Posted date: March 23, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
2014 کا مہینہ مارچ اختتام پذیر ہورہا ہے امریکی اور نیٹواتحادی افواج وعدے کے مطابق افغانستان سے اِسی برس کے آخر تک نکل جائیں گی؟ امریکا یہ کہتا ہوا بھی نظرآتا ہے کہ اُس کی فوج کے ’کچھ دستے‘ افغانستان میں اُس مغربی انفراسٹریکچر کے تحفظ کے لئے موجود رہیں گے، جو امریکا نے گزشتہ 2001 سے آج تک اپنے فوجی قبضہ کے بعد وہاں کے اہم مقامات پر فضائی اڈوں کی صورت میں قائم کیئے ہیں، امریکا کو افغانستان میں یہ جنگی جنونی مہم بڑی مہنگی پڑی ہے،1300 ارب ڈالر امریکی حکام نے افغان جنگ میں جھونک دئیے، مگر اِتنی مہنگی جنگ کے بعد سوائے ناکامی اور دنیا بھر کی رسوائی کے امریکا کو اور کیا ملا؟ اِس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں، اگرچہ ایسی لاحاصل جنگیں انسان کی حرص وہوس کی طاقت کے اظہار کی تشہیر کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں، مگر منفی خواہشا ت کی دنیا اپنے اندر سمیٹے آنے والی نسلوں کے لئے کھلی بُرائی کی کالک اپنے منہ پر ملے کبھی کبھی بہت بڑی بدنامی کا باعث بھی بنتی ہیں، آئندہ بھی بنتی ر ہیں گی، افغانستان کے خالص ذاتی مفادات کے معاملے میں امریکا نے پاکستان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ رعونت‘ تکبر‘ نخوت اور گھمنڈ کا اظہار کیا پاکستان نے اِس سلسلے میں امریکا کا کوئی ساتھ نہیں دیا بلکہ اقوام ِ متحدہ کے فیصلہ پر صاد کیا تھا یہاں یہ پہلو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے غیر جانبدار تجزیہ کار تسلیم کریں گے کہ اقتصادی ومعاشی صورتحال کے پس منظر اور تناظر میں یہ حقیقت اپنی جگہ پر تسلیم کی جائے گی کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ملک کے اندر جاری دہشت گردی کے علاوہ بھی کئی اور طرح کے چیلنجز کا سامنا گزشتہ تین دہائیوں سے رہا ہے 1998مئی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بلکہ غالباً1991-92 میں جمہوری اداوار میں امریکا نے پاکستان پر ’لیری پریسلر پابندیاں‘ عائد کر کے پاکستان کی قومی معیشت کو ناقابل ِ تلافی نقصان ہی نہیں پہنچایا بلکہ جب پاکستان نے بھارتی ایٹمی تجربہ کے جواب میں اپنا دفاعی نکتہ ٗنظر اپنے دفاع کے نام پر ایٹمی ڈیٹرنس ہونے کا برملا اعلان کیا اور دنیا پر یہ
ثابت کردیا کہ بھارت اب کسی غلط فہمی میں نہ رہے دنیا کو بھی پاکستان نے یہ باور کرادیا کہ وہ بھارت پر اپنا عالمی دباؤ ڈالے رکھے کہ اب پاکستان بھی اپنے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں یکساں طاقت کا حامل ملک ہے تو امریکا اور مغربی دنیا نے بہت بُرا منایا بھارت کو مزید ہلاشیری دی، یقینا اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت سرکار کے پاس دولت کے ذخائر کی پہلے ہی کمی نہیں تھی دوسرا وہ مسلم دنیا اور خاص کر اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ اپنے قیام سے آج تک شدید بغض وحسد اور کینہ رکھتا ہے، نئی دہلی سرکار کے دماغ سے یہ ’خناس‘ اب تک نہیں نکلاکہ ’برصغیر‘ ایک ملک نہیں رہا وہ تو تقسیم ِ ہند کا قائل نہیں‘پاکستان کی آزادی وخود مختاری اُس کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح چھبتی رہی ہے اُوپر سے پاکستان نے اپنے کو ایٹمی ڈیٹرنس سے بھی لیس کرلیا 2008 سے اب تک ملک کامیابی کے ساتھ جمہوریت کی معروف سیاسی راہ پر گامزن، مستقبل میں اب کبھی ملک کی افواج ملکی سیاست میں بلا واسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا دخل نہیں دیں گی، ملکی افواج آئینی میں تفویض کردہ اپنی پیشہ ورانہ سیکورٹی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا بھرپور اور غیر متزلزل عہد کرچکی ہیں، پاکستانی افواج کا یہ آئینی عہد بھارتیوں اور پاکستان مخالف عالمی طاقتوں کے گلے میں ’پھانس‘ کی مانند اٹکا ہوا ہے، اپنے زر خرید ملکی آلہ کاروں کے ذریعے دنیا بھر کے پاکستان مخالفوں نے ملکی باقاعدہ افواج کو میدان ِ سیاست میں گھسیٹنے کے ماضی قریب میں کیسے کیسے حیلے اور بہانے نہیں کیئے ’چیخنے والے چیختے چلاتے رہیں گے، دہائیاں دیتے رہیں گے، مگر آئین ِ پاکستان کے سامنے سبھی قومی اداروں نے سر ِ تسلیم خم کیئے اپنے عہد پر ڈٹے رہنے کا پختہ عزم کر لیاہے، پاکستان میں سیاست سیاست دانوں کا کام ہے فوج کا کام نہیں ہے‘ فوج ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا آئینی فریضہ انجام دینے کی پابند ہے وفاقی حکومت نے جب جہاں فوج کو اندرونی امن اواما ن کے خلفشار کو ختم کرنے کے لئے طلب کیا فوج ریاست کے اندرونی امن وامان کو بحال کرانے کے لئے جمہوری حکومت کی آواز پر فی الفور لبیک کہے گی،مضمون کے ابتداء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹوا فواج کی واپسی کی بات کی گئی درمیان میں بھارت کا تذکرہ آگیا یہ تذکرہ یونہی بلاوجہ نہیں آگیا 2001 میں جب امریکی افواج افغانستان میں فضائی بمباری کی بارش میں آنے والے وقفوں میں اتریں تو عین اُن لمحوں میں پینٹاگان کے عسکری حکام نے اہل ِ پاکستان کے ساتھ انتہائی بہیمانہ پاگل پن کی سفاکیت کا مظاہرہ کیا، امریکا پر حملے کا الزام ’القاعدہ‘ پر تھا، اُس وقت کی افغانی حکومت ’طالبان‘ کے ہاتھوں میں تھی، افغانی طالبان پر تو کسی قسم کا کوئی جرم نہیں تھا، وہ تو صرف بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکاری تھے، پھر آہستہ آہستہ اچانک القاعدہ کی باتیں کم ہونے لگیں ’طالب‘ مجرمان کی صورت اختیار کرگئے، کئی برسوں تک ’بن لادن‘صرف افسانوی کردار بن کررہ گیا تھا،جبکہ بعض امریکی
تھنک ٹینکس بوسٹن کے ’آئزن ہاور پراجیکٹ‘ جیسے نامی گرامی تھنک ٹینکس بھی مئی ابیٹ آباد والے واقعہ سے قبل یہ کہتے رہے ہیں کہ ’بن لادن‘ 2007 میں کب کا مارا جاچکا تھا کہ اچانک ابیٹ آباد کا مشکوک اور حیران کن واقعہ رونما ہو جاتا ہے؟ اور اب تک امریکیوں کا ضمیر مطمئن نہیں ہورہا، بدقسمتی سے امریکی اسکرپٹ رائٹرز نے ’بن لادن مودی‘ کو جس بھونڈے پن سے فلمبند کیا اور بن لادن کی لاش کو امریکی صدر کے حکم سے جس بہیمانہ طور سے سمندر برد کیا گیا ’بن لادن‘ اب امریکی حکام کے حواسوں پر ایک بھوت بن کر اُنہیں ہمیشہ ڈراتا رہے گا بن لادن کا یہ بھوت اُنہیں مطمئن اور پُرسکون بیٹھنے نہیں دے گا ہر کچھ دن بعد وہ نئی سے نئی توجیحات گھڑنے پر مجبور رہیں گے حال ہی میں جیسے آئی ایس آئی کے سابق چیف ریٹائرڈ جنرل پاشا کے نام سے امریکی اخبار نے بن لادن سے متعلق ایک اور کہانی شائع کردی ابھی مزید ایسی کہانیاں شائع ہوتی رہیں گی کل اُن کے لئے ’بن لادن‘ ایک مسئلہ تھا آج پاکستان کے سبھی اہم ترین حساس سیکورٹی ادارے خاص کر آئی ایس آئی جو عالمی سطح پر تسلیم انٹیلی جنس کی پیشہ ورانہ مہارت میں اپنا کوئی ثانی یا ہم سر نہیں رکھتی کثیر الجہتی ناقابل ِ عبور چٹانوں جیسی حصار کی خفیہ تنظیم میں دراڑ یں ڈالنے کی ہر امریکی کوششیں ناکامیاب واقع ہورہی ہیں یہ ہی کیا کم تھا کہ ’بن لادن‘کے نام پر رچائے گئے ابیٹ آباد کے ڈرامائی سین کے مناظر میں تشنہ رہ جانے والے فنی ’خلاء اور سقم‘ کے سنگین سوالات کے جواب نہ پینٹگان کے پاس اور نہ ہی امریکی کانگریس مینوں میں سے کسی میں اتنی جراّت ہے جو اوبامہ انتظامیہ سے یہ پوچھے کہ امریکی عوام کو مطلوب بن لادن کو زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ دنیا بھر کو خوف دہشت میں مبتلا کیئے رکھنے والے ایک عالمی مطلوب شخص کی شناخت کیوں نہیں کروائی گئی؟ لگتا تو ایسا ہے کہ ا بیٹ آباد آپریشن پاکستان کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تھی جبھی ایک پاکستانی مجرم شخص ڈاکٹر شکیل آفریدی کے سلسلے میں امریکا اِتنی زیادہ حساس فکرمندی کا مظاہرہ کررہا ہے حقائق چاہے کچھ بھی ہوں پاکستانیوں کے نزدیک افغانستان میں امریکی کردار کل بھی مشکوک رہا ہے آئندہ بھی مشکوک ہی رہے گا۔