القاعدہ اور داعش کی جنگ اور تحریکِ طالبان میں بڑھتی ہوئی دھڑا بندی

[urdu]

القاعدہ اور داعش کی جنگ اور تحریکِ طالبان میں بڑھتی ہوئی دھڑا بندی

ISIS

 افتخار حسین

 آپسی نفرت ، دشمنی، قبائلی تعصّب اور مالی مفادات کی جنگ نے تحریک طالبان کو متعدد دھڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ دھڑا بندی کی اس جلتی آگ پر القاعدہ اور داعش میں پڑنے والی پھوٹ اور جنگ تیل کا کام کر رہی ہے۔ تحریکِ طالبان کے بہت سے رہنما اور کمانڈر   القاعدہ سے اپنی پرانی وابستگی کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور وہ ابو بکر البغدادی کے حاشیہ بردار بن چکے ہیں۔ تحریکِ طالبان کے کئی رہنما داعش سے الحاق اور ابو بکر البغدادی کی بیعت کرنے کے خود ساختہ اعلانات کرتے رہے ہیں۔ مگر اب خود داعش نے حافظ سعید کو خراسان میں کمانڈر مقرر کرنے کا  با ضابطہ اعلان کردیا ہے۔ یقیناً داعش کا پاکستانی قبائلی علاقوں میں یہ بڑھتا ہوا اثر ورسوخ ایمن الظواہری اور القاعدہ کے لئے خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ ایمن الظواہری اور القاعدہ کے قبائلی علاقوں میں موجود دیگر رہنماتحریکِ طالبان میں دھڑا بندی اور لڑائی سے پہلے ہی فکر مند تھے۔ ظواہری سر توڑ کوشش کر رہاتھا کہ تحریکِ طالبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو لیکن اس ضمن میں اس کی کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ہوئیں۔

تحریکِ طالبان گزشتہ د و سال سے مزید دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے بالخصوص ملا فضل اللہ کا امیر بننا اس گروہ کے لئے نہایت سنگین نتیجے کا باعث بنا جو اس کو منظّم نہیں رکھ سکا۔اس صورتِ حال میں پیدا ہونے والے دباؤ کی وجہ سے تحریکِ طالبان کے رہنما اور ان کے کارندے ذہنی انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔اس دہشت گرد گروہ کی نِت نئے دھڑے وجود میں آنے کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا اور چھوٹے بڑے رہنما بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔حواس بختہ تخریب کار آپس میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اور اپنے ہی ساتھیوں کی برائیاں بیان کرنے میں رتب السان نظر آتے ہیں انتشار اور بد اعتمادی کی یہ کیفیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نہ تو تحریکِ طالبان کوئی نظریاتی گروہ ہے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی بھلائی کی امید رکھی جاسکتی ہے بھلا ایک ایسا گروہ جس کے رہنما اور رکن ایک دوسرے کے وجود کو برداشت ہی نہ کرتے ہوں وہ کیونکر مسلمانوں کا نمائندہ ہو سکتاہے۔

یہی وہ پسِ منظر ہے جو تحریکِ طالبان کے داعش کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کا باعث بن رہا ہے۔ داعش اور ابو بکر البغدادی کے مالی اثاثوں کی خبروں نے حوس پروردہ دہشت گردوں کی آنکھیں چندھیادی ہیں لہذا وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ابو بکر البغدادی کی خوشنودی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں وہ القاعدہ اور افغان طالبان کی بھی کوئی پروا نہیں کر رہے جن کے زیرِ سایہ انھوں نے جہاد کے نام پر دہشت گردی کا آغاز کیا تھا۔ درحقیقت القاعدہ کے عرب دہشتگردوں کی بھری ہوئی تجوریوں کی کشش نے ہی تحریکِ طالبان کو ان کی حمایت اور پشت پناہی پر آمادہ کیا تھا مگر یہ تجوریاں بھی خالی ہوتی جارہی ہیں۔ اسی لئے تحریکِ طالبان کی القاعدہ کے جہاد سے دلچسپی ماند پڑگئی ہے۔ لہذا جہاں داعش اور القاعدہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہیں تحریکِ طالبان کے رہنما بھی اپنے مالی مفادات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی پرانی وابستگیوں اور وفاداریوں کو ترک کر رہے ہیں۔ داعش کی طرف سے حافظ سعید کی تقرری،القاعدہ اور تحریکِ طالبان کے سبھی دھڑوں کے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے القاعدہ کے رہنما بشمول ایمن الظواہری اب اپنے ذاتی تحفظ کے لیے زیادہ فکر مند ہو چکے ہیں لہذا ان کی سرگرمیاں مزید کم ہو سکتی ہیں حافظ سعید کی داعش میں شمولیت کے ردِ عمل کے طور پر  تحریکِ طالبان میں مزید لڑائی اور دھڑا بندی ایک یقینی امر ہے۔ اس صورتِ حال کی بہتر ادراک کے لیے ہم اب تک اس گروہ کے وجود میں آنے والے دھڑوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

دھڑا بندی اور حواس بختی کے اس عالم کی ایک کڑی کے طور پر پنجابی طالبان کے رہنما      عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے گزشتہ سال طالبان سے علیحدگی کایہ اعلان سامنے آچکا ہے۔پنجابی طالبان بھی تحریکِ طالبان اور ملا فضل اللہ سے الگ ہو چکے ہیں ۔اس بیان کے مطابق تحریکِ طالبان کا اپنے اصل مقصد سے ہٹ جانا اس فیصلے کا باعث بنا تھا۔

عصمت اللہ کے مطابق پنجابی طالبان اب صرف افغانستان میں لڑیں گے اور پاکستان میں   دہشت گردی کی کسی مہم میں حصہ نہیں لیں گے۔یہ تحریک ِطالبان کے لیے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہو چکا ہے۔پنجابی طالبان ہی پنجاب اور سندھ کے شہری مراکز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ان کے بغیر تحریکِ طالبان بڑے شہری مراکز پر حملے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔پنجابی طالبان کی علیحدگی سے قبل جماعت الاحرار کے قیام کی صورت میں تحریکِ طالبان کے متعدد کمانڈر اور اہلکار          ملا فضل اللہ کو چھوڑ چکے تھے ماہرین کی رائے کے مطابق جماعت الاحرار اب تک تحریکِ طالبان کا وجود میں آنے والاسب سے بڑا دھڑا تھا۔اس قیام کےساتھ ہی تحریکِ طالبان سکڑ کر ملا فضل اللہ اور اس کے چند قریبی احباب تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔

جرائم، انتشار اور دہشت گردی کی متمنی تحریک طالبان بالآخر اپنے ہی بوجھ پر گرنے والی ہے ۔اس کے ارکان اور رہنماؤں کی آپسی نفرت اور دشمنی اس کے مجرمانہ مہم کے خاتمے کا باعث بنتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں عوام اور قبائلی باشندے بھی اس کے اسلام کے نام پر ہونے والے پروپیگنڈے سے آگاہ ہیں اور اس سے متنفر ہوگئے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے عوام کو جلد ہی تحریکِ طالبان کے شر سےنجات مل جائے گی۔انشااللہ

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top