Posted date: March 29, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے لیکن کہنے والے درست کہتے تھے کہ وہ پاکستان کے لیے واشنگٹن یا امریکہ کے سفیر تھے۔ انہوں نے اپنے دور سفارت میں امریکی مفادات کا زیادہ تحفظ کیا اور اس کے لیے ہر بار پاکستان کے مفادات کا سودا کیا۔ اس شخص نے ہمیشہ اپنی وفاداریاں تبدیل کیں وہ اسلامی جمیعت طلبہ سے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی تک پہنچے اور اس سفر میں اُس نے ہر با اثر شخص سے اپنے تعلقات استوار کیے۔ حسین حقانی ایک ذہین شخص ہے لیکن اُس نے اپنی ذہانت کا استعمال ملک کے لیے نہیں اس کے خلاف زیادہ کیا۔ حسین حقانی کے نامہ اعمال میں میموگیٹ جیسا بڑا سکینڈل بھی موجود ہے انہوں نے امریکیوں کو امریکہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے دھڑا دھڑ ویزے بھی جاری کیے یہاں تک کہ چھٹی والے دن سفارت خانہ کھلوا کر ویزے دئیے گئے شاید یہ خوف کہ کل یعنی ورکنگ ڈے پر کہیں کوئی محب وطن ہاتھ اُس کے قلم کو دستخط کرنے سے روک نہ دے بہر حال سفیر پاکستان نے چھ ماہ میں اندازاََ 2487 ویزے جاری کیے اور اس سے اگلے چھ ماہ میں اندازاََ مزید 1659 ویزے امریکیوں کو دیئے گئے ظاہر ہے کہ یہ ویزے دیتے وقت یہ بات دینے والے جانتے تھے کہ آخر اتنی تعداد میں ویزے کیوں مانگے جارہے ہیں لیکن پھر بھی یہ ویزے دیئے گئے اور ادھر آنے والوں نے اپنے ملک سے وفاداری کا پورا حق ادا کیا ۔سی آئی اے، بلیک واٹر اور دوسرے امریکی اداروں کے ایجنٹ پاکستان میں داخل ہوئے اور پاکستانی اداروں کو مطلع کیے بغیر اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاع امریکہ کو فراہم کی اور یوں پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج کیا گیا ۔ آج کل اس وقت کی سیاسی حکومت اور حسین حقانی ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرا رہے ہیں ہر ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُس نقصان کا ازالہ کون کرے گا جو ملک کو پہنچایا گیا اور خود کو مردم شناس اور نابغہ روزگار کہنے والے سیاست دان اور فوجی حکمران کیا کہیں گے جن میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے دور حکومت میں حسین حقانی جیسے شخص کو مزید سے مزید ترقی دی ان کی ذہانت کے گن گائے اور یوں بیرونی دنیا میں ان کو اپنے روابط بڑھانے میں مدد ملتی رہی اور ساتھ ساتھ اہمیت اور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوتا رہا جس کا پاکستان کو فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوتا رہا حالانکہ اگر انہی روابط کو پاکستان کے حق میں استعمال کیا جاتا تو حسین حقانی عزت کما سکتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ عزت ہر ایک کو راس نہیں آتی اور ایسا ہی اس شخص کے ساتھ بھی ہوا۔ اگر چہ اس معاملے میں اُس وقت کے وزیراعظم کا کردار بھی سامنے آیا ہے لیکن مرکزی کردار یہی شخص تھا ۔ اب کچھ لوگ پاکستان کی ایجنسیوں اور افواج کے کردار پر بھی اعتراض کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ویزے دینے کے معاملے کو کیوں اہمیت دی جا رہی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں بلکہ محترمہ نے انتہائی مضحکہ خیز نکتہ یہ اٹھایا کہ اُسامہ بن لادن کو کس نے ویزہ دیا تھا یعنی کسی نہ کسی طرح حسین حقانی کو بے گناہ قرار دیا جائے جبکہ حقیقت یہ ہے حقانی کے ذمے ایسے کئی اور جرائم موجود ہیں جو وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ مل کرسرانجام دیتے رہتے ہیں۔ فرح ناز اصفہانی امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر ابولحسن اصفہانی کی پوتی ہیں اُن کے خاندان کے کئی افراد کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خاتون خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں اور پاکستان میں اپنی جدوجہد کی من گھڑت کہا نیاں سناتی رہتی ہیں جبکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اِن خاتون نے پاکستان سے جتنا لیا اتنا کم ہی لوگوں کو ملا ہوگا اور یہی حال حسین حقانی کا ہے لیکن یہ دونوں اسی پاکستان کا امیج بگاڑنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ مختلف تنظیموں کے رکن بھی ہیں اور ان تنظیموں کا پلیٹ فارم وہ اپنے خیا لات کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کا مقصد اپنی خود نمائی ہوتا ہے اور اگر اُس خود نمائی کی قیمت ملک اور ملکی مفادات بھی ہوں تو وہ چوکتے نہیں۔چونکہ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف بات کرنے سے انہیں مغرب اور امریکہ میں جو قیمت اور نام حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور ذریعے سے ممکن ہی نہیں لہٰذا وہ اپنے ملک کے خلاف ضرور بولتے ہیں اور کھل کر بولتے ہیں اور پاکستان کے قومی اداروں اور فوج کی قیمت تو چونکہ بہت بڑی لگتی ہیں اس لیے اکثر وہ انہیں بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان کی تنظیم ساؤتھ ایشین اگینسٹ ٹیررازم اینڈ ہیومن رائٹس کو وہ اس مقصد کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔بھارت یاترا اور وہاں ملک کے خلاف خیالات کا اظہار بھی ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔جب وہ خبروں سے آوٹ ہو جاتے ہیں تو اِن ہونے کے لیے وہ ملک کے خلاف کوئی اور ایشو اُٹھا دیتے ہیں اور ویزوں کے ایشو کی تازہ ترین قسط بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔درست ہے کہ اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ آخر ایسا کس نے اور کیوں کیا اور ذمہ داروں کا تعین ہونے کے بعد سزا بھی ضرور دی جانی چاہیے لیکن اسے ملک کی سبکی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ دوسرے موقع پرستوں نے بھی حسین حقانی کے پلان کے عین مطابق اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا اور آئی ایس آئی اور فوج کو نہ صرف اس میں گھسیٹا بلکہ اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کو بھی ان اداروں کی ذمہ داری قرار دیا جبکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے کچھ اور ذرائع نہیں تھے جو اسے خبر دیتے یا مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دیتے اور اگر حقانی نے امریکی حکومت کی اس سلسلے میں مدد کی تو پاکستانی اداروں کو کیوں اطلاع نہیں دی۔دراصل جو دولت اور شہرت اس فعل کے بعد حسین حقانی کے حصے میں آئی وہ پاکستان کی مدد کرنے سے نہیں آسکتی تھی پاکستان کی مدد کرنے سے زیادہ سے زیاد ہ وہ پاکستان کے اندر جانے جاتے اور زیادہ سے زیادہ انہیں کوئی قومی ایوارڈ دے دیا جاتا لیکن باہر کی دنیا میں انہیں جو شہرت اور دولت نصیب ہوئی ان کے خیال میں’’قومی عزت‘‘ اس کا نعم البدل نہیں۔حقانی اور بیگم حقانی کو مغرب میں جس طرح سر آنکھوں پر بٹھایا گیا وہ ان کے انہی کارناموں کی بدولت ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں اس مقام تک اسی ملک نے پہنچایا ۔ ملک کوئی سیاسی جماعت نہیں جو وہ بدلتے رہیں وہ اس کی شہریت چھوڑ سکتے ہیں لیکن مرتے دم تک پاکستانی ہی کہلائیں گے اور امریکی شہریت تو اپنا سکتے ہیں امریکی بن نہیں سکتے۔فرح ناز اصفہانی اپنے اوپر سے یہ لیبل کبھی نہیں اتار سکتی کہ وہ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی پوتی ہیں وہ سی آئی اے اور را کے لیے کام کر سکتے ہیں لیکن بھارت اور امریکہ انہیں جاسوس اور ایجنٹ سے زیادہ حیثیت نہیں دے سکتے۔ انہیں ان ملکوں سے دولت اور شہرت تو مل سکتی ہے سٹیج پر تالیاں بھی بج سکتی ہیں لیکن عزت نہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ،عدلیہ اور دانشور بھی حسین حقانی کے بارے میں کافی نرم رویے کااظہار کرتے ہیں ایک شخص جو بار بار غداری کا مرتکب ہو رہا ہے اس کے لیے کسی سخت اقدام اور الفاظ کا استعمال نہیں کیا جا رہا۔ یہ شخص اپنے رویے، بیانات اور اقدامات سے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کی اہلیہ فرح ناز بھی ان تمام افعال میں ان کی ممدومعاون ہے لیکن اب یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ خود اور حکومتِ پاکستان اپنے اپنے رویے پر نظر ثانی کریںیا تو حسین حقانی پاکستان کے بارے میں اپنا رویہ درست کرے یا حکومت ان کے رویے پر سخت موقف اپناتے ہوئے انہیں یہ ہرزہ سرائی بند کرنے پر مجبور کرے۔