور کی شِق نمبر 31 کے مطابق حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن میں پاکستانی مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ نیز یہ کہ شراب، جوا ، بدکاری اور دیگر گناہ شِق نمبر 37 کے مطابق غیر قانونی اقدامات ہیں جن کی  سزائیں مقرر ہیں۔ ملک کےاقتصادی نظام  میں ربا ءکو شِق نمبر 38 میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ آئین  کی شِق نمبر 40 میں حکومت پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک سے اچھے تعلقات  قائم کرے اور    امتِ مسلمہ کودر پیش عالمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستانی دستور اور قوانین کے اور بہت سے اسلامی پہلو ہیں جن پر بحث کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ تا ہم یہ  آئینی اور قانونی حقائق دہشت گردوں کی گمراہ کن سوچ اور مطالبات کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں۔

        ہر قسم کے عیب اور خامی سے صرف اللہ ہی کی ذات پاک ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی آر نہیں کہ بلاشبہ ملک کے نظام میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں۔ تاہم ان کی اصلاح وقت کے ساتھ ساتھ  ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جو مثالی ریاست مدینہ میں  قائم  کی ہے اس کی ہو بہو تشکیل موجودہ دور کے گناہ گار مسلمانو ں کے لیے ممکن بھی نہیں ۔ نیز یہ امر بھی نظرانداز نہیں ہو نا چاہیے کہ مدینہ کی اسلامی ریاست بھی 23 سال کے عرصے میں کمال کو پہنچی تھی۔ لہذا عوام دہشت گردوں کے فساد اور گمراہ کن سوچ سے خود کو محفوظ رکھیں۔ ہماری اور اسلام کی سربلندی صرف اور صرف پاکستان کو مضبوط  کرنے اور آئین کے تحفظ میں مضمر ہے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top