Posted date: October 05, 2015In: Urdu Section|comment : 0
محمد عبد الحمید
سپیشل برانچ، پنجاب،کے طریقہ کار کے مطابق علاقائی دفتروں سے حالات اور واقعات کی رپورٹیں اردو میں آتی ہیں۔ صدر دفتر میں ان کا انگریزی میں خلاصہ تیار کیا جاتا ہے۔ انگریزی کی اصلاح کے لیئے ڈی۔ ایس۔ پی۔ اور ایس۔ پی۔ ہیں۔ چودھری سردار محمد، نے جب سپیشل برانچ، پنجاب، کے سربراہ تھے، طے کیا کہ ان کے دفتر سے جاری ہونے والی روزانہ رپورٹ اردو میں کی جائے۔
جب اردو اپنائی گئی تو انسپیکٹر بھی روزانہ رپورٹ تیار کرنے لگے۔ زبان بھی درست ہوتی اور بیان بھی واضح ہوتا۔ علاقائی رپورٹوں کی روح کا عکس بھی صحیح ہوتا۔ ایک مثال: کسی شہر میں کچھ لوگوں نے کسی مسئلہ پر احتجاج کیا۔ ایک وفد متعلق حکام سے ملنے گیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا، ’’وفد میں فلاں، فلاں، فلاں پیش پیش تھے۔‘‘
تصور کریں کہ وفد کا کوئی لیڈر نہیں، کسی تنظیم کا کوئی عہدہ دار نہیں۔ چند افراد ہیں جو بات کرنے والوں میں نمایاں تھے۔ ’’پیش پیش‘‘ لکھنے سے صورت حال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم کیسے ادا کریں گے؟
ہوتا یہ ہے کہ پہلے تصور یا مفہوم ذہن میں آتا ہے۔ پھر اس کے لیئے لفظ چنا جاتا ہے۔ اپنی زبان میں برمحل لفظ فوراً ذہن میں آ جاتا ہے۔ انگریزی پر جتنا بھی عبور ہو، مناسب لفظ اکثر تلاش کرنا پڑتا ہے۔ مثلا،ً ’’غیرت‘‘ کہا جائے تو فوراً اس کا مفہوم سمجھ جائیں گے لیکن انگریزی میں، جو ہمیں 14 سال تک پڑھائی جاتی ہے، کیا کہیں گے؟
دنیا میں کوئی ملک نہیں، جس نے کسی غیرملکی زبان کو اپنایا ہو اور اس کی تخلیقی صلاحیتیں پوری طرح استعمال ہوتی ہوں۔ چین و جاپان سے لے کر فرانس و جرمنی تک سب نے ساری تعلیم اپنی زبان میں دی اور ہر شعبہ میں اسے استعمال کیا۔ لیکن تحقیق، عالمی تعلقات اور تجارت کے لیئے جنھیں ضرورت تھی، انھیں انگریزی بھی پڑھائی تاکہ ترجمہ کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ لیکن کیا اس کام کے لیئے یہ دنیا کی واحد زبان ہے؟ کیا سب ترقی یافتہ ملک اپنی اپنی زبان میں یہ کام نہیں کرتے؟ اصل میں ہمارے سانولے اور کالے صاحب چاہتے ہیں کہ گورے صاحبوں کے نقش قدم پر چلتے رہیں۔ انگریزی کے بغیر ان کی حاکمیت کمزور ہو جائے گی، جس طرح برہمن پنڈت سنسکرت کے بغیر دھونس نہیں جما سکتے۔
انگریزی نواز اردو کا نفاذ روکنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ان پر دو طرف سے دبائو ہوگا، اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی۔ بیشتر وزیر اپنی کمزور انگریزی کی بنا پر کہیں گے کہ ان کے لیئے فائلوں پر سمریاں اردو میں لکھی جائیں۔ چنانچہ اعلا افسروں کو تعمیل کرنی پڑے گی۔ کچھ وزیر ویسے ہی اردو نواز ہوں گے۔ غلام حیدر وائیں وزیر اعلا، پنجاب، بنے تو انھوں نے حکم دیا کہ انھیں سمریاں اردو میں بھیجی جائیں۔ اس کی تعمیل کی جاتی۔
اگر آئین میں دی گئی مدت (1988 تک) کے دوران اردو کے نفاذ کے لیئے کہا جاتا تو اس سے گریز کرنے والوں کو معقول بہانہ مل جاتا کہ اردو کے ٹائیپ رائیٹر نہیں ہے۔ ان کی خریداری کے لیئے بجٹ میں رقم نہ رکھی جاتی۔ یوں ٹال مٹول چلتی رہتی۔ اب یہ بہانہ نہیں چلے گا۔ مائیکروسافٹ ونڈوز 7، 8 اور 10 میں اردو موجود ہے۔ کنٹرول پینل میں جا کر انگریزی کے ساتھ اردو زبان کا اضافہ کر لیں۔ پھر اردو کا کوئی سا کی بورڈ انسٹال کر لیں۔ فونیٹک کی بورڈ انٹرنیٹ سے مل جائے گا۔
اردو اور انگریزی کے کمپیوٹر پر دستیاب ہونے سے یہ آسانی بھی ہوگی کہ اگر اردو کی اصطلاح نامانوس ہے تو بریکٹ میں انگریزی میں دی جا سکتی ہے۔ جیسے جیسے اردو اصطلاحات کثرت استعمال سے مانوس ہوتی جائیں گی، انگریزی ورژن دینے کی ضرورت ختم ہوتی جائے گی۔
ہمارے وزیروں کی انگریزی سے واقفیت، الا ما شاء اللہ، واجبی سی ہوتی ہے۔ ایک صوبائی وزیر کو پہلے دن بتایا گیا کہ فائل پر انھوں نے منظور یا نامنظور لکھنا ہوگا۔ اگر کوئی فائل صرف کوئی بات آپ کے علم میں لانے کے لیئے ہو تو اس پر انگریزی میں seen لکھ دیا کریں۔ ایسی ہی ایک فائل آئی تو اس پر وزیر صاحب نے اردو کا حرف ‘‘س‘‘ لکھ دیا!
نیچے سے دبائو عملہ کی طرف سے آئے گا۔ نچلا عملہ چاہے گا کہ اسے انگریزی سے کشتی لڑنے کی بجائے فائلوں پر نوٹ اردو میں لکھنے کی اجازت دی جائے۔ جب کوئی افسر نہیں مانے گا تو وہ کسی سے توہین عدالت کی درخاست دلوا دیں گے۔ افسر گھبرا کر کہے گا کہ آپ لوگ اردو میں کام کریں۔ بس میرے انگریزی آرڈر کا ترجمہ کر کے لگا دیا کریں۔
جب سی۔ ایس۔ ایس۔ کا امتحان اردو میں ہو گیا اور اس میں سے انگریزی کا لازمی پرچہ نکل گیا تو سمجھ لیں کہ دریا کے آگے باندھا گیا بند ٹوٹ گیا۔ اردو میں امتحان دینے والے دفتری کام بھی اردو میں کرنے پر اصرار کریں گے۔ یوں اعلا افسروں پر نیچے سے دبائو مزید بڑھتے گا۔
مزید دبائو تعلیمی اداروں میں انگریزی لازمی نہ رہنے کی بنا پر آئے گا۔ حکومت پر شدید دبائو ہوگا کہ ایک غیرملکی زبان کو اختیاری مضمون بنایا جائے اور انگریزی کی جگہ چینی، فرانسیسی اور ہسپانوی پڑھنے کی بھی اجازت ہو۔ چین سے تجارت اور تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ فرانسیسی بہت سے افریقی ملکوں اور ہسپانوی سارے لاتینی امریکہ کے ملکوں کی زبان ہے (سوائے پرتگال) ۔ ان سے تجارت اور تعلقات بڑھائے جا سکیں گے۔
اس وقت یہ حالت ہے کہ دسویں میں 25 فیصد طلبہ صرف انگریزی میں فیل ہونے کی بنا پر پورے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔ 12ویں میں 50 اور بی۔ اے۔ میں 75 فیصد طلبہ اسی بنا پر فیل ہوتے ہیں۔ مشہور شاعر انور مسعود کہتے ہیں، ’’فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیئے۔‘‘
صوبہ بلوچستان اور خیبر اردو مکمل طور پر اپنانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پنجاب میں افسر زیادہ تر غلامانہ ذہنیت کے ہیں لیکن حکم ملے گا تو تعمیل کر لیں گے۔ سندھ میں صورت حال مختلف ہوگی۔ 1972 میں پ پارٹی کے ممتاز بھٹو نے سندھی کو واحد سرکاری زبان بنا دیا۔ اس پر شدید ہنگامے ہوئے اور فیصلہ بدلنا پڑا۔ اس کے بعد پ پارٹی والوں نے طے کر لیا کہ اردو م۔ ق۔ م۔ کی زبان ہے۔ چنانچہ وہ انگریزی استعمال کرنے لگے۔ سرکاری تقریبات میں اور حلف اٹھاتے ہوئے انگریزی استعمال کرتے۔ وزیر خزانہ انگریزی میں بجٹ تقریر کرتے (گو بیچ میں وضاحت انگریزی میں نہ کر پاتے اور اردو کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے۔) مرکز میں پ پارٹی کی حکومت ہوتی تو کوشش کرتے کہ انگریزی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اب جبکہ م۔ ق۔ م۔ کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، انگریزی پر زور ختم ہو جائے گا۔
میڈیہ کو بھی اپنے ذہن صاف کرنے ہوں گے۔ بات بات میں انگریزی، آسان اردو الفاظ کی جگہ بھی انگریزی (وزیر اعظم کی بجائے پرائیم منسٹر، صدر کی جگہ پریزیڈنٹ جیسے موٹے الفاظ۔) اور پروگراموں کے نام تک انگریزی میں ہوتے ہیں۔ بات بات پر عوام کو نصیحت کرنے والوں کو خود بھی انگریزی کی بیساکھی چھوڑنی ہوگی۔