امریکہ ۔ ۔ ۔دوست نما وشمن
1985 جب افغانستان میں جنگ زوروں پر تھی اور امریکہ اس جنگ کو لڑنے کے لیے مکمل طور پر پاکستان کا محتاج تھا اُسے افغان مجاہدین بنانے کے لیے بھی آئی ایس آئی کی مدد درکار تھی اور ان کے سخت ترین مزاجوں اور پہاڑوں سے آشنا ئی بھی پاکستانی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی لیکن اُس کا شاہانہ مزاج پھر بھی من مانی کرنے سے باز نہیں آتا تھا لہٰذا انہی دنوں میں اُس نے پریسلر ترمیم منظور کی۔ اس منظوری کے پیچھے سب سے زیادہ ہاتھ سینٹر لیری پریسلر کا تھا اس میں پاکستان کے اوپر یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا اگرچہ پاکستان نے اپنا یہ ارادہ دنیا پر واضح کیا تھا کہ اُس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی پروگرام نہیں لیکن ظاہر ہے یہ اُس صورت میں تھا جب اُس کا دشمن ایسا نہ کرے لہٰذا اُس نے اس ترمیم پر شدید اعتراض کیا کہ خطے میں یہ پابندی اُسی پر کیوں اگر ایسا ہو بھی تو پاکستان اور بھارت دونوں پر ہو ورنہ ہمیں بھی ایسی کوئی بات قبول نہیں۔ اس ترمیم کو بنانے اور منظور کرانے میں سب سے زیادہ متحرک سینٹر لیری پریسلر تھے اور اسی لیے یہ ترمیم پریسلر ترمیم کہلائی۔ لیری پریسلر اپنے اس کارنامے کے بعد بھی بھارت کے لیے خدمات اور پاکستان کی مخالفت سے باز نہیں آیا۔ اُس نے اپنی کتاب’’ Neighbours in Arms ‘‘لکھی اور اس میں ایک بار پھر پاکستان کی مخالفت کی۔ ابھی حال ہی میں اُس نے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان ہی شرپسندی پر مبنی تھا اور وہ یہ تھا
’’ thank you president Trump for calling out Pakistan on terrosism‘‘
اس مضمون میں پریسلر نے فخر یہ اعلان کیا کہ ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں پالیسی کے اعلان سے پہلے اس کی کتاب ’’Neighbours in Arms‘‘ کی ایک درجن کاپیاں تقسیم کی گئیں اس نے مزید تفصیل بیان کی کہ اس نے اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر223 پر لکھا کہ پاکستان کے ساتھ شمالی کوریا جیسا سلوک کرنا چاہیے اس نے یہ بھی لکھا کہ اگر پاکستان مکمل طور پر ایک ناکام ریاست نہیں تو اس کی وجہ امریکہ اور چین کی وہ مدد ہے جو وہ پاکستان کو دیتے ہیں اُس نے یہ الزام بھی لگایا کہ پاکستانی قیادت امریکہ کوبلیک میل کرتی ہے اُس نے پاکستان کے لیے اکٹوپس کا لفظ استعمال کیا لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کچھ تو غلط اور جرم کرتا ہوگا کہ وہ بلیک میل ہوتا ہے کیونکہ بلیک میل ہونے کے لیے کوئی جرم نہ سہی غلطی تو ضروری ہے اُس نے ٹرمپ کی غیر ضروری اور غیر منطقی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ ٹویٹ کا خوب استعمال کرتے ہیں بالکل رُوز ویلٹ کے ریڈیو پیغامات کی طرح جو وہ آتشدان کے سامنے بیٹھ کر دیتے تھے جبکہ باقی دنیا اِن پیغامات کو مضحکہ خیز قرار دیتی ہے کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے ٹرمپ یہ پیغامات کسی’’ خاص کیفیت‘‘ میں دیتا ہے ۔ اب ذرا ٹرمپ کے اُس رویے کی طرف آتے ہیں جس کی پریسلر تعریف کر رہا ہے اور بش کے بعد اُسے دوسرا عظیم امریکی صدر قرار دے رہا ہے ۔ ٹرمپ ہو، بش ہو یا یہاں تک اوبامہ جیسا سنجیدہ مزاج امریکی صدر سب کا پاکستان سے ہی ڈومور کا مطالبہ رہا اور اب بھی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح اور جتنی قربانیاں دی ہیں پوری دنیا میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ جنگ جو ایک سعودی باشندے جو افغانستان سے بقول امریکہ کے امریکہ پر حملہ آور ہوا تھا کے خلاف شروع ہوئی اُس نے پاکستان کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ،ستر ہزار سول اور فوجی جانوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ بے شمار مالی نقصانات کا ازالہ امریکہ کے چند بلین ڈالر سے ممکن ہی نہیں جس کا وہ احسان جتا رہا ہے۔ پاکستان اس دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جو سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے اور جو انسانی اور مالی و سائل خرچ کر رہا ہے امریکہ اُس میں بھی مدد دینے کو تیار نہیں ۔خود مغرب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے برطانوی صحافی پیڑک وینٹور نے اخبارگار جین میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر خاردار تار لگانے کے لیے امریکہ سے مالی مدد طلب کی ہے یہ مضمون انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے اپنی گفتگو کے حوالے سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ خاردار تار لگانے میں مدد سستا سودا ہے بہ نسبت افغان جنگ پر مسلسل اخراجات کے ۔ اس حفاظتی باڑ پر کل خرچہ 532 ملین ڈالر ہیں جبکہ افغان جنگ پر سالانہ اخراجات 45 بلین ڈالر ہیں ۔ ایک پاکستانی فوجی افسر کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ پاکستان اب تک 136 ،11 پوسٹیں اور 443 فورٹس بنا چکا ہے اور افغانستان کی نسبت سات گنا زیادہ خرچہ کر چکا ہے۔ اس مضمون میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ پوری اسلامی دنیا میں بالخصوص بدامنی کی وجہ افغانستان کے حالات ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو اب مغرب بھی پر امن نہیں رہا لیکن امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں دراصل وہ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے اگر وہ افغانستان میں دہشت گردوں کو ختم کر دے گا تو ظاہر ہے وہ اس خطے میں اپنی موجودگی کا جواز کھو دے گا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کر رہا ۔ امریکہ اور اس کا صدر ٹرمپ جو اپنی پالیسیاں تک ٹویٹ کے ذریعے دیتا ہے اگر سنجیدہ غور و فکر کے بعد یہ پالیسیاں دیا کرے اور مسلم اور اسلام دشمنی کو اپنے دماغ سے نکال دے، پاکستان کے خلاف بیانات بند کر دے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرے تو شاید امن قائم ہونے میں کافی مدد ملے ۔ اگرچہ مجھے ذاتی طور پر ان قربانیوں کا افسوس ہے جو ہم نے اس جنگ میں دیں ہم نے پرائی جنگ کو اپنی جنگ بنایا اور پھر اُس میں اپنے جوان اور عوام بے تحاشا جھونکے اپنے ا وروسائل اور ذرائع کو امریکی مفادات پر قربان کیا لیکن اس ناشکر گزار قوم کو خوش پھر بھی نہ کر سکے ۔مجھے اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ہم نے اُسے خوش کرنے کی کوشش ہی کیوں کی اور اس کوشش میں اپنی قومی زندگی اور زندگیوں کو داؤ پر کیوں لگایا اگر ہم اب بھی خود کو پہچان لیں اور امریکہ جیسے دوست نما دشمن سے جان چھڑالیں تو بہتر ہوگا اگرچہ اب بھی بہت دیر ہو چکی ہے لیکن ہمیں بھی اُس سے اپنا حساب مانگ لینا چاہیے تاکہ اُسے بھی احساس ہو کہ وہ پاکستان کا محسن نہیں پاکستان اُس کا محسن ہے اور پوری قوم کو اس بات پر شرمندگی ہے کہ اُس نے امریکہ جیسے ملک اور قوم پر احسان کیا ، لہٰذا اب مزید ’’نومور ‘‘۔ پاکستان نے ضرورت سے زیادہ ہی کر لیا ہے اب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو کرنا ہے وہ امریکہ کو کرنا ہے لہٰذا وہ کرے۔