Posted date: September 30, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
اپر دیر میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں پاک فوج کےجنرل کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل ثناء اللہ اور لیفٹیننٹ کرنل توصیف ستار اور ایک لانس نائیک شہید ہو گئے۔ جی او سی سوات کے اگلے مورچوں کا معائنہ کرنے گئے تھے کہ واپسی پر گاڑی بن شاہی کے قریب دہشت گرد کاروائی کا نشانہ بن گئی۔ کالعدم تحریکِ طالبان نے واقع کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب امن مذاکرات نہیں ہوئے تو ہم حملے کیوں روکیں۔ پاک فوج پر اس طرح کے حملے جاری رہیں گے۔تحریکِ طالبان کے جاری کردہ اس بیان سے ملک میں قیام ِ امن کےلیے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے امکانات ایک بار پھر دھندلاتے نظر آ رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں سے امن مذاکرات کے بارے میں رضا مندی ظاہر کی تھی جس کا دہشت گردوں نے بھی خیر مقدم کیا تھا لیکن اپر دیر میں کی جانے والی کاروائی یقیناً امن مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی عفریت کو قابو کرنے کے لیے پچھلے سالوں کئی امن مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن بد قسمتی سے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتشار پھیلانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بہت سے اندرونی اور بیرونی طاقتیں کارفرما ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی یہ خواہش ہے کہ اس ملک میں دہشت گردی کی آگ کو نہ بجھنے دیا جائے۔ ملا نزیر اور ولی الرحمن کی ہلاکت بھی ان ہی ملک دشمن عناصر کی کارستانی تھی جو اس ملک میں ہونے والی تمام امن کوششوں کو ختم کر دینے کے درپہ ہیں۔
میجر جنرل ثناء اللہ کی شہادت اور اس طرح کی کاروائیاں مستقبل قریب میں ہونے والے امن مذاکرات پر بہت بُرا اثر دالیں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ عسکری قیادت سیاسی قیادت کے ہم خیال ہے اور امن کو یقیناً ایک موقع دینا چاہیے کیونکہ فوج بھی ملک میں امن کا قیام چاہتی ہے لیکن فوج کے اعلیٰ افسران پر حملے اس چیز کوظاہر کرتا ہے کہ طالبان امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ حیران کن طور پر سوات میں جی او سی کو شہید کرنے کے بعد طالبان نے ایک فہرست شائع کر دی ہے جس میں حکومت وقتِ پر امن مذاکرات کرنے پر شرائط عائد کی گئی ہیں جس میں سب سے پہلی یہ ہے کہ اگر حکومت امن مذاکرات چاہتی ہے تو کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھی قیدی جیلوں سے رہا کیے جائیں اور قبائلی علاقوں سے فوج کو نکالا جائے۔ تنظیم کے سرغنہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی کئی مذاکرات ہوئے لیکن وہ فوج کے عمل دخل اور حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ناکام ہو گئے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
گزشتہ دنوں منعقد ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا تھا پھر کیوں طالبان نے یہ حملہ کر کے امن مذاکرات کو ایک مشکل دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا؟ تحریکِ طالبان نے شوریٰ کے اجلاس کے بعد میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرنے سے امن مذاکرات کا یہ مرحلہ ایک بار دو قدم پیچھے ہٹ گیا ہے جس سے مذاکرات کی ناکامی کا بھی خدشہ ہے۔ اس پر گزشتہ دنوں تحریکِ طالبان کا یہ بیان کہ مذاکرات شروع ہونے تک فوج پر حملے جاری رہیں گے کیونکہ جنگ حکومت نے شروع کی تھی اس لیے وہی اسے ختم کرے گی۔ حکومت جنگ ختم کرنا چاہتی ہے تو سیز فائر کا اعلان کرنا ہو گا۔ اس بیان کے پیشِ نظر اور گزشتہ دنوں فوجی افسران پر حملہ اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ کچھ بیرونی طاقتیں تحریکِ طالبان کو مذاکرات کی جانب قدم بڑھانے سے بادستور روک رہیں ہیں۔ ان حالات میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا کردار کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ بیرونی عناصر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت ِ پاکستان اور تحریکِ طالبان کے درمیان مذاکرات کو سبو تاژ کر دیا جائے۔
پاکستانی قوم اس جنگ میں اپنے بہت سے پیارے کھو چکی ہے اور اب تک تقریباً 40,000 تک لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اگر طالبان امن مذاکرات کے لیے واقع سنجیدہ ہے تو پھر انھیں عملی طور پر یہ سنجیدگی دیکھانی ہو گی۔ ایک طرف امن مذاکرات کی حامی بھر کر دوسری طرف لوگوں کو شہید کرنے سے مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گے۔ اس طرح کی کاروائیاں کر کے یہ دہشت گرد یقیناً عسکری قیادت اور سیاسی قیادت کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں کیونکہ فوج اور حکومت جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے اپنے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ چاہتی ہے۔ امن مذاکرات کی جلد شروع ہونا یقیناً دونوں فریقین کے حق میں ہے کیونکہ امن کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور انھیں جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ اس لیے دونوں فریقین کو اپنی آنکھیں اور کان کُھلے رکھنے ہیں۔ دہشت گردوں کو بھی چاہیے کہ اگر وہ ان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو ایسی کاروائیوں سے گریز کریں جس میں معصوم لوگ شہید ہو رہے ہیں۔