نغمہ حبیب
امریکہ اور مغربی دنیا نے جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جنگ شروع کی ہے عالم اسلام اور خاص کر پاکستان اُن کی زد پر ہے ۔مسلمان ممالک کے خلاف حیلوں بہانوں سے کاروائیاں کی جا رہی ہیں بلکہ بیشتر اوقات تو کسی وجہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور کاروائی کر دی جاتی ہے، الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی جاری ہی رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں نیوزویک نے بروس رائیڈل کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں بروس نے الزام لگایا ہے کہ القائدہ کے ایمن انطواہری اس وقت پاکستان کے شہر کراچی میں موجود ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں اور پاکستانی ایجنسیاں بھی انہیں بچانے کی کوشش کر رہی ہیں باا لفاظ دیگر وہ پاکستان کی مرضی سے پاکستان میں موجود ہیں یا انہیں یہاں رکھا گیا ہے ۔ بروس نے یہ بھی لکھا کہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد ایسے کافی اشارے موجود ہیں جو الظواہری کی پاکستان میں موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں تاہم ایبٹ آباد میں اسامہ کی پکڑ آسان تھی اس لیے ممکن ہوئی لیکن کراچی میں ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا الظواہری محفوظ ہے۔ امریکہ اپنے جرائم کا ملبہ بڑی آسانی سے دوسرے پر ڈال دینے کا عادی ہے اس کارویہ ہمیشہ سے یہی ہے کہ وہ حاکم رہے اور دنیا محکوم۔ طاقت کے بل بوتے پر کام کرنے والا امریکہ جیسے چاہتا ہے کھیل کا پانسہ پلٹ دیتا ہے سو اب بھی وہ یہی کر رہا ہے۔ بروس رائیڈل سی آئی اے کے سابق اہلکار ہیں امریکہ کے چار صدور کے لیے مشیر برائے مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء رہے ہیں اِس خطے کے چپے چپے کے بارے میں معلومات ہونگی تو پھر وہ ایمن الظواہری کے بارے میں کیوں نہیں جانتے تھے اور اگر جانتے تھے تو پھر پہلے کیوں نہ بولے ۔2 مئی 2011 سے اب تک چھ سال گزر چکے ہیں تو چھ سال تک خاموشی چہ معنی دارد لیکن مسئلہ وہی ہے جو سب جانتے ہیں کہ مغرب اپنے تمام مسائل و امراض کے لیے ذمہ دار مسلمانوں اور اسلام کو سمجھ رہا ہے اور یہ بھی کہ اس بہانے اپنی قوت و طاقت کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے ۔وہی افغان نستان جہاں اُس نے اسامہ بن لادن اور دوسرے مجاہدین لیڈروں کو بنایا بھی اور استعمال بھی کیا جب اُن کی ضرورت وہاں نہیں رہی تو وہ دہشت گرد بن گئے۔ یہی طالبان اور دہشت گرد کبھی امریکہ کے منظور نظر تھے لیکن اپنی روایات کے عین مطابق استعمال کے بعد ان سب کو ردی کی طرح پھینک دیا گیا اور ایسے پھینکا گیا کہ وہ دوسروں کے لیے وبال جان بن گئے لیکن اس کے باوجود وہ انہی’’ متاثر ہ دوسروں‘‘ کو موردِالزام ٹھہرارہا ہے اور بروس رائیڈل کا الزام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ القائدہ ہو یا داعش ان سب کا موجدو مرشد خود امریکہ ہے اور دوسروں پر الزام لگاکر وہ خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ سی آئی اے کے نامہ اعمال میں ایسے بہت سارے جرائم موجود ہیں جو دنیا کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری ایک تعلیم یافتہ نوجوان اور ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص تھا پھر اُس کو آخر کس نے استعمال کیا اور کس نے اُسے دہشت گردی پر آمادہ کیا امریکہ اس کا جواب دے نہ دے دنیا کو اس کا جواب ضرور معلوم ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اپنے جرائم کی سزا دوسروں کو دی ہے 9/11 کے بعد اُس نے پورے عالم اسلام کو نشانے پر رکھ لیا اور جنگی طاقت اور قوت کے زعم میں انسانیت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر شہروں تک پر کھلے عام بمباری کی نہ بچوں کا لحاظ رکھا گیا نہ بوڑھوں کا نہ عورتوں کا اور نہ بیماروں کا اِن ملکوں کے پھول پودے بھی دشمن قرار پائے اور انہیں بھی خاکستر کر دیا گیا۔ اپنے کارندوں کو ہر جگہ پھیلا یا گیا اور اُس ملک کے باسیوں کو جانوروں سے زیادہ بے دردی سے مارا گیا اُس کی بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ تنظیم بڑی سفاکی سے مسلمان ملکوں اور خاص کر پاکستان میں سر گرم رہی اور یہاں کھلم کھلا ملکی سا لمیت کے خلاف کام کرتی رہی۔ سی آئی اے پوری دنیا میں عام جرائم اور خاص کر جنگی جرائم میں ملوث ہے چاہے وہ ویت نام تھا افغانستان تھا یا عراق اور شام ہر جگہ اُس نے بر بریت کی انتہا کی ہے۔ اپنے نا جائز مفادات کی جنگ میں اُس نے دوسروں کے جائز مفادات کو بھی کچلا ہے جنگ کے نام پر جنگی جرائم کی ایک لمبی فہرست اس کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اپنے اِن تمام جرائم کے بعد اس کا ایک اہلکار اٹھ کر دوسرے ملک پر اپنے ایک مطلوب شخص کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنا نقصان اٹھایا ہے امریکہ نے اس کا عشر عشیربھی نہیں دیکھا وہ ایک ٹوئن ٹاور ہی پر پوری مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر اتر آیا اور عملاََ اُس نے ایسا کیا بھی لیکن پاکستان میں ایسے واقعات روزمرہ کا معمول بنا دیے گئے بقول امریکہ 9/11 کے حملے میں پانچ ہزار جانیں گئی جو یقیناًافسوسناک ہے لیکن اس کے بدلے میں اب تک مسلمان ملکوں میں لاکھوں جانیں جا چکی ہیں جبکہ اس کاروائی کے منصوبہ ساز بھی امریکہ کے سابقہ دوست ہی تھے۔امریکہ اب بھی افغانستان میں موجود ہے اور خطے میں حالات کی خرابی اور دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے اور اگر یہ الزام لگا کر کہ ایمن الظواہری کراچی میں موجود ہے اور آئی ایس آئی اس کی حفاظت کر رہی ہے وہ سمجھ رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے رہا ہے تو اس الزام تراشی سے بہتر بلکہ ضروری یہ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے مہمانوں یعنی فضل اللہ اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے تاکہ سر گرم عمل دہشت گردوں کو روکا جا سکے اور خطے میں اور دنیا بھر میں قتل وغارت کو ختم کیا جاسکے۔اگر الظواہری کے کراچی میں موجودگی کا دعویٰ ایک امریکی کر رہا ہے تو وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اس کا قطعی ٹھکانہ کہاں ہے اور وہ اس کی خبر پاکستانی اداروں کو ضرور دے تاکہ اس کو گرفتار کیا جاسکے۔ اس سے کوئی بعید نہیں کہ سی آئی اے کے اب بھی اُس سے روابط ہوں کیونکہ اب بھی دہشت گردی زیادہ پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں میں ہے مغرب میں تو اکا دُکا واقعات ہی ہوتے ہیں تو وہ کہیں خود کو محفوظ رکھ کرپاکستان اور اس خطے اور اسلامی ممالک کے خلاف جو کھیل کھیل رہا ہے اُسے مزید طویل تو نہیں کرنا چاہ رہاتاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی ٹھیکیداری قائم رکھ سکے۔