افغان حکومت اپنے اداروں، عوام اور علماء کو لگام دے
Posted date: October 05, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان اور افغانستان دو ہمسایہ اور برادر اسلامی ممالک ہیں جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے ان دونوں ملکوں کے آپس میں مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی رشتے بھی موجود ہیں۔ افغانستان پر جب مشکل وقت آیا تو پاکستان نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی اور اس کے لاکھوں باشندوں کو سالوں نہیں دہائیوں تک اپنی زمین پر جگہ دی لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس کے باوجود ان دونوں ممالک کے تعلقات میں اونچ نیچ کا تناسب بڑھتا جارہاہے اور بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں بھی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ معاملات بہتر ہونے لگتے ہیں، دونوں طرف سے مثبت بیانات آنے لگتے ہیں اور ایک دم سے اس میں گرماگرمی پیدا ہوجاتی ہے جس میں اکثر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر الزامات لگادیے جاتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کرارہاہے جبکہ زمینی حقیقت اس کے الٹ ہوتی ہے۔ پاکستان خود اس دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور ان دہشت گردوں کی اکثریت افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہی تیار ہوکر آتی ہے اور وہاں یہ افغانستان سے درآمد ہوتے ہیں جو پاکستان کے طول وعرض میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ مذہبی ،ثقافتی اور معاشرتی رشتوں میں جڑے ہوئے ممالک ہیں یہاں تک کہ دونوں ملکوں کے عوام میں خونی رشتے بھی موجودہیں پاکستان نے افغان مہاجرین کی کئی دہائیوں تک میزبانی کی اور اب بھی کررہا ہے پھر آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری طرف سے ان جذبات اور احساسات کا اظہار نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو حالات کو بہتری کی طرف لے جائیں بلکہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے اکثر بڑے واقعات افغانستان سے ہی کنٹرول ہوتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ایسا کابل حکومت کی مدد سے ہو لیکن وہاں سے اس کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ پشاور اے پی ایس حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کابل گئے اور ثبوت پیش کیے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث لوگ افغانستان میں موجود تھے اور ان کے کارندے پاکستان میں درندگی کی انتہا کررہے تھے اس حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کو جب انتہائی تیز کیا گیا تو حالات کافی بہتر ہوئے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے نام نہاد عہدے دار اور مولوی فضل اللہ جیسے لیڈر افغانستان میں موجود رہے اور اب بھی ہیں جن کے خلاف افغان حکومت اور امریکہ نے اب تک موثر کاروائی نہیں کی۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل ایک بہت ہی اہم عنصر ہے جو پاکستان میں دہشت گردی میں اہم ترین کردار ہے۔ بھارت کا اثرورسوخ حکومت سے آگے بڑھ کر افغان عوام اور علماء تک پہنچ چکا ہے تبھی ایک طرف پشاور میں ایک نوجوان افغان نے کہا’’ دیکھابڈھ بیر میں ہم نے حملہ کردیا ناں‘‘جب کہ دوسری طرف افغان علماء کونسل نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ پاکستان میں جہاد جائز ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس فتوے کو ایک افغان حکومتی حکم نامے میں شامل کیا گیا ہے جو اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ افغان حکومت کی مدد پاکستانی طالبان کو حاصل ہے لیکن اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح وہ دہشت گردی کے خلاف ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط فوجی آپریشنز کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ضائع کردے گا اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افغان قوم بنیادی طور پر ایک جنگجو قوم ہے جو کسی بھی وقت حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو سکتی ہے اور اپنی مرضی کے خلاف حکومت کے خلاف تحریک کو خانہ جنگی کی صورت دے سکتی ہے قندوز پر حملہ اور قبضہ ایسے ہی نظریات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اگر احسان اللہ احسان اس فتوے کو لاگو کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں دوسری طرف افغان حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں اس کو مداخلت کا کوئی حق نہیں اس کی اپنی بقا ء بھی پاکستان کی بقاء کے ساتھ وابستہ ہے لیکن اس نے اپنے نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ میں ایک حصہ اسی کام کے لیے مختص کیا ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بات کرتا رہے۔ اگر اس کے علماء نے یہ بات کہی بھی ہے تو بجائے اس کے کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اس نے اسے اپنے حکومتی حکم نامے میں شامل کردیا ۔یہاں اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اور پاک فوج تو اپنی ذمہ داریاں پوری کرینگے ہی لیکن پاکستانی علماء کو بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں اس فتویٰ کا سختی سے جواب دینا چاہیے اور اگر اس میں ہماری مذہنی سیاسی جماعتیں شامل ہو جائیں تو اور زیادہ بہتر ہوگا ۔اگر یہ جماعتیں جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں بلکہ انتخابات اور حکومتوں میں شامل ہو کراس کا حصہ بنتی ہیں تو انہیں صرف حصول حکومت کے لیے اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ ریاست کی بقاء اور امن کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے افسوس کا مقام یہی ہے کہ یہ جماعتیں جمہوری عمل کا حصہ بنتی ہیں لیکن طالبان، داعش اور دیگر خودساختہ ولیوں کے خلاف زبان کھولتے ہوئے یا تو ان کے مفادات سامنے آتے ہیں یا خوف۔ اسلام امن ، سلامتی اور میانہ روی کا مذہب ہے اسے خوارج کے حوالے کرنے والے خود اس کی تضحیک کا باعث بن رہے ہیں لہٰذا اگر ایک طرف افغان حکومت اورپاکستان میں دہائیوں تک اور دہائیوں سے پناہ گزین اور یواین ایچ سی آر سے مسلسل مہاجرین کی مراعات لینے والے افغان باشندوں کو اپنے رویے درست کرنے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی علماء اور مذہبی جماعتوں کو حکومت اور پاک فوج کی مدد کے لیے آگے سے آگے بڑھ کر خود کوشش کرنا ہو گی تاکہ بھارتی دباؤکے زیر اثر افغان حکومت نہ صرف اپنے بلکہ اپنے اداروں، عوام اور علماء کے ارادوں کو لگام دے اور یہ احساس کرے کہ اس کا اور پاکستان کا امن اور وجود ایک دوسرے سے وابستہ ہے بھارت سے نہیں۔